ندیم چشتی ، سپر لیڈ نیوز ، اسلام آباد۔ نام پر ٹھپے سے ووٹ کیسے مسترد ہو جاتا ہے ؟ سینیٹ میں چیئرمین کے چناؤ میں اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کے سات ووٹ مسترد ہونے پر آئینی بحث چھڑ گئی ہے ۔
سپر لیڈ نیوز کےمطابق جمعہ کو ہونے والے چناؤ میں پریزائیڈنگ افسر سینیٹر مظفر شاہ نے یوسف رضاگیلانی کے سات ووٹ مسترد کردیئے ۔ جس پر اپوزیشن نے رولنگ چیلنج کی تاہم فاروق نائیک کے دلائل کےباوجود سینیٹر مظفر شاہ نے فیصلہ صادق سنجرانی کے حق میں دے دیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر خانے کے اندر نام پر ٹھپہ لگایا جائے تو ووٹ کیسے مسترد ہو جاتا ہے ۔
سینیٹ انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت نہیں کروائے جاتے بلکہ یہ سینیٹ کے اپنے قوانین کی روشنی میں ہوتے ہیں ۔ قوانین کے مسودے کی شق نمبر نو کے تحت یہ چناؤ عمل میں آتا ہے ۔ اس انتخاب کا طریقہ کار وضع کرنا سینیٹ سیکریٹریٹ کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
سینیٹ سیکریٹریٹ کے قوانین حتمی ؟
اس ضمن میں سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے ووٹ کے اندراج کے لیے وضع کردہ ہدایات اہم ہوتی ہیں۔ نامزد پریذائیڈنگ افسر اس حوالے سے ووٹ کا طریقہ بتاتا ہے یا بیلٹ بکس کے قریب چسپاں کراتا ہے ۔ واضح رہے کہ پریذائیڈنگ افسر کا تقرر حکومت کرتی ہے جو خود بھی سینیٹ کا ممبر ہونے کے ناطے ووٹ ڈالنے کا مجاز ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ خود چاہے تو ووٹنگ کا بائیکاٹ بھی کر سکتا ہے ۔
کوئی ووٹ اگر مسترد ہو تو اس کے فیصلے کی اتھارٹی بھی پریذائیڈنگ افسر ہی ہے ۔ دوسری جانب اگر عام انتخابات کی بات کی جائے تو الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام، انتخابی نشان اور اس کے آگے ایک خالی خانہ بنا ہوتا ہے مگر سینیٹ کےبیلٹ میں ایک ہی خانےمیں امیدوار کا نام ہوتا ہے ۔
الیکشن ایکٹ کی شق نمبر 80 کی ذیلی شق چار کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق اگر ووٹر بیلٹ پیپر پر موجود امیدوار کے نام، انتخابی نشان یا آگے موجود خالی خانے میں سے کہیں بھی مہر لگا دے تو اس کا ووٹ درست تسلیم کیا جاتا ہےتاہم اگر یہ مہر خانے سے باہر ہو تو ووٹ مسترد ہو جاتا ہے ۔
مہر خانے کے اندر نام پر لگانے کی ممانعت نہیں ، اپوزیشن
الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات میں نو خانوں والی مہر دی جاتی ہے اور الیکشن ایکٹ کی شق 80 کے تحت جس امیدوار کے نام، انتخابی نشان یا خالی خانے پر اس مہر کے زیادہ ڈبے چھپے ہوں گے، ووٹ اس کے حق میں تصور ہو گا۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بیلٹ بکس کےسامنےجو ہدایات تحریر کی گئی تھیں اس میں کہیں نہیں لکھا کہ مہر نام کے آگے لگانی ہے ۔ بلکہ یہ لکھا ہے کہ خانے کے اندر مہر لگائی جائی ۔ ہمارے امیدواروں نے ایسا ہی کیا اور خانے کے اندر ہی مہر لگائی ۔ دوسری جانب حکومتی الیکشن ایجنٹ نے اپوزیشن کے دعوے کو مسترد کیا اور واضح کیا کہ رولز کے مطابق مہر نام کے آگے لگانی ہوتی ہے ۔
پیپلز پارٹی نے پولنگ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ عدالت اس درخواست کو قابل سماعت قرار دے گی یا نہیں کیونکہ آئینی طور پر پارلیمنٹ کی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی ۔ آئینی ماہرین کے مطابق اگر عدالت درخواست قبول کرلے تو نئی تاریخ رقم ہوگی ۔