پاگل سائنسدان اور گنگا جمنا کے شکاری

پاگل سائنسدان بھاگ کر ہندوستان پہنچ گیا! ۔۔۔ 1892 کے اس دن یہ سرخی برطانیہ کے کئی اخباروں میں ایک ساتھ چھپی تھی۔ ۔۔ اور یہ سرخی جس سائنسدان کے بارے میں تھی ، اس کا نام ارنسٹ ہینبری ہینکن (Ernest Hanbury Hankin) تھا۔
ارنسٹ بچپن سے ہی بلا کا ذہین تھا۔ وہ پرجوش اور ہر فن مولا قسم کا شخص تھا۔ طب پڑھنے کے باوجود اس نے طبیب بننے کی بجائے جراثیموں پرتحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ 27 سال کی عمر میں جب وہ ہندوستان آیا تو اس سے پہلے ہی نہ صرف متعدد سائنسی رسائل میں اس کے پیپر چھپ چکے تھے، بلکہ وہ فرانس میں لوئی پاسچر (Louis Pasteur) اور جرمنی میں رابرٹ کوچ (Robert Koch) جیسے جراثیموں کی دنیا کے بڑے بڑے ناموں کے ماتحت کام بھی کر چکا تھا۔ اسی لیے اسے انگریزی سرکار کی جانب سے آگرہ کی لیبارٹری کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ تھا۔۔۔ اسے پاگل سائنسدان کہنے والے بھی شائد غلط نہیں تھے۔ وہ ان چند جنونی سائنسدانوں میں سے تھا جو نتائج حاصل کرنے کے ہر حد پر جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ اپنی یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں ہی وہ خود پر تجربات کرنے کے حوالے سے مشہور ہوگیا تھا۔ وہ کبھی مختلف ادویات مقررہ خوراک سے زیادہ مقدار میں خود پر آزماتا تو کبھی اپنے ہاضمے کو بڑھانے کے لئے گرم پتھر کی گیندیں اپنے پیٹ پر ملتا ہوا پایا جاتا۔
ارنسٹ تحقیق کے لیے زندہ جانوروں کے اعضاء کاٹنے کا بھی قائل تھا۔ انگلستان میں ایسی تحقیق پر پابندی عائد تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے ہندوستان کی اس نوکری کو فوراً قبول کرلیا تھا۔ بعد میں انگریزی سرکارنے ہندوستان میں بھی ایسی تحقیق پر پابندی لگا دی تو اس نے باقاعدہ حکومت کو خط لکھ کر احتجاج کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ ایک انتہا پسند سائنسدان تھا۔
خیر آنے کی وجہ کوئی بھی ہو، ہندوستان پہنچتے ہی وہ اس کے طلسم کا شکار ہوگیا تھا۔ ایک طرف وہ مغلیہ فنِ تعمیر سے بہت متاثر ہوا تو دوسری طرف ہندوستان میں موجود مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا ملاپ اسے بہت دلچسپ لگا تھا ۔ اس کا متجسس دماغ اور ہندوستان کی پراسرار فضا شاید ایک دوسرے کے لیے ہی بنے تھے۔ اگلے 30 سال کے لیے وہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔
اس زمانے میں ہندوستان میں ہیضے کی وبا پھیلی ہوئی تھی، بہت سی دوسری بیماریوں کی طرح اس بیماری کے بار ے میں بھی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ سڑاند (بدبودار ہوا) کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ ارنسٹ نے اپنے تجربات کی مدد سے لوگوں کی دکھایا کہ دراصل بیکٹیریا اس بیماری کے ذمہ رار ہیں اور یہ پینے کے پانی کی مدد سے پھیلتے ہیں۔ ان سے بچنے کا آسان حل اس نے یہ بتایا کہ پانی کو ابال کر پیا جائے۔ اس وقت تک یہ ایک بالکل نئی بات تھی۔ اور یہ ارنسٹ کی پہلی دریافت تھی جسے عالمی طور پر سراہا گیا۔ اتنے آسان حل کا مطلب تھا کہ اب ان لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
لیکن اپنے ان تجربات کے دوران ارنسٹ کچھ اور غیر معمولی بھی ملا تھا۔ اس نے دیکھا کہ گنگا اور جمنا دریاؤں کے پانی میں کچھ ایسا تھا جو ہیضے کے جرثوموں کو مار رہا تھا۔ یہ ایک حیران کن نتیجہ تھا۔ کچھ ایسا جس کی ارنسٹ کوئی بھی وضاحت نہیں کر پایا تھا۔
مزید تجربات میں اس نے یہ دیکھا کہ کھلے برتن میں ابالنے سے پانی کی یہ خاصیت ختم ہو جاتی ، جبکہ بند برتن میں ابالنے سے یہ برقرار رہتی تھی۔ اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ پانی کی یہ خاصیت کسی ایسی چیز کی وجہ سے تھی جو گرم کرنے سے اڑ جاتی تھی۔ لیکن وہ چیز آخر تھی کیا؟ یہ وہ کبھی جان نہیں پایا۔ گنگا اور جمنا دریاؤں سے ہندوؤں کی مذہبی عقیدت کی وجہ سے ارنسٹ کے ان تجربات نے کافی شہرت پائی، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ممبئی میں طاعون کی وبا پھیل گئی اور اس جانب مصروف ہوگیا ۔ چنانچہ یہ راز اگلے بیس سال تک راز ہی رہا۔
اس دوران بیالوجی کے میدان میں ایک بڑی تبدیلی آئی، اور وہ تھی وائرس کی دریافت۔۔۔ یہ اپنے آپ میں ایک الگ دلچسپ کہانی ہے۔

اس وقت کسی بھی مائع سے جراثیموں (بیکٹیریا) کو الگ کرنے کا واحد طریقہ فلٹر کا استعمال تھا۔ یہ طریقہ 1884 سے کامیابی سے استعمال کیا جارہا تھا، اور جرثوموں کی تعریف ہی یہ تھی کہ انہیں فلٹر کی مدد سے الگ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن تقریباً ایک عشرے بعد کچھ سائنسدانوں نے دیکھا کہ کبھی کبھی فلٹر کرنے کے بعد بھی اس پانی میں زہریلے اثرات باقی رہ جاتے تھے۔
یہ زہریلا پن کس وجہ سے تھا؟

شروع میں سوچا گیا کہ شاید بیکٹیریا کوئی ایسا زہریلا مادہ بناتے ہیں جو فلٹر سے گزرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔لیکن مزید تجربات سے یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ یہ کوئی بالکل ہی الگ مخلوق تھی، جو قد کاٹھ میں بیکٹریا سے بھی ہزاروں گنا چھوٹی تھی۔ ارنسٹ کا استاد لوئی پاسچر (Louis Pasteur) ایسی ہی ایک مخلوق کی پیشین گوئی دہائیوں پہلے کر چکا تھا، جب وہ باؤلے پن کی ویکسین بنانے کے لیے اس کے جرثومے کو الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
یوں وائرس کو دریافت تو کر لیا گیا ، لیکن یہ اب بھی ایک انجانی چیز ہی تھا۔ اسے بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مزید تجربات کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ بیکٹریا کے برعکس وائرس کو تجربہ گاہ میں اگانا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ یہ صرف کسی زندہ جسم کی موجودگی میں ہی زندہ رہتے تھے۔ مثال کے طور پر چیچک کی ویکسین بنانے کے لیے وائرس کو بچھڑے کی زندہ کھال کے اندر پالنا پڑتا تھا۔ سائنس کے بڑے بڑے نام اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، اور ان ناموں میں سے ہی ایک نام پروفیسر فریڈرک ٹورٹ (Frederick Twort) کا بھی تھا۔
فریڈرک ارنسٹ کا ہم وطن اور جراثیموں کا ماہر تھا۔ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر وہ سالوں سے وائرس کو مصنوعی طور پر اگانے کی کوشش کر تا رہا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ زندہ کھال میں اگانے کی وجہ سے چیچک کی ویکسین میں ہمیشہ سٹیفیلو کوکس (Staphylococcus) نامی بیکٹیریا کی کچھ نہ کچھ آمیزش ہوتی تھی۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ بیکٹیریا ہی ایسا کوئی مادہ خارج کرتے ہوں جو وائرس کے زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہو؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے 1914 میں اس نے ان بیکٹیریا اور وائرس کو ایک پلیٹ پر اکٹھا اگایا ۔ جب اس نے عدسے کی مدد سے اس پلیٹ کو دیکھا تو اسے ہر طرف رنگ برنگے بیکٹیریا دکھائی دیے، لیکن پلیٹ پر کچھ جگہیں اسے بالکل خالی نظر آئیں۔ اس نے ان خالی جگہوں سے مواد لے کر دوسری جگہ پر ڈالا تو کچھ ہی دیر میں بیکٹیریا وہاں سے بھی ختم ہو گئے۔
“حیران کن!” اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ آخر وہ جگہیں خالی کیوں تھیں؟ وہاں کے بیکٹیریا کیوں ختم ہوگئے تھے؟ اس نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اس پر ایک پیپر لکھا ،جس میں اس نے اس کی 3 ممکنہ وجوہات بیان کیں

: (1) یا تو ان بیکٹیریا کی زندگی میں کوئی مرحلہ اس قسم کا آتا تھا ، (2) یا یہ کوئی ایسا خامرہ (Enzyme) بنارہے تھے جو خود انہیں ہی مار دیتا تھا، (3) یا پھر یہ وائرس کی کوئی قسم تھی جو بیکٹیریا کا شکار کرتی تھی۔
ہر حالت میں یہ ایک دنیا بدل دینے والی دریافت تھی۔ اس وقت تک اینٹی بائیوٹکس دریافت نہیں ہوئی تھیں۔ بیکٹیریا سے بچنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اگر فریڈرک اس پر مزید کام کرتا تو یہ بیکٹیریا سے ہونے والی بیماریوں کا ایک ممکنہ علاج ہوسکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے اسی دوران پہلی جنگِ عظیم کا آغازہو گیا۔ فریڈرک کی تجربہ گاہ کا بجٹ ختم کر دیا گیا ، اور پھر اس کا فوجی تجربہ گاہ میں تبادلہ ہو گیا۔ اس کا کا پیپر بھی جنگ کے دوران ہی چھپا۔ کسی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس جانب توجہ دیتا۔ چنانچہ زندگی کی یہ شاہکار دریافت لاشوں کے انبار تلے دبتی چلی گئی۔ بہت ممکن تھا کہ یہ ایک لمبے عرصے یا پھر شاید ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتی اگر فیلکس ڈی ہیریل (Félix d’Hérelle) نہ آیا ہوتا۔
فیلکس ایک خود ساختہ” فرانسیسی سائنسدان تھا۔ وہ فریڈرک کے کام سے واقف نہیں تھا۔ 1917 میں اس نے اپنے طور پر کام کرتے ہوئے اسی چیز کو دوبارہ دریافت کیا۔ وہ اس دریافت کی اہمیت کو سمجھتا تھا، اس لیے فریڈرک کے برعکس اس نے عین جنگ کے دوران بھی اس کام کو جاری رکھا، اور جنگ ختم ہونے سے پہلےہی نہ صرف وہ اسے ایک طریقہ علاج کے طور پر متعارف کروا چکا تھا، بلکہ جانوروں اور انسانوں پر اسے کامیابی سے آزما بھی چکا تھا ۔ اس نے اسے”بیکٹیریا کے شکاری (Bacteriophage)” کا نام دیا۔ یہ اس وقت تک صدی کی سب سے بڑی پیش رفت تھی۔ اگرچہ ارنسٹ اور فریڈرک نے اپنے اپنے طور پر اس میں حصہ ڈالا تھا، لیکن یہ مشہور فیلکس کے نام سے ہی ہوئی۔
فیلکس کون تھا؟ اس نے اس دریافت کو کیسے آگے بڑھایا ؟ اور اس دریافت سے ہمیں مزید کیا کیا فائدے ہوئے؟ یہ تو “میں نہیں بتاؤں گا!” (فیلکس کی دلچسپ اور ہمہ جہت شخصیت پر ایک الگ مضمون نہ لکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی)۔۔۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ بیکٹیریا کے ان شکاریوں سے ہم نے بہت کچھ سیکھا، اور اگر اینٹی بائیوٹکس نہ ہوتیں تو ہم شاید آج بھی اکثر بیماریوں کا علاج ان ہی کے ذریعے کر رہے ہوتے۔
آج جبکہ ہم اینٹی بائیوٹکس کے خلاف بیکٹیریا کی مزاحمت سے پریشان ہیں تو سائنسدان جہاں اینٹی بائیوٹکس کی جگہ پر استعمال کیے جانے کے قابل نئے طریقوں جیسے سٹیم سیلز (Stem Cells) یا جینیاتی انجئنیرنگ (Genetic Engineering) وغیرہ پر تحقیق کر رہے ہیں، وہیں اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ ممکنہ طور پر ہمیں اپنی پرانے دوست شکاریوں سے مزید دوستی لگانے کی ضرورت ہے۔ پچھلی ایک صدی میں ہم ان کے بارے میں اتنا کچھ جان چکے ہیں کہ ذرا سی مزید کوشش سے انہیں استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ شاید ہم جلد ہی وہ دن دیکھیں گے،بشرطیکہ ہم کسی اور جنگِ عظیم میں نہ پڑ جائیں!