ہاشر ابن ارشد
رات کے پچھلے پہر، راکھیوٹ پل کے کنارے ایک کھنڈر نما عمارت کے ویران کمرے میں ٹارچ کی دم توڑتی بیٹری کی ٹمٹماتی ہوئی آخری آخری روشنی میں بنتے بکھرتے سایوں میں گھرے اور سندھو دریا سے ملتے گندھک بھرے تاتو نالے کی نامانوس بو میں ڈوبے راولپنڈی کی ایک تنگ گلی کے بوسیدہ سے گودام سے خریدے گئے نئے نکور سلیپنگ بیگز میں اپنے ہی جسموں کی حدت کے انتظار میں کتنی ہی دیر جھرجھرانے کی یاد نے ابھی ابھی دل پر چپکے سے دستک دی ہے۔ پہاڑوں سے جڑے ہر غم، ہر خوشی کے ساتھ پرانی یادوں کے دفتر یوں ہی کھلتے ہیں۔ کتنا پرانا قصہ ہے یہ ۔ بہت یگ بیت گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب فیری میڈوز کا نام صرف سرپھروں کو معلوم تھا۔ ابھی بیال کیمپ کی قربت میں رحمت نبی کی ایک جھونپڑی کے علاوہ کسی نے لکڑی اور پتھر کے بدنما ڈھانچے کھڑے نہیں کیے تھے، ناران سے چلاس کو کوئی پختہ راستہ نہیں تھا اور نانگا پربت ابھی عشق تھا، صرف عشق۔
ڈھلتی عمر اب ایسی ہے کہ بہت زور دینے پر بھی نام یاد نہیں آتے، چہرے پہچانے نہیں جاتے لیکن اب بھی کمرے کے کسی کونے میں تاتو نالے سے اٹھتی گندھک کی مہک ہر ایر فریشنر پر غالب رہتی ہے۔ فیری میڈوز سے ذرا پہلے برچ اور صنوبر کے مردہ تںوں سے لپٹے زرد ہوتے پتے اب بھی میرے پیروں تلے چرمراتے ہیں۔ شاہراہ قراقرم سے اٹھتے راستے کے اس کونے پر موجود گاؤں کے راستے پر جسم کی تھکن سے مجبور، موسلا دھار بارش میں پتھر کی ٹیک لگائے اپنا پونچو اوڑھے بیس منٹ کی وہ نیند کا وقفہ اب بھی میرے نرم بستر کی گھنٹوں کی نیند پر بھاری ہے۔
میں اب آرام دہ جوتے پہنتا ہوں۔ ان جوتوں میں میرے انگوٹھوں سے خون نہیں رستا لیکن ان جوتوں کو پہن کر میں آسمان کو چھوتی بلندیوں سے دریا کے کناروں تک اتر بھی تو نہیں سکتا۔ جون کی یکم تاریخ کو چلچلاتی دھوپ میں ہمیشہ مجھے اسی دن فیری میڈوز میں ہوتی شدید برف باری کی یاد اب بھی گرم دوپہر میں سرد کر دیتی ہے۔
میرے لیے پہاڑوں سے جڑی ایسی ہر یاد خوشی ہے۔ یہ خوشی میں کسی کو سمجھا نہیں سکتا کیونکہ جس نے راکھیوٹ گلیشیر سے نکلتی ننھی ننھی ندیوں کے گھاس میں بنتے ہزاروں رستے، چاندنی رات میں نانگا پربت کی آسمان کو چھوتی برف دیوار کی وحشتناکی، چراگاہوں میں بنی آئینہ جھیل میں لرزتے پہاڑ کے عکس اور دھند میں کھو جانے والی چراگاہوں میں کھلتے بنفشی پھولوں کو نہیں دیکھا ، وہ یہ خوشی نہ سمجھ سکتا ہے، نہ محسوس کر سکتا ہے۔
ایورسٹ میں ہمیشہ کا گھر بنا لینے والے عظیم جارج میلوری سے جب کسی نے پوچھا کہ وہ پہاڑوں پر کیوں چڑھتا ہے تو اس نے سوال کرنے والے کو بڑی حیرت سے دیکھا کہ وہ اتنی سادہ بات کیوں نہیں سمجھتا پھر کندھے اچکا کر بولا "کیونکہ وہ ہیں”۔
وہ ہیں اور وہ ہمیں بلاتے ہیں۔ ہم وہ جو کوہ ندا کے اسیر ہیں۔ رٹو سے اترنے والا سبز چشمہ، ترشنگ کی قد آدم لہراتی گھاس کے تاحد نگاہ میدان، کرومبر کے شانت پانی، پھنڈر کی جھیل میں زرد ہوتے چناروں کے عکس، ٹرینگو ٹاورز اور پسو کی آسمان میں چھید کرتی نوکیں، منٹھوکا سے گرتی آبشار کا شور، دریائے شگر میں ملتے سندھ کے پانی، دیوسائی کے سیٹی بجاتے شرارتی مارموٹ، شندور کے میدان میں سرپٹ دوڑتے گھوڑے، رتی گلی جھیل کے کنارے اگتے سرخ پھولوں کا جنگل، مناپن میں اترتی راکا پوشی کی برفیں، سنولیک سے ملتا ہوا سرخ افق، ہسپر کے پگھلتے گلیشیر میں بنتی نیلی جھیلیں اور شاہ گوری سے گلے ملتا چاند زندگی کا وہ بھید ہیں جو سب پر نہیں کھلتے۔ "جو موسیقی سن نہیں سکتے، وہ ہر رقاص کو دیوانہ سمجھتے ہیں”۔
کامیابی ہے کیا۔ ایک کاغذ کی ڈگری، ایک چمکتی گاڑی، ایک اونچا بنگلہ، ایک خاندان، ایک نوکری، ایک کاروبار، دولت، زمین ،شہرت ؟ نہیں، کامیابی ان میں سے کچھ نہیں ہے۔ کامیابی خوشی ہے ۔ خوش ہونے میں ہے اور یہ خوشی جھیلوں کی تلاش میں سرگرداں پرندوں کے پروں پر لکھی ہوتی ہے۔ جو اڑنا نہیں جانتے، وہ کبھی اس خوشی کا بھید نہیں پائیں گے۔
میں بیس سال کا تھا جب شیرو شیراہاتا کی تصویروں پر مشتمل کتاب "قراقرم” شائع ہوئی۔ وہ فیروزسنز جو اب نہیں ہے، اس کی ایک میز پر میں نے پہلی دفعہ یہ کتاب دیکھی اور یہ پہلی نظر کی سب سے شدید محبت تھی۔ لیکن یہ محبت خراج مانگتی تھی اور میری جیب خالی تھی۔ جس وقت شاید شہاب نامہ یا علی پور کا ایلی جیسی ضخیم کتاب دو سو روپلی کی ملتی تھی، یہ کتاب ڈھائی ہزار روپے کی تھی۔ کہاں سے خریدتا، کیسے خریدتا۔ کسی بہانے ہر کچھ دن بعد فیروز سنز جاتا اور کتاب کے صفحے الٹتا رہتا۔ ہر صفحے پر ایک تصویر تھی اور ہر تصویر محبت تھی۔ محبت کے ہزار چہرے ہیں، محبت شل مکھی ہے، محبت راکا پوشی ہے۔ یہ تب سمجھ آیا۔
شاید یہی حرکت کچھ اور عاشقوں نے بھی دہرانی شروع کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میز پر دھری اور شوکیس میں سجی ہر کتاب کو موم جامے میں ملفوف کر دیا گیا۔ اب کتاب کا صفحہ وہی پلٹ سکتا تھا جو اس کے دام چکاتا۔ سرورق پر شاہ گوری کا جنوبی چہرہ تھا اور پشت پر گیشربرم کی ازلی برفیں۔ جی تو ان سے بھی نہیں بھرتا تھا پر کتاب کے اندر نانگا پربت، ترچ میر، بنی زوم، مزینو، ہراموش اور بتورہ کو ایک بار دیکھا تھا ، بار بار دیکھنے کی ہوس تھی۔
جیب خرچ اشک بلبل سے بھی کم تھا سو اس سے یہ آگ بجھ نہ پاتی۔ کچھ ماہ ٹیوشن پڑھا کر پیسے بچانے کی کوشش کی مگر اتنے پیسے نہ جوڑ پایا۔ دست طلب دراز تھا سو اسے کبھی نہیں سمیٹا ۔ اسی کشاکش میں تین سال گزارے کہ اتنے پیسے جوڑ سکوں کہ کتاب خرید سکوں۔ آج یہ کتاب خریدے ستائیس سال گزر گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہفتہ ہوتا ہے کہ میں اس کتاب کو نہیں کھولتا۔ اس کے ساتھ گھنٹوں نہیں، پہر بتاتا ہوں۔ عشق ماند نہیں پڑا، جنوں میں کمی نہیں ہوئ، ہاں جسم مضمحل ہو چلا ہے۔ گزرے برسوں میں ان میں سے کئی پہاڑوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس قابل تو کبھی نہیں ہوا کہ بیس کیمپ سے آگے جا سکوں۔ پر دیوی کو دور سے بھی تو پوجا جا سکتا ہے۔
کوئ پوچھے کہ اس کتاب کی تصویروں کو گھورنے سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا۔ مجھے کیا فائدہ ہوا۔ ہر برس کسی جھیل، کسی پربت، کسی جھرنے کے گرد پڑاؤ ڈال کر میرے علم میں کیا اضافہ ہوا۔ دنیا کو اس میں سے میں نے کیا دیا تو اسے کیا جواب دوں۔ غالب کی غزل ، ایم ایف حسین کی تصویر، فقیرو کا مجسمہ، صادقین کی خطاطی، بڑے غلام علی خان کی ٹھمری یا روی شنکر کے ستار سے پھوٹتے راگ پرمیشوری کا نفع نقصان کوئی کیسے ماپے گا۔
“ہم شاعری اس لیے نہیں پڑھتے کہ یہ دلجو ہے۔ ہم شاعری کرتے ہیں، شاعری پڑھتے ہیں کیونکہ ہم نسل انسانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسان کے دل میں جذبے ہیں، لگن ہے، جوش ہے، محبت ہے۔ طب ہو کہ قانون، کاروبار ہو یا مہندسی، سب قابل تعظیم ہیں ، سب زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن شاعری، خوبصورتی، رومان، محبت ۔۔۔ ان ہی کے لیے تو ہم زندہ ہیں، انہی کے لیے تو ہم زندگی کرتے ہیں”۔ جان کیٹنگ کا درس مجھے تو کبھی نہیں بھولا لیکن جنہوں نے ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی نہیں دیکھی، انہیں کیسے سمجھائیں۔
محمد علی سدپارہ بھی اسی قبیلے کا فرد تھا، اسی قبیلے کا فرد ہے۔ اس کے لیے کوہ پیمائی کوئی مقابلہ نہیں تھا نہ ہی بہادری کا مظاہرہ۔ عظیم ترین کوہ پیما رائن ہولڈ میسںر کہتا تھا کہ کوئی کوہ پیما بہادر نہیں ہوتا، بہادر کوہ پیما ایک مردہ کوہ پیما ہے۔ پہاڑ کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے۔ پہاڑ سے رشتہ بنانا پڑتا ہے۔ رشتے بہادری سے نہیں بنتے، الفت سے بنتے ہیں۔ یہ وہی میسنر ہے جس نے دو دفعہ نانگا پربت سر کیا تھا ۔ اور یہ وہی سدپارہ تھا جس نے نانگا پربت کو چار دفعہ سر کیا تھا۔ سردیوں میں بھی سب سے پہلے اور خزاں میں بھی سب سے پہلے۔ اب ہمارے بالشت بھر کے بونے اس دیو پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اس کی برسوں کی ریاضت پر فقرے کستے ہیں۔ انہیں کون بتائے کہ سدپارہ کس عجز سے پہاڑ پر قدم دھرتا تھا۔ برسوں کی منصوبہ بندی، سخت ترین تربیت اور سامان کی آخری تفصیل تک کا گوشوارہ انہیں کون سمجھائے۔ سپلیمنٹل آکسیجن کیوں، کیسے اور کب استعمال کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہر فیصلہ سازی میں کیسے کیسے احتیاطی عوامل اور ہنگامی تدابیر کا پلندہ شامل ہوتا ہے، یہ تفصیل کون ان کے سامنے رکھے اور رکھے تو کیوں رکھے؟ خالی ذہن پر دستک دینے سے بہتر اور بھی کئی کام ہیں.
محمد علی سدپارہ کے لیے کوہ پیمائی پیشے سے بڑھ کر تھی، پیشے تو بس دولت کمانے کے لیے ہوتے ہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پیشے زندگی سے بڑے نہیں ہوتے۔ محمد علی سدپارہ کے لیے یہ شوق بھی نہیں تھا ۔ شوق کی عمر تمام زندگی پر محیط نہیں ہوتی۔ محمد علی سدپارہ کے لیے کوہ پیمائی محبت تھی اور جس سے محبت ہوتی ہے، اسے مسخر نہیں کیا جاتا۔ اس کو فتح کرنے کی کاوش نہیں کی جاتی ، اسے پیر تلے روندنے کا ارمان بھی نہیں ہوتا۔ اس سے لڑا بھی نہیں جاتا۔ اس کو مقابل بھی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ عزم، ہمت اور حوصلے کا امتحان نہیں ہے۔ یہ بس فنا ہو جانے کی منزل ہے۔ محبت میں فنا ہونے کی۔ کوہ پیما کے لیے زندگی اور موت ایک ہی ہمسفر کے دو نام ہیں جو ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ پہاڑ ہر کسی کو اپنے پاس نہیں بلاتے ، ہر کسی کو برداشت بھی نہیں کرتے۔ یہ امتحان محبت کی شدت کا امتحان ہے۔ جو اس میں پورا اترتا ہے ، یہ سفید دیوتا اسی کے لیے بانہیں وا کرتے ہیں۔ محبت میں موت کیا اور زندگی کیا۔ شاہ گوری پر قدم دھرنے والے یوں بھی جان کا سودا کر کے سفر آغاز کرتے ہیں۔ کون اس دنیا میں اپنی شرط پر جیتا ہے کون اپنی شرط پر امر ہوتا ہے۔ ہاں مگر محمد علی سدپارہ جیسے۔