یوم پاکستان تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی ۔ قائد اعظم کی لازوال جدوجہد نے دنیا کے نقشے میں ایک نئے ملک کی بنیاد ڈالی ۔ آج ہی کے دن مسلم لیگ نے عملی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ آخر کار سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں مسلم لیگ کو کامیابی ملی ۔
سنہری تاریخ اس عظیم ملک کی جدوجہد میں قائداعظم کے کردار کو ہی نمایاں جگہ دیتی ہے ۔ لاہور کے منٹو پارک جلسے میں درحقیقت نئے وطن کی قرارداد مسلمانوں کے جذبات کی جنگ تھی جو ہر صورت جیتنا تھی ۔ پاکستان بننے سے پہلے اور 1956 تک ایسا کوئی دن نا منایا گیا۔ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا جس کے بعد اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر مملکت بن گئے۔ اسی دوران یوم پاکستان منانے کی روایت نے جنم لیا ۔ اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگ گیا یوں جمہوریت کی صف لپیٹ دی گئی ۔ اس سے پہلے اسے یوم جمہوریہ بھی کہا گیا مگر فوجی حکومت آنے کے بعد اسے یوم جمہوریت تو نہ کہا گیا تاہم یوم قرارداد پاکستان اس کا نیا نام پڑا اور اس کے بعد یہ مختصر ہو کر یوم پاکستان بن گیا ۔
اس دن کو کوئی بھی نام دے دیں یہ حقیقت ہے کہ یہی وہ دن تھا جس دن برصغیر میں مسلمانوں کو ایک الگ ملک کا خواب دکھایا گیا تھا۔ عملی جدوجہد میں سات سال تو لگ گئے مگر مسلمانوں کو پاکستان کا تحفہ ملنا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ نئی مملکت کے وجود میں آنے کے بعد یہ سب کو معلوم تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ اقلیتوں کو بھی رہنا ہوگا۔ غیر مسلموں کی بڑی تعداد جن میں سکھ، عیسائی ، ہندو، پارسی سمیت دیگر شامل تھے تقسیم کے بعد پاکستان کے ہو کر رہ گئے ۔ ان خاندانوں کی جائیدادیں ، مال مویشی کھیت کھلیان پاکستان میں تھے اسی لئے انہوں نے اسی دھرتی میں رہنا بخوشی قبول کیا۔ اسی مناسبت سے قومی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کا ترجمان ہے ۔ میرا تعلق بھی پاکستان کے ایک ایسے ہی اقلیتی گھرانے سے ہے جن کو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے ۔ ہمارے آباؤ اجداد پاکستانی تھے وطن کی محبت سے سرشار تھے اور ہمارے اندر بھی یہی خون دوڑ رہا ہے جو ہمیں ملک سے محبت اور وفا کا درس دیتا ہے ۔
پشاور کی ہی بات کریں تو یہاں بھی بیسیوں سکھ خاندان آباد ہیں جو کسی نہ کسی طرح ملکی ترقی میں کردار نبھا رہے ہیں ۔ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ ریاست اقلیتوں کو حقوق دینا چاہتی ہی ہے مگر کچھ عناصر اس میں رکاوٹ ہیں ۔ کوئی بھی سربراہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا ملک انتشار کا شکار ہو۔ کوئی سربراہ مملکت یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس کے ملک میں فرقہ واریت ہو یا مسلکی اختلافات بڑھ جائیں ۔ یہ کچھ عناصر ہی ہوتے ہیں جو فساد چاہتے ہیں اور اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔ ہماری پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، عدلیہ اور یہاں تک کے انتظامیہ بھی امن ہی چاہتی ہے ، برابری کے حقوق کی ہی بات کرتی ہے ۔ لہٰذااقلیتوں کو درپیش مسائل پر حکومت کی نیت پر شک کرنا درست نہیں ۔
دوسری جانب بالخصوص سکھ کمیونٹی کی بات کریں تو یہاں ہمیں تمام حقوق حاصل ہیں ۔ ہمارے مذہبی مقامات ہمارے لئے کھلے ہیں ، انتظامات بہترین ہیں ۔ ننکانہ صاحب سے لے کر کرتار پور تک سب حکومت کے بہترین تعاون کے مظہر ہیں ۔ سکھ کمیونٹی کو یہاں بہت محبت ملتی ہے یہاں تک کے عام پاکستانی بھی خیال کرتے ہیں ۔ یہاں مکمل مذہبی آزادی ہے چند ایک مسائل تو ہیں مگر یہ مسائل سکھ کمیونٹی کی پاکستان سے محبت کم نہیں کر سکتے ۔آج کے دن میں اپنی قوم پر یہ باور کرانا چاہتی ہوں کہ وطن سے محبت بےلوث ہونی چاہیے اور غیر مشروط ہونی چاہیے ۔ پاکستان سے وفا ہمارے خون میں ہے اور ہمیشہ رہنی چاہیے اسی طرح آج کے دن ہمیں یہ بھی عہد کرنا چاہیے کہ ملکی ترقی میں ہر کسی کو کردار نبھانا ہے اپنے گھر کو پہلے ٹھیک کرنا ہے پھر معاشرے کی اصلاح کرنی ہے یہی قائد کا فرمان بھی تھا اور مشن بھی ۔