SUPER PERSONALITY

بلوچستان سے خلا کا سفر

وقت اشاعت:20مارچ2021

کراچی کے پوش ایریا کلفٹن میں واقع ایک اعلیٰ معیار کے مشہور اسکول/کالج کی پرنسپل صاحبہ بہت ہی اسمارٹ اور اعلیٰ تعلیمیافتہ خاتون تھیں۔
ایک دن داخلہ لینے کے متمنی جب ایک لڑکے نے (اچھے نمبروں سے پاس) میٹرک کا سرٹیفکیٹ اور دیگر کاغذات خوش رو چہرے کے ساتھ پیش کئے تو لڑکے کے والد نے بتایا وہ اپنے اسی لڑکے کو اس اسکول میں داخل کرانے آئے ہیں۔
میڈم نے صرف ایک سوال کیا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟
جب میڈیم کو پتہ چلا وہ بلیدہ (بلوچستان) کے ہیں اور اب لیاری میں رہتے ہیں اور وہیں سے آئے ہیں تو ان کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں:
یہاں وقت ضائع نہ کریں۔ جہاں سے آپ آئے ہیں وہیں جاکر کھیتی باڑی کریں اور سکون کی زندگی گزاریں۔
یہ سن کر باپ بیٹا خاموشی کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ باپ نے بیٹے کی طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ میں نے پہلے کہا ہمیں یہاں نہیں آنا چائیے تھا۔
جناب! یہ تو کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ آج وہی لڑکا انگلستان کے کیمبرج یونیورسٹی میں نہ صرف ایک استاد ہے بلکہ خلائی سائنس سے وابستہ پہلا پاکستانی نوعمر سینئر ریسرچ سائنٹسٹ ہے!!!

نجیب محفوظ کونوبل انعام کیوں ملا؟

ڈاکٹر یارجان عبدالصمد 20 مارچ 1986 کو کیچ مکران (بلیدہ) میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کا مرحلہ وہیں طے کیا پھر لیاری آکر روز ایجوکیشنل سوسائٹی کے وائٹ روز اسکول بغدادی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کلفٹن کی خوشگوار فضا میں مزید تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہوا تو ہمت نہیں ہاری۔ علم کی جستجو انہیں ڈی جی سائنس کالج اور پھر کے پی کے میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی تک لے گئی جہاں قابل اور مشفق اساتذہ کی نگرانی میں ان کی ذہانت اور صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔
ان کی ابھرتی ہوئی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اسکالرشپ کے ساتھ امریکہ بھیجاگیا۔ ماسٹرز کے مراحل طے کرکے انہوں نے ٹیکنولوجی کے شعبہ میں امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں انہوں نے عملی طور پر جاپان اور جرمنی کے ٹیکنیکل ماہرین کے ساتھ مل کر نہ صرف خلائی سائنس کے شعبہ میں اپنی استعداد بڑھائی بلکہ اس سرکل میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ گو کہ وہ ابھی نوجوان ہی ہیں لیکن اس عمر میں وہ کیمبرج یونیورسٹی یوکے میں سینئیر ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ٹیکنولوجی پڑھاتے ہیں اورآجکل Space Base Project سے منسلک ہیں۔
ڈاکٹر یارجان بلوچ لیاری سے نکل کر "خلا” کے قریب ہی پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں سے اپنا رابطہ برقرار رکھا ہے۔ خاص طور پر وائٹ روز اسکول کے منتظمین۔ ٹیچرز اور اپنے دوستوں کے ایک حلقہ سے ان کا ناطہ جڑا رہا۔
ڈاکٹر یارجان بلوچ اب "آسمانوں میں” رہتے ہی تاہم انکا نرم لہجہ، سادہ الفاظ، انکساری کا مظاہرہ نوجوانوں کے لئے روشن مثال ہیں۔

Related Articles

Back to top button