کیا وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین کامیاب رہا ؟

وقت اشاعت :6جنوری2022

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ کیا وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین کامیاب رہا ؟  وزرا نے دورہ کامیاب ، اپوزیشن نے ناکام قرار دیا۔ تجزیہ کاروں نے  نتائج  کو مایوس کن  کہہ دیا۔

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق وزیراعظم عمران خان چار روزہ دورہ چین مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ۔ اس حوالے سے وزرا نے دورے  کی کامیابی کی نوید سنائی ہے جبکہ اپوزیشن رہنماؤں  نے دورے کو ناکام قرار دیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کی رائے بھی دورے کو ناکامی سے تعبیر کر رہی ہے ۔

اتوار کے روز میڈیا سے گفتگو میں فواد چودھری نے  بعض تجزیہ کاروں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ جنہیں بائی لیٹرل کےا سپیلنگ نہیں آتے وہ ماہر  بن کر تنقید کرتے  ہیں۔ یہ دورہ کامیاب رہا ہے ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی دورے کے حوالے سے  کامیابیاں گنوانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چینی سربراہان کی مفصل ملاقات ہوئی ہے جس میں سی پیک منصوبوں میں پیش رفت کا جائزہ لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی ملاقات میں افغانستان کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی ہے ۔

اپوزیشن کیوں دورے کو ناکام  قرار دے رہی ہے ؟

  ن لیگ اور پیپلز پارٹی  کی نظر میں یہ دورہ ناکامی سے دوچار ہوا ۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ حکومت نے پاکستان کی جگ ہنسائی کرائی ۔  ایسے حالات میں دورے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ سفارتی سطح پر کمزوریاں عمران خان حکومت کو بے نقاب کر رہی ہیں ۔

ن لیگ کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا   ہمارے دور میں سی  پیک معاہدہ  ہوا اور منصوبے شروع ہوئے۔ ان ساڑھے تین سالوں  پر سی پیک  میں کوئی پیشر فت نہ ہوسکی۔ اس حکومت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے

کیا شوکت ترین معاشی مدد لینے میں کامیاب رہے ؟

وزیراعظم اور ان کے وفد کے دورہ چین سے پہلے شوکت ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چین مدد مانگنے جارہے ہیں ۔ چین سے معاشی تعاون کی درخواست کی جائے گی ۔ یہ دورہ  مدد مانگنے کے  لئے ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کئی ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط ہونگے ۔ دوسری جانب وزیراعظم کے دورے کے دوران کوئی قابل ذکر معاہدہ سامنے نہ آسکا۔ تجارتی حجم میں اضافے کی بات ہوئی نہ ہی مستقبل کے  کوئی نئے معاہدے کی بنیاد رکھی گئی ۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں ؟

تجزیہ کار اکرام یوسف کی نظر میں یہ دورہ ناکام نہیں مگر زیادہ کامیاب بھی نہیں ۔ شاید حکومت پاکستان نے دورے سے زیادہ امیدیں لگا لی تھیں ۔ انہوں  نے کہا کہ  پاکستان کے بجائے چینی قیادت کی پوری توجہ صدر پیوٹن کی جانب  رہی ۔ روس اور چین میں 117ارب ڈالر کے نئے منصوبوں  کے معاہدے ہوئے ۔ ان منصوبوں میں تیل اور گیس کی تلاش کے متعدد پراجیکٹس شامل ہیں ۔ ایسے  میں پاکستانی وفد  سرمائی اولمپکس  دیکھنے تک ہی محدود رہا جیسا کہ مصر اور ازبک صدر بھی  محدود پروٹوکول کے ساتھ دیکھے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ دورے کے منفی نتائج سامنے آئے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے چین اور پاکستان کی دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر موجودہ  دور حکومت میں چین کچھ خفا  نظر آرہا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وزیراعظم کو چینی قیادت سے تلخیاں دور کرنے کا مشن دے کر روانہ کیا گیا تاہم یہ سرد مہری فی الوقت دور نہیں ہو پائی جو بدقسمتی ہے ۔