یہ بھدا مذاق تھا یا فیک نیوز؟ میں نے حال ہی میں ایک خبر پڑھی کہ مولانا عبدالعزیز (لال مسجد والے)نے اپنی سرپرستی میں چلنے والے اسلام آباد کے ایک مدرسے میں صوفے نذر آتش کر دئیے۔ خبر کی کسی نے تردید بھی نہیں کی اور گوگل سرچ کیا تومیرے سارے شکوک و شبہات دور ہو گئے۔
قریب سے بنائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سٹپٹائے ہوئے مولانا جامعہ فریدیہ کے مہمان خانے میں داخل ہو رہے ہیں۔یہ دیوہیکل مدرسہ اسلام آباد کے متمول ترین علاقے سیکٹر ای میں واقع ہے۔کچھ طلباء اور اساتذہ بھی مولانا کے ہمراہ ہیں۔پہلے صوفے کو آگ لگانے سے قبل وہ سب کو اس بات پر ڈانٹ پلاتے ہیں کہ ان کی واضح ہدایات کے باوجود صوفوں کاا ستعمال ترک نہیں کیا گیا۔ مولانا کے مطابق اسی نافرمانی کی وجہ سے انہیں خود آنا پڑا۔
مولانا جو منطق بیان کرتے ہیں وہ دو ٹوک ہے: اسلام میں صوفے پر بیٹھنا منع ہے،بالخصوص جہاد کی تیاری میں مصروف مجاہدین کے لئے۔
مولانا کے مطابق پیغمبر اسلام یا ان کے صحابہ کبھی صوفے پر براجمان نہیں ہوئے۔وہ یہ منطق ماننے کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتے کہ صوفے دراصل مہمانوں کے لئے ہیں۔اپنے شہید والد کی طرح (جو مولانا سے پہلے جامعہ فریدیہ کے چانسلر تھے)مولانا بھی فرش پر بیٹھنا پسند فرماتے ہیں۔جن طلبہ کو آسان زندگی اور صوفوں پر بیٹھنے کی خواہش ہے وہ یا تو مدرسے کو خیرباد کہہ دیں یا کثرت کیا کریں۔
اس بیان کے بعد مولانا نے چھری منگائی، صوفے کے کشن کو چیرا،ماچس جلائی اور فوم کو نذر آتش کر دیا۔ایک صوفے کو جلانے کے بعد انہوں نے حکم دیا کہ دوسرا صوفہ لایا جائے۔
مولانا کی منطق سے عبوری طور پر اتفاق کرتے ہوئے مجھے ان کے عمل پر تین اعتراضات ہیں۔
اول: کمرے کے اندر صوفے کو آگ لگانا ایک خطرناک عمل ہے۔جب فوم یا پلاسٹک کو آگ لگائی جاتی ہے تو خارج ہونے والے دھوئیں میں زہریلی گیس شامل ہوتی ہے۔ ویڈیو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جوں ہی صوفے سے دھواں نکلتا ہے، مولانا کی معیت میں موجود افراد کھانسے لگتے ہیں۔ مستقبل کے نوجوان مجاہدین جس پیشے میں جا رہے ہیں وہاں درازی عمر کی توقع بہر حال نہیں کی جا سکتی پھر بھی ان کی صحت کو ایسے خطرات سے دو چار کرنے کا مطلب ہے کہ وہ وقت سے بہت پہلے جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
ٍدوئم: اس میں شک نہیں کہ گذشتہ ہزاری میں صوفے نہیں پائے جاتے تھے لیکن مولانا نے بات کا بتنگڑ ہی بنا دیا ہے۔ساتویں صدی میں تو مولانا کے زیر استعمال موبائل فون بھی نہیں تھے،صوفے جیسی سیٹوں والی جس ایس یو وی(SUV) میں وہ گھومتے ہیں وہ بھی نہیں تھی،اپنے باڈی گارڈز کو مولانا نے جو اے کے 47 تھما رکھی ہیں وہ بھی نہیں تھیں۔اسی طرح بجلی، پائپ کے راستے آنے والا پانی اور گیس ایسی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ مولانا ان سب کے استعمال کا کیا جواز فراہم کریں گے؟
انہیں اس بات کی وضاحت بھی دینا ہو گی کہ وہ ایک دور میں ٹیلی ویژن سکرین پر تواتر کے ساتھ کیوں نمودارہوا کرتے تھے حالانکہ ٹیلی ویژن پر انسانی شبیہہ پیش کی جاتی ہے اور بے شمار علماء کچھ عرصہ پہلے تک اسے حرام قرار دیتے رہے ہیں۔نیٹ فلکس پر موجود انعام یافتہ دستاویزی فلم ’امنگ دی بیلیورز‘ (Among the Believers)میں مولانا کا مرکزی کردار ہے۔
سوئم: تین ماہ بعد پاکستان بارے فیصلہ کیا جائے گا کہ اسے فیٹف (FATF) کی گرے لسٹ میں رکھنا ہے یا نکالنا ہے۔ ایک ایسے موقع پر دارالحکومت کے عین وسط میں ایک ایسے ادارے کی رونمائی کرنا جو ایسے گریجویٹ پیدا کرتا ہے جن سے دنیا کو ڈر لگتا ہے،ہرگز دانش مندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جو لوگ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا چاہتے ہیں، ان کو مولانا نے مزید ثبوت فراہم کر دئیے ہیں۔
گو صوفوں کی آتش زنی سے شہر میں امن و عامہ کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی مگر ماضی میں مولانا نے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے شہر میں امن کو خطرہ لاحق ہوا۔ گذشتہ سال مولانا کی زیر سرپرستی میں چلنے والے جامعیہ حفصہ کی طالبات نے عورت مارچ پر اسلام آباد پریس کلب کے قریب پتھر برسائے۔دیگر لوگوں کے ہمراہ میں اور میری اہلیہ بھی اس مارچ میں شریک تھے۔ ہماری خوش قسمتی کے ایک اینٹ ہمارے اوپر گرنے کی بجائے تھوڑی دور جا کر گری اور ہم بال بال بچے۔
اس سال لال مسجد کی شہداء فاونڈیشن نے مولانا کی ہدایت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی کہ ’مغرب زدہ‘ خواتین اور ان کے حامیوں کی جانب سے کئے جانے والے ہرقسم کے مارچ پر پابندی لگائی جائے۔ نامعلوم ذرائع کی جانب سے جاری کی گئی جعلی ویڈیوز کو مشتہر کیا گیا اور ان کی مدد سے عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف بلاسفیمی کے الزامات لگائے گئے۔گو بہت سی این جی اوز اور فاونڈیشنز پر پابندی لگائی گئی ہے مگر اسلام آباد انتظامیہ شہداء فاونڈیشن پر ہمیشہ مہربان رہی جس کا نتیجہ ہے کہ یہ نہ صرف باقی ہے بلکہ پھل پھول رہی ہے۔
اس مہربانی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ 2007 ء میں مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی عبدالرشید غازی(جو بعد ازاں مارے گئے) کی قیادت میں لال مسجد والوں نے اسلام آباد پر اپنی مرضی کی اسلامی ریاست مسلط کرنے کی کوشش کی۔ 12 اپریل2007ء کو مسجد میں قائم ایک غیر قانونی ایف ایم سٹیشن سے انہوں نے حکومت کو یہ خوفناک دھمکی دی: ”ملک کے کونے کونے میں خود کش حملے ہوں گے۔ ہمارے پاس اسلحہ ہے،گرینیڈ ہیں اور ہمیں بم بنانا بھی آتا ہے۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے“۔
مسجد کے مولویوں کے گرد القاعدہ اور جیش محمد جیسی غیر قانونی تنظیموں کے کارکن جمع تھے۔ریاست کے اندر ریاست بن جانے والی لال مسجد میں وسطی ایشیا کے جنگجو بھی جوق در جوق آ رہے تھے۔مسجد کے احاطے میں دونوں بھائی،مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید، اپنی شرعی عدالت لگاتے۔یہیں انہوں نے سعودی سفیر کی میزبانی کی۔یہیں انہوں نے چین کے سفیر کے ساتھ اغوا کئے گئے چینی شہریوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کئے۔
کئی ماہ تک جنرل مشرف کی حکومت دوسری طرف دیکھتی رہی۔جب مسجد میں اسلحہ اور ایندھن جمع کئے جا رہے تھے اور جامعیہ حفصہ کی طالبات شہر میں لاٹھیاں اٹھائے دندناتی پھر رہی تھیں حکومت نے نہ تو مدرسے کو بجلی اور گیس کی فراہمی بند کی، نہ اس کی ویب سائٹ پر پابندی لگی نہ ہی مسجد میں قائم غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشن بند کیا گیا۔آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ سب کچھ بزدلی کا نتیجہ تھا یا ملی بھگت کا۔
باقی تفصیلات دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جولائی 2007 ء میں اسلام آباد راکٹوں اور بموں کے دھماکوں سے گونج اٹھا جس کے بعد خون خرابہ شروع ہوا۔مسجد میں قلعہ بند جنگجووں کے ہاتھوں ایس ایس جی کے کئی کمانڈو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کتنے ہی زخمی ہو گئے۔اس سے چند دن پہلے مسجد کے قریب ایک چیک پوسٹ پر خود کش حملے میں کئی پولیس اہل کار ہلاک ہوئے۔جب مسجد پر قبضہ ختم کرایا گیا تو جنگجووں سے بے شمار اسلحہ برآمد ہوا۔چند ہفتوں بعد یہ اسلحہ اچانک پراسرار طریقے سے غائب ہو گیا۔
فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ ہمیں اپنا گھر سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ گھر کے صوفے نذر آتش کر دئیے جائیں مگر صوفوں کی آتش زنی نے 2007ء کی یادیں تازہ کر دیں جب ہمارے فوجی اور سپاہی موت کی بھینٹ چڑھے۔اس کے باوجود تک آج تک مولانا عبدالعزیز یا ان کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکی۔عام ریاستیں یہ اجازت نہیں دیتیں کہ اپنے شہریوں کے قاتل کو آزاد گھومنے دیں یا ان قاتلوں کو ایسے ادارے چلانے دیں جہاں سے مزید قاتل پیدا ہوں۔چودہ سال گزر گئے، اسلام آباد کا یہ اہم معمہ حل نہیں ہو سکا۔