گرہن کے بارے میں مختلف تہذیبوں کے تصورات

تنویر عباس، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔

روشنی اور زندگی کا سرچشمہ کہے جانے والے سورج کا چھپنا لوگوں کو خوفزدہ کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس سے متعلق مختلف کہانیاں مشہور ہوئیں۔ سب سے زیادہ مشہور کہانی یہ تھی کہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک شیطان سورج کو کھا جاتا ہے۔

مغربی ایشیا میں یہ عقیدہ تھا کہ سورج گرہن کے دوران ایک ڈریگن یا اژدہا سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے اس اژدھے کو بھگانے کے لیے ڈھول نگاڑے بجائے جاتے تھے۔

اس کے ساتھ ہی چین میں یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے وہ درحقیقت بہشت کا ایک کتا ہے۔ پیرو کے باشندوں کے مطابق، یہ ایک بڑا پوما ہے جو سورج کو نگلنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ وائکنگ کا عقیدہ تھا کہ آسمانی بھیڑیوں کا ایک جوڑا گرہن کے دوران سورج پر حملہ آور ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف دی ویسٹرن کیپ میں ماہر فلکیات اور پروفیسر جیریٹا ہالبروک کہتی ہیں گرہن کے بارے میں مختلف تہذیبوں کا نظریہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں کی فطرت کتنی فراخ یا نرم ہے۔ جہاں زندگی مشکل ہے، وہیں ظالم اور خوفناک دیوی دیوتا بھی ہیں اور اسی وجہ سے وہاں گرہن سے متعلق خوفناک کہانیاں بھی ہیں۔ اور جہاں زندگی آسان ہے، کھانے پینے کی وافر مقدار ہے، خدا یا سپر پاورز کے ساتھ بہت پیار بھرا رشتہ ہے وہاں ان کے اساطیر بھی اسی طرح کے ہیں۔

عہد وسطیٰ کے یورپ میں طاعون اور جنگوں سے عوام بہت زیادہ پریشان رہا کرتی تھی۔ اس لیے سورج گرہن یا چاند گرہن نے انھیں بائبل میں درج قیامت کی تفصیل کی یاد دلاتا تھا۔ پروفیسر کرس فرنچ کہتے ہیں کہ یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ لوگ گرہن کو قیامت سے کیوں جوڑتے تھے۔

بائبل میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن سورج بالکل سیاہ ہو جائے گا اور چاند کا رنگ سرخ ہو جائے گا۔

سورج گرہن اور چاند گرہن میں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر لوگوں کی زندگی بھی مختصر تھی اور ایسا فلکیاتی واقعہ ان کی زندگی میں صرف آدھ بار ہی رونما ہو سکتا تھا اس لیے یہ باتیں انھیں خوفزدہ کردیا کرتی تھیں۔