الوداع میرےدوست۔۔ اسلام آباد والوں کو کاون سے اتنا ہی پیار تھا جتنا لاہور والوں کو سوزی ہتھنی سے تھا۔ کاون یقینی طور پر خاکسار کا بھی سب سے اچھا دوست رہا ہے ۔مگر یہ دوستی صرف چند سال ہی چلی ۔
سکول کا پہلا تفریحی دورہ بھی یاد آرہا ہے ۔ جب بچوں نے چھوٹے سےکاون کو دیکھ کر خوشی سے چیخیں مار دی تھیں ۔ خاکسار نے بھی جذباتی اندازمیں کاون کو مخاطب کیا تھا۔ وہ دن شاید سب سے خوبصورت دن تھا ۔۔تشدد پسند ٹیچرزاس شور شرابے پر بچوں کو روایتی انداز میں دھمکیاں دینے کے بجائے خود لطف اٹھا رہی تھیں ۔ کاون کا قد چھوٹا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں کے قریب جلد کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے ہنس رہا ہے ۔ سری لنکا میں اپنی ماں سے جدائی کا سانحہ چند سال میں ہی بھول چکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت جلدی ہی اپنی ماں سے الگ کر دیا گیا تھا۔
خاکسار اس کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔ وہ کبھی سونڈ ہلاتا تو کبھی خوشی سے ایک سمت بھاگ کر واپس آجاتا۔ ایک ٹیچر کے پاس ریل والا کیمرہ تھا ۔۔ وہ وقفے وقفے سے تصاویر لیتیں اور پھر کیمرے کے اوپر لگے لیور کو بڑے فاتحانہ انداز میں گھماتیں ۔ ۔پچاس کے قریب بچے اچک اچک کر کاون کو دیکھ رہے تھے ۔۔ اسے نام لے کر پکارتے ۔۔ کاون نے خاکسار کی طرف بھی دیکھا تھا۔ ۔گھر واپسی پر سب بچوں کی خواہش تھی کہ کاون بھی کسی طرح بس میں بیٹھ کر ساتھ چلے ۔۔ شاید چند سال کا کاون بھی یہی چاہتا تھا۔
اس کے بعد خاکسارگھر والوں سے ضد کر کے تقریبا ہر ہفتے ہی کاون سے ملنے کے لئے جاتا رہا۔ یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا۔۔کچھ عرصہ بعد پھر کاون سے ملنے کا اتفاق ہواتو دیکھا کہ موصوف نے شادی رچا لی تھی ۔
یہ رشتہ بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد نے طے کرایا تھا مگر مانیکا نامی یہ ہتھنی بھی کولمبو کے نیشنل پارک میں پیدا ہوئی تھی ۔ مانیکا پاکستان اتری تو اس کا شوہر کاون اس کا منتظر تھا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مانیکا کا مذہب جبری تبدیل کرایا گیا۔ اس کا نیا اسلامی نام سہیلی رکھا گیا۔ دونوں کو شادی کی سلامی زنجیروں کی صورت میں دی گئی ۔ شرارتی کاون اور سہیلی بی بی کو الگ الگ باندھ دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چڑیا گھر میں جگہ کم تھی جو احاطہ مختص کیا گیا تھا اس میں دو ہاتھیوں کو ساتھ رکھنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں ۔
کاون انتظامیہ کے ظلم بچپن سے ہی برداشت کرنے کی تربیت لے رہا تھا ۔اس لئے وہ سہیلی کے آگے اپنی تکالیف کا اظہار نہ کرتا ۔اس کی اولین ترجیح بس یہی ہوتی تھی کہ اپنی ہم وطن دوشیزہ کے سامنے ہیرو بنتا رہے ۔ وقت گزرتا رہا۔۔ خاکسار کئی سال اس سے مل نہ سکا۔۔ لیکن اس کے بعد جو ملاقات ہوئی اس میں کاون کی روایتی مسکراہٹ غائب تھی ۔ یوں لگتا تھا کہ وہ اس روٹین سے تنگ آرہا ہے ۔ اسے اپنی بیوی سے پیار تھا مگر پاؤں کی زنجیریں اسے تکلیف دیتی تھیں ۔
جنرل ضیا نے تو مایوس کیا مگر کاون اکثر سوچتا تھا کہ نوازشریف کی حکومت بڑے فنڈز پاس کر دے گی ۔احاطہ کھلا ہو جائے گا۔ پھر آزادی سے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ چہل قدمی کر سکے گا ۔بارش میں رومانس بھی کرے گا۔۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کو دیکھ کر سکون حاصل کرسکے گا۔ اسے کرتب دکھانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بچوں کو اپنے اوپر سوار کرنا وہ عبادت سمجھتا تھاالبتہ بھیک مانگنا اسے پسند نہیں تھا۔ کئی مرتبہ چچا نسیم اسے کانٹوں والا ڈنڈا چبو دیتا تو مجبوری کی وجہ سے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی بھیک وصول کرنی پڑتی ۔
سہلی کے پاؤں کا زخم زنجیر کی وجہ سے گہرا ہو رہا تھا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ۔ کاون کی بیوی ایک دن اسی زخم کی وجہ سے سسک سسک کر یہ دنیا چھوڑ گئی ۔ اس صدمے کی وجہ سے کاون بوکھلا گیا تھا اسے زندگی جہنم لگنے لگی ۔ وہ سر ہلاتا۔۔ کبھی کئی دن جاگتا رہتا۔۔ کبھی چیختا ۔۔ چلاتا ۔۔ اس نے اپنے احاطے کی ایک چھوٹی دیوار بھی ایک دن توڑ دی تھی ۔ کھانا پینا چھوڑ دیا۔ ۔مگر جلد اسے احساس ہو گیا کہ کوئی اس کی پکار سننے والا نہیں ۔ انتظامیہ کی اولین ترجیح وہ بھیک تھی ۔۔ وہ ٹکٹ تھی جو صرف اس کی وجہ سے ہی کٹتی تھی ۔۔اور یومیہ لاکھوں کی آمدن ہوتی تھی ۔
کاون نے اس عرصے کے دوران کئی جانوروں کی ہلاکتوں کی خبریں سنیں ۔ وہ پاگل ہو رہا تھا۔ ایسے میں چڑیا گھر کے ایک ڈائریکٹر نےاپنے جیسے ماہرین سے مشورہ کر کے کاون کو شراب پلانے کی اجازت دے دی ۔ شراب کامقصد یہ تھا کہ کاون مدہوش رہے چیخے چلائے مت۔۔ سکون سے جھومتا رہے اور بھیک مانگتا رہے ۔ کئی ماہ کاون کو شراب پلائی جاتی رہی ۔
کاون ابتدا میں مشرف کا حمایتی تھا مگر بعد میں اسے معلوم ہوا کہ سب آمر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ۔ بینظیر کے قتل کے بعد کاون کو معلوم ہوا کہ نئی حکومت آگئی ہے ۔ کاون کے مطالبات پھر وہی تھے ۔۔لیکن سرکار بتا چکی تھی کہ پالیسی تبدیل نہیں ہوگی جتنا مرضی شور مچا لو۔۔اپنی بیوی کی طرح ہی یہاں مرو گے ۔۔ ادھر انسان روز تڑپ تڑپ کر مرتے ہیں ۔۔ تم تو پھر بھی دو ٹکے کے جانور ہو۔۔اور وہ بھی غیر ملکی ۔
اپنے دوست کو حوصلہ دینے خاکسار کچھ عرصہ قبل بھی اس کے پاس گیا۔۔ مگر اس کی سرد مہری یہ بتا رہی تھی کہ اس نے اپنی قسمت سے سمجھوتا کرنا سیکھ لیا ہے ۔ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا مگر کوئی اس کو سمجھ نہیں سکتا تھا۔وہ ان بے ضمیر ،بے حس پاکستانیوں سے بیزار ہو رہا تھا۔ بھیک مانگتا مگر اس کا دماغ کہیں اور ہوتا تھا۔ اسے سست دیکھ کر اس کی زنجیر کھول دی گئی تھی ۔
کبھی کبھی کاون کو اس کا ماضی یاد آتا تو وہ بھڑکیں مارتا۔۔انتظامیہ اور حکمرانوں کو گالیاں دیتا ۔۔حکومت الٹانے کی دھمکی دیتا۔۔فوج کے خلاف بھی بولتا۔۔ عدلیہ کو کھری کھری سنا دیتا۔۔ وہ باغی ہو رہا تھا۔۔ کبھی روتا۔۔ تو کبھی طویل سوتا۔۔ کئی مرتبہ مولوی حضرات اس کے ساتھ فوٹو بنوانے آتے تو کاون انہیں بھی کہتا کہ اوئے تم لوگوں کی تو تعلیمات میں شامل ہے کہ جانوروں سے بھی حسن سلوک کرو۔۔ کیوں آواز نہیں اٹھاتے ۔۔ ! مگر مولوی بھی بے حس تھے ۔۔ وکیل بھی بے حس تھے ۔۔ سیاستدان بھی بے حس تھے ۔۔میڈیا اور کیمرے والے بھی بے حس تھے۔۔ یہاں تک کہ وہ خاکسار کو بھی بے حس قرار دے چکا تھا۔۔البتہ اسے ان بچوں سے بہت پیار تھا جو اس کے آگے پیچھے گھومتے تھے ۔۔ تصاویر بناتے تھے ۔۔ شاید انہی کے سہارے وہ اپنے غم وقتی طور پر بھلا دیتا تھا ۔۔
چند کلومیٹر دور ڈی چوک میں جب عمران خان کنٹینر پر چڑھ کر انقلاب کی باتیں کرتے تو کاون پوری تقاریر سنتا ۔کبھی کبھی مست ہو کر روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے کے گانے پر جھوم بھی لیتا ۔۔باقی جانور اس پر ہنستے ۔۔ اور کہتے ہیں ارے دماغ خراب ہے تیرا۔۔
آخر کار عمران خان کی حکومت آئی تو کاون کو شدید مایوسی ہوئی ۔ یہ حکومت تو پہلے والوں سے بھی بے حس نکلی ۔ کاون کے لئے تو اب ایک وقت کی روٹی پوری کرنی مشکل ہو رہی تھی ۔ ایسے میں ایک دن چمتکار ہوا ۔۔ گانے بجانے والی چیئرنامی کافر عورت نے اس کی تصویر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر چھاپ دی ۔
معاملہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ میڈیا والوں کو بھی ہوش آگیا ۔ ان میں خاکسار بھی شامل تھا جس نے ایک اخبار میں طویل آرٹیکل چھاپ کر آواز اٹھانے کی کوشش کی ۔ ایک دن اسلام آباد کے چیف جسٹس کو غصہ آیا اور انہوں نے سب کی واٹ لگا دی ۔ ۔ کاون کو زیادہ امید تو نہیں تھی مگر اسے خبریں مل رہی تھیں کہ اس کی تکالیف کا دور اب ختم ہونے والا ہے ۔
جج صاحب نے پورا چڑیا گھر ہی بند کرا دیا حکومت کو بہت سنائیں ۔ ۔ حکم صادر کیا کہ کاون کو کسی دوسرے ملک بھجوا دو جہاں وہ روٹی تو کھل کر کھا سکے ۔۔جہاں اس کو اس کی سہیلی مل جائے ۔۔جہاں وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکے ۔۔ جہاں وہ اپنے جیسے بڑے کان والے جانوروں کو دیکھ سکے ۔۔ عالمی تنظیمیں جو کئی سالوں سے شور مچا رہی تھیں فوری میدان میں اتریں ۔۔
کاون کو معلوم ہوا کہ اسے کمبوڈیا بھیجا جارہا ہے جہاں بے گھر ، نادار، مفلس اور بے سکون ہاتھیوں کاایک شہر آباد ہے ۔ کاون کے لئے پاکستان سے نکلنےکا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔۔ اسے اب کسی میں بھی دلچسپی نہیں تھی ۔۔ وہ پی ڈی ایم کے جلسوں کو وقت کا ضیاع سمجھ رہا تھا۔۔ لنگر خانوں ، معیشت، کورونا ، بھارتی فائرنگ، کلبھوشن یادو، کشمیر، حادثے ، دھماکے ، کرپشن ، کنٹینر ، شراب، غیرت کے نام پر قتل۔۔ یہ سب الفاظ اسے سننا بھی گوارا نہیں تھے ۔۔ حالانکہ وہ انہی مسائل کو سن سن کر جوان ہوا تھا۔۔
آخری مرتبہ اسے جہاز میں سوار کرانے کے لئے پھر مدہوشی کا ٹیکا لگایا گیا ۔۔ دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔۔باہر سےآئے گورے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔۔ ایک دوسرے کے گلے لگ کر مشن کی کامیابی پر مبارکبادیں دے رہے تھے ۔۔
نیشنل جیوگرافک والے بھی نور خان ایئر بیس پر جہاز میں ساتھ سوار ہوئے ۔۔ یہ انگریز یوں خوش تھے جیسے دنیا فتح کر لی ہو۔۔ انہوں نے بے زبان جانور کی زندگی بچا کر انسانیت کی لاج رکھ لی ۔۔ اسلام آباد میں دو ماہ سے قیام پذیر 22رکنی ٹیم نے کاون سے ٹوٹ کر پیار کیا۔۔اس کی نفسیات کو باریک بینی سے سمجھا ۔۔ کمبوڈیا منتقل کرنے کے تمام مراحل پر تفصیلی غور کیا۔۔اس دوران پاکستانی حکام انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔
کاون نئے گھر میں خوش رہے گا۔۔ نئے دوست بنائے گا۔۔دوسری شادی بھی کرے گا۔۔اسے پاکستانی بچے یاد آئیں گے ۔۔ مگر وہ پاکستان میں ہونے والے ظلم بھی دنیا کو بتائے گا۔۔ اور ہم کہیں گے ۔۔ غدار تھا۔۔ پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے ۔۔
الوداع میرے دوست۔۔
یہ بھی پڑھیے:شہریار خان کا کالم