SUPER BLOG

بعد والی فقط کہانیاں

نصرت جاوید۔ عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت بھی یقینا کمزور ہورہی ہے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے لیکن ایک بزرگ تھے۔ غالباََ انہیں عصمت علیگ پکارا جاتا تھا۔ میرا ان سے ذاتی تعلق نہیں تھا۔ اسلام آباد میں سرگودھا سے آئے میرے کئی نوجوان دوست مگر 1980ء کی دہائی میں ان کے بہت مداح تھے۔ وہ جب بھی چند دنوں کے لئے یہاں تشریف لاتے تو ان کے اعزاز میں ضیافتوں کا اہتمام کرتے۔ وہاں ان صاحب کو بہت احترام واشتیاق سے سنا جاتا تھا۔ موصوف بہت صاحب علم تھے۔ سیاست ان کا پسندیدہ موضوع تھی۔ اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہے اور سناکرے کوئی والا عالم بنادیتے۔

عمر بڑھنے کے ساتھ یادداشت بھی یقینا کمزور ہورہی ہے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے لیکن ایک بزرگ تھے۔ غالباََ انہیں عصمت علیگ پکارا جاتا تھا۔ میرا ان سے ذاتی تعلق نہیں تھا۔ اسلام آباد میں سرگودھا سے آئے میرے کئی نوجوان دوست مگر 1980ء کی دہائی میں ان کے بہت مداح تھے۔ وہ جب بھی چند دنوں کے لئے یہاں تشریف لاتے تو ان کے اعزاز میں ضیافتوں کا اہتمام کرتے۔ وہاں ان صاحب کو بہت احترام واشتیاق سے سنا جاتا تھا۔ موصوف بہت صاحب علم تھے۔ سیاست ان کا پسندیدہ موضوع تھی۔ اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہے اور سناکرے کوئی والا عالم بنادیتے۔

1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں کے دوران ہمارے ہاں سیاست ختم ہوئی نظر آتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا جاچکا تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں کالعدم ٹھہرادی گئی تھیں۔ اخبارات اپنی تیارشدہ کاپی پریس میں چھپنے سے قبل وزارت اطلاعات بھجواتے۔ وہاں بیٹھے افسر یہ فیصلہ کرتے کہ کیا چھپے گا اور کیا نہیں۔ کامل سکوت کے اس عالم میں لوگ ضیا حکومت کے خلاف اپنے دلوں میں موجود جذبات برجستہ بیان کرنے سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے۔

عصمت صاحب خوف ودہشت کے اس ماحول میں بھی محفلوں میں نہایت اعتماد سے ضیاحکومت کی فراغت کے بظاہر منطقی اسباب انتہائی بے دھڑک انداز میں بیان کرنے میں مصروف رہتے۔ ایسی ہی ایک محفل کے اختتام پر ان کا میزبان مجھے اور ان کو ہماری قیام گاہوں پر اپنی گاڑی میں چھوڑنے آیا۔ گاڑی سٹارٹ کرکے میزبان نے نہایت فکر مندی سے عصمت صاحب کو آگاہ کیا کہ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے ضیا حکومت کے چل چلائو کا دعویٰ کررہے ہیں۔ ان کے بیان کئے اندازے مگر اب تک درست ثابت نہیں ہوئے۔ انہیں اس کی بابت خفت محسوس نہیں ہوتی۔

میزبان کا سوال عصمت صاحب نے نہایت اطمینان سے سنا۔ میزبان کی فکر مند گفتگو ختم ہوئی تو انہوں نے ڈھٹائی سے سگریٹ سلگایا اور کندھے اچکاتے ہوئے فرمایا کہ اقتدار میں آنے والافرد کسی نہ کسی روز رخصت بھی تو ہوتا ہے۔ ضیاء الحق کے ساتھ بھی ایک دن ایسا ہی ہونا ہے۔ وہ ہوگیا تو مجھے سننے والے تمام افراد یکسوہوکر اعتراف کیا کریں گے کہ  عصمت تو کئی دنوں سے ضیاء الحق کے جانے کی بات کررہا تھا۔

مذکورہ واقعہ گزشتہ چند ہفتوں سے مجھے مسلسل یاد آرہا ہے۔ آج سے تقریباََ دو ماہ قبل اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے ضمن میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ اس تاخیر نے ہمارے کئی مبصرین کو یہ طے کرنے کو اکسایا کہ اگست 2018ء میں نمودار ہونے والے حکومتی بندوبست کے خالق عمران خان صاحب سے مایوس ہونا شرع ہوگئے ہیں۔ اب کسی نئی گیم کی تیاری ہے۔ دریں اثناء آصف علی زرداری صاحب کا فارمولوں والا بیان بھی آگیا۔ اس کے بعد لاہور میں خواجہ رفیق مرحوم کی برسی والی تقریب میں قومی اسمبلی کے سابق سپیکر نے ایک تقریر فرمائی۔ ایاز صادق صاحب حال ہی میں لندن گئے تھے۔ وہاں ان کی نواز شریف صاحب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کو کچھ "نیا” کرنے کی تیاری بتایا گیا۔

عرصہ ہوا میں عملی صحافت سے ریٹائر ہوا اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوچکا ہوں۔ اقتدار واختیار کے حامل افراد تک رسائی میسر نہیں۔ متحرک سیاستدانوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو کے مواقع بھی نہیں ملتے۔ ٹھوس حقائق تک مؤثر رسائی کے بغیر محض اخبارات کو غور سے پڑھتے ہوئے اس کالم میں اصرار کرتا رہا کہ عمران حکومت کے چل چلائو کی باتیں محض گپ شپ ہیں۔ 2014سے ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے باہم مل کر ایک ماحول بنانا شروع کیا تھا۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر حاوی ذہن سازوں نے اسے نہایت لگن سے توانا تر بنایا۔ اس کی بدولت اگست 2018میں بالآخر عمران خان صاحب ایک دیدور کی صورت وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔

ہر نوع کی اشرافیہ کے باہمی تعاون اور لگن سے بنایا بندوبست فی الحال فطری انجام کی جانب بڑھتا نظر نہیں آرہا۔ میری سوچی سمجھی رائے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ عمران حکومت کے چل چلائو کی باتیں بلکہ اس وقت مزید قابل اعتبارمحسوس ہونا شروع ہوگئیں جب اس حکومت کی تشکیل میں حصہ ڈالنے والے چند ذہن ساز بھی "صبح گیا یا شام گیا” والا ماحول بنانا شروع ہوگئے۔

چل چلائو کی باتیں کرنے والے امید یہ باندھے ہوئے تھے کہ حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لئے قومی خزانے کے لئے مزید 600ارب روپے جمع کرنے کا انتظام نہیں کر پائے گی۔ ایسا انتظام منی بجٹ نامی شے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ شوکت ترین صاحب کو ایسا بندوبست متعارف کروانا تھا جس کے ذیعے کم از کم ساڑھے 3سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے بجٹ میں مختص ہوئی رقم میں گرانقدر کٹوتی ہو۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے۔

مہنگائی کی لہر ہمارے ہا ں2018ء سے تھمنے کو تیار نہیں ہورہی۔ اس کی وجہ سے لوگوں میں جو غصہ ابل رہا ہے اس کا اظہار حال ہی میں خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوران بھرپور انداز میں ہوچکا ہے۔ مذکورہ انتخاب کی وجہ سے کئی مبصرین نے یہ طے کرلیا ہے کہ اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر عمران حکومت عوام پر اب اضافی ٹیکس لگانے کو آمادہ نہیں ہوگی۔ وہ اگر تیار ہوبھی جائے تو قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں پر براجمان اراکین پارلیمان منی بجٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اتحادی جماعتیں بھی اس ضمن میں تحفظات کا اظہار کرتی بتائی گئیں۔

ریگولر اور سوشل میڈیا پر جوشور برپا ہوتا ہے وہ آپ کو ذاتی رائے پر غور کو مجبور کئے رہتا ہے۔ مذکورہ شور سے مرعوب ہوکر بدھ کی سہ پہر سینٹ کا اجلاس دیکھتے ہوئے میں بھی بہت حیران ہوا۔ گرماگرم اجلاس کے اختتام پر چیئرمین سینٹ نے ایوانِ بالا کے سیشن کے اختتام کا اعلان کردیا۔

منی بجٹ جسے حکومت "فنانس (ضمنی)بل” پکارنے کو بضد ہے درحقیقت ریاست کے مالیاتی امور سے متعلق قانون ہوتا ہے۔ اس قانون کی منظوری فقط براہِ راست منتخب ہوئی قومی اسمبلی سے درکار ہوتی ہے۔ اس کی سفارشات مگر سینٹ کوبھی بھیجی جاتی ہیں۔ سینٹ کی فنانس کمیٹی ان کے بارے میں غور کے بعد اپنی رائے تحریری صورت قومی اسمبلی کو بھجوادیتی ہے۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ضمنی بجٹ کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ ڈالتے ہوئے اراکین اسمبلی سینٹ سے ضمنی بجٹ کی بابت آئی رائے کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں گے۔ بدھ کی سہ پہر جب صادق سنجرانی نے اپنے ایوان کا سیشن ختم ہونے کا اعلان کردیا تو میں بھی تھوڑی دیر کے لئے یہ سوچنے کو مجبور ہوگیا کہ غالباََ عمران حکومت نے منی بجٹ کو پارلیمان کے روبرور کھنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔

  یہ کالم لکھنے سے قبل لیکن قومی اسمبلی کی سرکاری ویب سائٹ پر نگاہ ڈالی ہے۔ شام چار بجے بلائے اجلاس کے ایجنڈے کا چوتھا نکتہ عندیہ دے رہا ہے کہ شوکت عزیز صاحب فنانس کا ضمنی بل بھی پیش کریں گے۔ کسی قیاس آرائی کی لہٰذا اب گنجائش نہیں رہی۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ عمران حکومت اس امر کو یقینی بنانے کے بعد ہی ضمنی بجٹ کو منظوری کے لئے پیش کرے گی کہ وہ سرعت سے پاس ہوجائے۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے فقط کہانیاں ہیں۔ ریاستِ پاکستان نے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف سے چند وعدے کررکھے ہیں۔ ان پر عملددرآمد نہ ہوا تو عمران حکومت کی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی ساکھ کو عالمی منڈی میں شدید دھچکہ لگے گا اور ریاستی مفادات کے دائمی نگہبان ایسے دھچکے برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔

Related Articles

Back to top button