کینیا کے ادیب گُوگی وا تھیانگو کی زندگی کے انمول خزانے

انٹرویو : ناندا ڈیشو (Nanda Dyssou)
اردو ترجمہ : افشاں نور (اوکاڑہ)


گُوگی وا تھیانگو (NGŨGĨ WA THIONG’O) کینیا کے عالمی شہرت یافتہ مصنف، عالم اور سماجی کارکن ہیں۔ گُوگی کے متنوع کام میں ناول، افسانے، ڈرامے، جریدے کے نشر پارے، مضامین اور نظمیں شامل ہیں جن کا ساٹھ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ یو سی اروائن/ اروین میں تقابلی ادب کے ایک ممتاز پروفیسر، انہوں نے متعدد تمغے اور گیارہ اعزازی ڈاکٹریٹ کی سندیں حاصل کی ہیں۔

گوُگی اپنی مقامی زبان گیکُویُو اور دوسری پسماندہ زبانوں کی پہچان کے لئے اپنی جنگ کی وجہ سے اپنے آپ کو زبان کا جنگجو کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور بڑا اعزاز: دوسرا سالانہ لارب یو سی آر تخلیقی، تحریری عرصہ حیات کا امتیازی نشان وصول کرنے کے موقع پر ایک انٹرویو دیا ۔ اردوترجمے کے ساتھ اسے سوال جواب کے طور پر دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے سیکشن سُپر شخصیات میں شائع کیا جارہا ہے ۔
*****
ناندا ڈیشو: “کیا  آپ نے کبھی سوچا تھا کہ بڑے ہو کر آپ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنف ہوں گے اور یہ کہ آپ کی کینیا کی کہانیوں کا ساٹھ مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا؟

گُوگی وا تھیانگو: نہیں کبھی نہیں، حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہ میں کبھی مصنف بنوں گا۔ کسی کو جو بھی تعلیمی مواقع میسر آئے ان کو گرفت میں لینے کو یقینی بنانے کی جدوجہد خاصا مشکل کام تھا۔ چند دستیاب اسکولوں اور کالجوں میں جگہ کے لیے مقابلہ بہت سخت تھا۔ ابتدائی اسکولوں سے کالجوں تک ہر دو سال بعد آخری یا حتمی امتحانات ہوتے تھے۔ تب بمشکل دوسرا موقع ہوتا تھا۔ ایک بار آپ مقابلے سے باہر ہوگئے، چاہے جو بھی وجہ ہو، آپ شاید ہی کبھی دوبارہ اس کا حصہ بن سکتے تھے۔ لیکن میں ہمیشہ پڑھنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ میں نے اپنی یادداشت، “ترجمان کے گھر میں” میں بیان کیا، زندگی میں پہلی بار ایک لائبریری میں داخل ہوتے ہوئے میری خواہش تھی کہ ایک دن میں دنیا کی تمام کتابیں پڑھنے کے قابل ہوسکوں۔ حقیقت جلد ہی خواہش کے پر کاٹ دے گی لیکن پڑھنے کی خواہش باقی رہتی ہے۔

آپ اپنے کیریئر کے اس مقام پر تحریری برادری میں اپنے مقام کے طور پر کیا دیکھتے ہیں؟

میں ایک زبان کا جنگجو بن چکا ہوں۔ میں دنیا کی ان تمام لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو پسماندہ زبانوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کوئی زبان کبھی بھی اس معاشرے کے لئے پسماندہ نہیں ہوسکتی جس نے اسے بنایا ہو۔ زبانیں موسیقی کے آلات کی طرح ہیں۔ آپ یہ نہیں کہتے کہ کچھ آلات کو عالمگیر ہونے دیں یا ایک ہی قسم کی آواز رہنے دیں جسے تمام گلوکار گا سکیں۔

آپ نے ابتدائی زندگی میں ہی اشاعت کی کامیابی حاصل کی۔ آپ کا پہلا ڈرامہ “سیاہ گوشہ نشین” 1962 میں بنا اور 1963 میں شائع ہوا۔ آپ نے اپنے پہلے دو ناول “درمیان میں دریا” (1965) اور “روؤ مت بچے” (1964) تنقیدی تعریف کے لیے لکھے جبکہ آپ کالج میں دوسرے سال کے طالب علم تھے۔ کیا آپ کبھی پریشان تھے کہ آپ اپنے ابتدائی بیس سالوں کی کامیابیوں کو دہرا نہیں سکتے؟

دراصل کئی سالوں تک میں نے اپنے ابتدائی ناول کو ایک نوآموز کے کام کے طور پر سوچا۔ چنانچہ جن ناولوں اور ڈرامے کا آپ نے ذکر کیا ان کے ساتھ ساتھ آٹھ یا اس کے قریب افسانوں اور ساٹھ سے زیادہ جریدے کے نشر پاروں کے باوجود مجھے اپنے آپ کو مصنف کہنا مشکل لگتا تھا۔ میں نے سوچا مجھے ابھی وہ ناول لکھنا ہے جو میں لکھنا چاہتا تھا تاکہ میں اپنے آپ کو مصنف کہنے کا حق حاصل کر سکوں۔ “گندم کا ایک دانہ”(1967) اور “خون کی پنکھڑیاں”(1975) اس ناول کو لکھنے کی کوششیں تھیں۔ لیکن جب میں نے ان دو کاموں کو مکمل کیا میں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیادی زبان کے طور پر انگریزی کے لیے اپنی وضع بدل لی تھی اور گیکُویُو کو اپنا لیا تھا۔ لیکن گیکُویُو کے ساتھ بھی میں وہ ناول لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جسے لکھنے کے لیے میں نے تگ ودو کی تھی لیکن ابھی تک نہیں لکھا۔ “کائٹانی متارابینی(1980)” جس کا “صلیب پر شیطان” کے نام سے ترجمہ ہوا اور “میوروگی وا کاگوگو(2006)” جس کا ترجمہ “شیخیاں بگھارنے کا ماہر” کے طور پر ہوا، میری نئی وابستگی کا نتیجہ تھے۔ اب میں سمجھ چکا ہوں کہ لکھنے کے لیے آمد کا کوئی لمحہ نہیں ہوتا بلکہ آمد کا لمحہ سفر کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ یہ ایک مسلسل للکار ہے۔

آپ کے ابتدائی ڈرامے “دل میں زخم” کو بننے سے روک دیا گیا کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک برطانوی افسر نے ایل ایف یو (ماؤ ماؤ) سپاہی کی بیوی کے ساتھ زیادتی کی۔ آپ نے سیاسی احتساب کے اس عمل کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے جدوجہد کی ، جیسا کہ آپ کی یادداشت، “ایک خواب بننے والے کی پیدائش: ایک مصنف کی بیداری” (2016) سے ثابت ہے۔

یہ کمپالا نیشنل تھیٹر کی جانب سے اس پر پابندی عائد کرنے کی وجہ کے طور پر بولا گیا ایک بڑا جھوٹ تھا جس نے مجھے رکنے اور کینیا والوں کے خلاف برطانوی نوآبادیاتی ریاست کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظالمانہ طرزِ عمل کے متعلق سوچنے پر مجبور کیا۔ ہر نوآبادیاتی قوم کے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ یہ تھا کہ ان کی حکمرانی دوسری مسابقتی نوآبادیاتی طاقتوں کی نسبت زیادہ نرم اور مہربان تھی۔ منطق کچھ یوں تھی: ان کا حال ہم سے بد تر ہے اس لیے ہمارا حال بہتر ہے۔ بہتر، اچھے سے اعلیٰ درجہ ہے لہٰذا ہمارا حال اچھا ہے۔ یہ میری زندگی کا ایک اہم لمحہ تھا کیونکہ اس نے ایک عجیب انداز میں مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس واقعے کے ساتھ اس یادداشت کا آغاز کرتا ہوں۔ لیکن اگر پیچھے مڑ کر دیکھوں تو اس واقعے نے ہی طے کیا کہ برسوں بعد میرے ساتھ کیا ہوگا اور یہ سب تھیٹر کی وجہ سے ہوا جیسے مجھے 78-1977 میں کینیا کی زیادہ اعلیٰ ترین حوالات میں رکھا گیا۔

 آپ کی زیادہ تر کامیابی کینیا سے باہر حاصل کی گئی ہے جیسا کہ آپ تین دہائیوں سے اپنے آبائی وطن سے جلاوطنی میں ہیں۔ کیا اس حقیقت سے جنم لینے والا اجنبیت کا احساس کبھی کم ہوتا ہے؟

نہیں، بالکل نہیں، لیکن میں نے یہ جان کر اس سب کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جلاوطنی نے تاریخ کو عجیب حتیٰ کہ دلچسپ طریقوں سے متاثر کیا ہے۔ موسیٰ اور عیسیٰ کو مصر میں، محمد اور ان کے پیروکاروں کو عیسائی ایتھوپیا میں اور مارکس کو فرانس اور لندن میں پناہ ڈھونڈتے سوچیں۔ جلاوطنی کے تجربے نے ایسے خیالات کو جنم دیا جو بعد میں گھر پر اثر انداز ہوئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایفرو- کیریبین مصنف جارج لیمنگ نے اپنے مشہور عنوان “جلاوطنی کے لطف”(1960) سے یہی مراد لیا ہے۔ نیز، میں نے ایک نقطۂ نظر پروان چڑھایا ہے جسے میں اپنی کتاب ” عالمگیریت؛ جاننے کا فلسفہ اور سیاست (2012)” میں عالمگیر تخیل کہتا ہوں۔ یہ واقعی دنیا کو ریت کے ایک ذرّے میں اور ابدیت کو ایک گھنٹے میں دیکھنے کے سیاہ فام تصور کی توسیع ہے۔ ہم جڑے ہوئے ہیں۔”

کیا کینیا سے جسمانی طور پر دور رہنا آپ کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے یا کیا آپ کو لکھنے کے لیے اپنی یادوں میں زندہ رہنے کی ضرورت ہے؟ کچھ خاص مشکلات کیا ہیں جن کا آپ نے دور رہ کر لکھتے ہوئے تجربہ کیا؟

کینیا ہمیشہ میرے ذہن میں رہتا ہے۔ مجھے کینیا کی روزمرہ کی زندگی کی یاد آتی ہے۔ گیکُویُو زیادہ تر کینیا میں بولی جاتی ہے۔ یہ کئی دیگر افریقی زبانوں میں سے ایک ہے۔ کینیا زبانوں کی ایک پچی کاری ہے لیکن چونکہ اب میں بنیادی طور پر گیکُویُو میں لکھتا ہوں میں اس کی تبدیلیوں کے لسانی منظر نامے کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔

میں حیران ہوں کیا آپ قارئین کی کافی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے کبھی پریشان ہوئے ہیں کیونکہ آپ ایک ایسی قوم، وقت اور تاریخ کے بارے میں لکھ رہے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر لوگ سنتے اور پڑھتے نہیں ہیں۔ کیا آفاقیت کبھی آپ کی فکر رہی ہے؟

میرا ماننا ہے کہ آفاقیت، خاصیت کی اولاد ہے۔ ریت کا وہ ذرّہ یاد ہے؟ یہ ساری دنیا پر مشتمل ہے۔ ایک مصنف کے لیے کائنات کا تصور کرنے کے لیے اس ذرّے سے وفادار ہونا ضروری ہے۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ مغربی سامعین آپ کی کتابوں کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں؟ کیا آپ کی تحریر کے کچھ حصے ہیں جنہیں آپ محسوس کرتے ہیں کہ صرف کچھ سامعین، خاص طور پر کینیا کے سامعین سمجھیں گے؟

مجھے نہیں لگتا کوئی ایسا کام ہے جسے ایک مخصوص طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے یا اگر کوئی ہے تو یہ برا فن ہے۔ لیکن ہر قاری فن کے کام میں ایک عالمی منظر پیش کرتا ہے جس کی تشکیل اس کے ماضی کے تجربات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نوآبادیاتی تجربے کے نقاد سامراجی مراکز کے کاموں میں خلا حتیٰ کہ خاموشی دیکھ سکتے ہیں۔

1977 میں ، آپ کے متنازعہ ڈرامے، “جب میں چاہوں گا شادی کروں گا” کی تیاری کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک سال تک بغیر مقدمے کے قید میں رکھا گیا۔ آپ کو بنیادی طور پر اپنے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے پرفارمنگ آرٹس اور اپنی مادری زبان استعمال کرنے پر قید کیا گیا۔ اس وقت کے دوران ، آپ نے انگریزی میں لکھنے کے مضمرات پر غور کیا ، اور اسی وقت آپ نے اپنی آبائی گیکُویُو میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے کامیٹی کے اعلیٰ درجے کے حوالات میں طہارت خانے میں استعمال ہونے والے کاغذ پر “صلیب پر شیطان” لکھا، تب سے آپ افریقی مصنفین کو اپنی مادری زبانوں کے استعمال کی ترغیب دینے میں پیش پیش ہیں۔ یہ لڑائی کیسے چل رہی ہے اور جب آپ اپنے گیکُویُو زبان کے سفر کے آغاز پر نظر دوڑاتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

 جدوجہد جاری رہتی ہے۔ افریقی زبانوں کے لیے ضروری جگہ بنانے کے لیے ہمیں ریاست، ناشر اور مصنف کی تثلیث کی ضرورت ہے۔ اب تک ، ریاست کارروائی میں غائب ہے۔ ان کی حکمت عملیاں اور تدابیر یورپی زبانوں کے نخرے اٹھانے کے لیے تیار ہیں جبکہ افریقی زبانوں کو مفلس کر رہی ہیں۔ بعض اوقات بعد از نو آبادیاتی ریاست افریقی زبانوں کے لیے فعال دشمنی کا مظاہرہ کرتی ہے۔

 جب آپ کینیا واپس آئے تو آپ اور آپ کی بیوی انجیری وا گُوگی پر وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ کیا اس سے آپ کا ملک یا آپ کے ہم وطنوں پر ایمان متزلزل ہوا؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کبھی بھلائی کے لیے واپس آ سکتے ہیں اور کیا آپ آنا چاہیں گے؟

یہ ایک نمونے کا حصہ رہا ہے۔ 1977 میں ، جیسا کہ ہم نے بات کی، مجھے گیکُویُو زبان میں پہلے جدید ڈرامے (جو کہ گُوگی وا میری کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھا گیا تھا اور کیمیریتھو کے کسانوں اور کارکنان نے پیش کیا تھا)۔ پر پابندی لگانے کے فورا بعد ایک اعلیٰ سطحی حوالات میں رکھا گیا تھا۔ 1982 میں ، میرے گیکُویُو زبان کے ناول کائٹانی متارابینی کے جاری ہونے سے دو ہفتے قبل ، میرے کینیا کے ناشر ، ہنری چاکوا پر نیروبی میں ان کے گھر کے باہر حملہ ہوا۔ اس کی ایک انگلی جو کہ خنجر سے کاٹی گئی تھی، کو دوبارہ جوڑنا پڑا۔ یہ حملہ ہفتوں کی گمنام ٹیلی فون دھمکیوں کے بعد کیا گیا۔ 1987 میں ، آمر حکمران موئی نے میرے دوسرے گیکُویُو زبان کے ناول ، ‘ماٹیگری’ کے مرکزی کردار کی گرفتاری کا فرمان جاری کیا۔ 2003 میں میرے تیسرے گیکُویُو ناول میوروگی وا کاگوگو کی اشاعت سے 11 دن پہلے مسلح افراد نے میری بیوی اور مجھ پر حملہ کیا۔ لیکن کینیا ایک قوم ہے اور کینیا کے لوگ میرا ساتھ دیتے ہیں۔ میں کینیا کے لوگوں کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ لہٰذا میں لوٹتا ہوں اور کینیا اور اس کے عظیم لوگوں کے بارے میں لکھتا ہوں۔ کینیا کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے میں دنیا سے بات کرتا ہوں۔

اس سب کے باوجود ، آپ ثابت قدم رہے اور لکھتے رہے۔ کیوں اور کیسے؟

میں لکھنے پر مجبور ہوں۔ مصنفین حقیقتاً ایک پیغمبرانہ روایت کا حصہ ہیں۔ اپنی نظم “اپنے والد کے ساتھ لفظوں کا شکار کھیلتے ہوئے” میں میرے بیٹے موکوما وا گُوگی جو خود ایک مصنف اور کارنیل میں انگریزی کا پروفیسر ہے کا کہنا ہے کہ لفظوں کے ساتھ شکار کرنا بہت خطرناک ہے۔ تمام پیغمبروں کو دیکھیں جو جیل میں ہیں ، جلاوطن ہیں ، یا جنہیں سزائے موت دی گئی۔ ان سب کے پاس جو کچھ تھا وہ الفاظ تھے۔ میں لکھتا ہوں کیونکہ میں زندہ ہوں۔

خواب بننے والے کی پیدائش” میں ، آپ نے اپنے تاریخی ورثے اور یادوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: “کینیا میں نو آبادکار سفید فام حکومت کی طرف سے کیے گئے متعدد مظالم کی تصاویر میرے اندر تکرار کرتی ہیں۔” اور ، جیسا کہ آپ نے کہا ، آپ قتل کی کوششوں ، قید ، ایذا رسانی اور بدنام لوگوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا شکار رہے ہیں۔ کیا وہ تمام تشدد جو آپ نے سہا اور محسوس کیا ہے اس کی یاد آپ کے لکھنے کے انداز میں تبدیلی لاتی ہے؟

نوآبادیاتی تشدد کی یادیں اب بھی میرا تعاقب کرتی ہیں۔ یہ تشدد ایسا ہی کچھ میرے خاندان کے ساتھ بھی کرتا ہے۔ جب میں مشرق وسطیٰ میں قتل عام دیکھتا ہوں یا امریکہ کی سڑکوں پر سیاہ فام لوگوں کے خلاف پولیس کا بے حس تشدد دیکھتا ہوں تو وہ مناظر بار بار نظر آتے ہیں۔ پھر میں زیادہ محنت کرتا ہوں۔ میں جیلوں اور حراستی چھاؤنیوں کے بغیر ایک دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں بے خانمی یا بے گھری اور فاقہ کشی کے بغیر ایک دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں جدید ترقی کے پیچھے اس منطق کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ایک کے وجود کے لیے دوسروں کا وجود ختم کیا جائے۔ میں اس مفروضے کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہزار کروڑ پتی یا ارب پتی بننے کے لیے ایک ارب غریب ہونا ضروری ہے۔ ہمیں یہ دیوانگی یا سوچ کا پاگل پن ختم کرنا ہوگا کہ کسی ملک کی ترقی کا پیمانہ اس کے ارب پتیوں کی تعداد ہے۔ ان ارب پتیوں کے بنائے ہوئے اربوں غریبوں کا کیا ہوگا؟”

کیا کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں لکھنا آپ کو بہت تکلیف دہ لگتا ہے؟

ہم درد سے نمٹنے کے لیے درد کے بارے میں لکھتے ہیں – امید افزا طور پر اسے ختم کرنے میں مدد کریں گے۔ ہم انسانوں کی انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ بریخت نے ایک بار پوچھا تھا: “کیا تاریک اوقات میں گانا بھی ہوگا؟ / ہاں اندھیرے وقتوں کے بارے میں گانا ہوگا۔” یہ نظم میری یادداشت “جنگ کے وقت خواب”(2010) کا خاکہ ہے۔

آپ اپنے کام میں اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کسے سمجھتے ہیں؟ آپ کو اپنے کس کام پر سب سے زیادہ فخر ہے؟

مختلف تحاریر میرے لیے مختلف یادیں رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب یکساں طور پر میری پسندیدہ ہیں۔ اگر میں “صلیب پر شیطان” کو منتخب کرتا ہوں تو اس کی وجہ وہ غیر معمولی حالات ہیں جن کے تحت میں نے اسے لکھا ہے۔ یہ گیکُویُو زبان میں میرا پہلا ناول بھی تھا جو اسے گیکُویُو میں پہلا جدید ناول بناتا ہے۔ مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ میری جلاوطنی کے سالوں کے دوران لکھے گئے ایک اور گیکُویُو زبان کےا ناول “شیخیاں بگھارنے کا ماہر” نے 2006 میں کیلیفورنیا کا سونے کا تمغہ جیتا جو ایک بار جان سٹائن بیک نے جیتا تھا۔ میں ہمیشہ مذاق کرتا ہوں کہ “شیخیاں بگھارنے کا ماہر” تاریخ کا واحد ناول ہے جو دو مالٹوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسے نیو جرسی کے ایک قصبے اورنج میں لکھنا شروع کیا اور کیلیفورنیا کے ضلعے ‘اورنج’ میں مکمل کیا۔”

آپ اپنی لکھی گئی کتاب کی کامیابی کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟

یہ مشکل کام ہے. لیکن مجھے ہمیشہ بہت خوشی ہوتی ہے جب دنیا میں کہیں بھی کوئی قاری مجھے بتاتا ہے کہ کس طرح ایک خاص تحریر نے اس کی زندگی کو متاثر کیا۔ میں ایک مرتبہ ایک ہندوستانی سیاسی کارکن سے حیدرآباد میں ملا جس نے “صلیب پر شیطان” کے لیے میرا شکریہ ادا کیا۔ وہ اپنی جان لینے کا ارادہ کر رہا تھا لیکن اتفاق سے وہ ایک کتاب کی دکان میں داخل ہوا میری کتاب خریدی اور اسے پڑھا اور اس کتاب نے اسے ایک نیا مقصد تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے لمحات میں یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ تمام کوششیں جو اس کام میں صرف کی گئیں کارگر ٹھہریں میں اشک بار ہوجاتا ہوں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے جب میرے قارئین مجھے بتاتے ہیں کہ “شیخیاں بگھارنے کا ماہر” نے انہیں ہنسایا۔ ایک بار ڈیوک یونیورسٹی میں ایک استقبالیہ میں ، میں دو پروفیسروں سے ملا جن کے پیشے (ایک کا قانون اور دوسرے کاادب) کے انتخاب کا فیصلہ “خون کی پنکھڑیاں”میں ترقی پسند وکیل کے کردار کے ساتھ ان کی ملاقات سے متاثر ہوکر کیا گیا۔ ادب کے پروفیسر کو ابتداء میں قانون میں دلچسپی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ ایک ناول کیا کرسکتا ہے تو اس نے اپنے پیشے کو ادب میں تبدیل کردیا جبکہ قانون کے پروفیسر کو ادب میں دلچسپی تھی لیکن افسانوی یا خیالی وکیل سے ملنے پر اس نے قانون کا رخ کرلیا۔

اگر کوئی نیا نیا آپ کی تحریروں کی طرف راغب ہو تو آپ کے خیال میں اسے آپ کی کون سی کتاب سے شروع کرنا چاہیے؟

کیوں نہ “جنگ کے وقت خواب” اور “روؤ مت بچے”(1964) سے شروع کریں؟ یہ میرے بچپن کے اسی دور سے نکلے ہیں ، اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیسے افسانے اور یادداشتیں حقیقت کے بارے میں نقطہ نظر کے حوالے سے مختلف ہیں۔ لیکن اگر آپ رونا نہیں ہنسنا چاہتے ہیں تو “شیخیاں بگھارنے کا ماہر” کیوں نہیں؟ دوسری صورت میں میرا کوئی بھی ناول آپ کو دوسروں کی طرف لے جائے گا۔”

آپ کے نثر کا انداز اور بیانیے کی ساخت سالوں میں کیسے تبدیل ہوئی ہے؟

میرے پہلے دو ناول “روؤ مت بچے” اور “درمیان میں دریا”(1965) مختصر جملوں اور لکیری بیانیے کی خصوصیات کے حامل ہیں۔ بعد میں “گندم کا ایک دانہ”(1967) اور “خون کی پنکھڑیاں” میں مجھے تہہ در تہہ وقت اور خلا میں دلچسپی ہو گئی۔ سیدھے لمبے جملوں کو کو ایک سے زیادہ لائنوں سے تبدیل کیا جاتا ہے جو آڑھی ترچھی ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں متعدد حروف ، ایک سے زیادہ ٹھہراؤ، اور کئی ارتقائی جملے وجود میں آتے ہیں۔ اس کے لیے چھوٹے جملوں سے بہت لمبے جملوں میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔

اسی طرح آپ کے انداز کی ترقی کے ساتھ آپ کے کاموں کو ترتیب سے پڑھ کر آپ کے سماجی سیاسی نظریات کے ارتقاء کی پیروی کی جا سکتی ہے۔

میں معاشرے میں طاقت کی کارروائی میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اس بات سے متاثر نہ ہو کہ معاشرے میں کون اور کون سا معاشرتی طبقہ طاقت کا استعمال کرتا ہے اور طاقت کا استعمال کر کے کس انجام کو پہنچتا ہے۔ میں نے واقعی ترقی کی ہے۔ لیکن میں دنیا کو ہمارے درمیان کم سے کم ضروریات اور ایک نقطہ نظر سے دیکھنے میں مستقل رہا ہوں۔ گلوبلیکٹکس میرے نقطہ نظر کا خلاصہ کرتے ہوئے کہتا ہے: زندگی مربوط ہے – زمین ، پانی ، آسمان ، تمام تخلیق ، اور وہ سب جو تخلیق کو قابل بناتا ہے اور برقرار رکھتا ہے۔میں اب سمجھتا ہوں کہ پرانے لوگ کیوں سورج کی عبادت کرتے تھے اور پانی، آگ، مٹی، جانوروں اور پودوں کی زندگی کا احترام کرتے تھے۔ قبل از نوآبادیاتی گیکُویُو میں ، آپ کو ایک کاٹے یا جڑ سے اکھاڑے گئے درخت کی جگہ چھوٹا پودا لگانا پڑتا تھا۔ زمین ہماری مشترکہ ماں ہے اور کسی بھی قوم یا افراد کو یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ دوسروں سے زیادہ ان کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ ماحولیاتی خلاف ورزیاں انسانیت اور زندگی کے خلاف جرائم ہیں۔ کہیں بھی پانی اور ہوا کی آلودگی تمام مخلوقات کو متاثر کرتی ہے

آپ کو یادداشت کو صنف کے طور پر اپنانے پر کس چیز نے مجبور کیا؟

یادداشت مجھے اپنی وضاحت کرنے میں مدد دیتی ہے۔ میں اسے یہ کہنے کے لیے استعمال کرتا ہوں “میں اب بھی زندہ ہوں اور میں اب بھی افریقی زبانوں پر یقین رکھتا ہوں اور ہاں مجھے ہر ممکن ادبی طریقے سے لڑنا ہے۔” بعض اوقات مجھے غیر متوقع انعامات ملتے ہیں۔ میری گیکُویُو میں لکھی ایک کہانی کا اب اکسٹھ زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ، ان میں سے 40 افریقی ہیں۔ اسے اٹیویکا ریا مورنگارو کہا جاتا ہے یعنی راست باز انقلاب: یا انسان سیدھے راستے پر کیوں چلتے ہیں۔ میں پرجوش ہوں کیونکہ اس منصوبے کے پیچھے جلاڈا کے اشاعتی منصوبے کے ساتھ تمام افریقی اقوام کے سیاسی اتحاد کی تحریک کے نوجوانوں کا ایک مجموعہ ہیں۔ ان کی قیادت ان کے مدیرِ اعلیٰ موسِس کیلولو کر رہے ہیں۔