پاکستان پر پابندیاں۔۔ ٹویٹر پر عالمی ٹرینڈ کون چلا رہا ہے ؟

وقت اشاعت :15ستمبر2021

ندیم رضا، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی ۔ پاکستان پر پابندیاں۔۔ ٹویٹر پر عالمی ٹرینڈ کون چلا رہا ہے  ؟اس ٹرینڈ میں اب تک ہزاروں ٹویٹس کی جا چکی ہیں ۔

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے دو ٹوک موقف کے بعد ٹویٹر پر اچانک ایک ٹرینڈ نمودار ہوا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے ٹویٹس کی بھرمار ہوگئی ۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو واضح پیغام دیتے ہوئے طالبان  کی حکومت کو فوری قبول نہ کرنے کا کہہ دیا ،ساتھ ہی تنقیدی لہجے میں پاکستان  پر یہ  بھی واضح کردیا کہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سخت پیغام کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم سوشل میڈیا پر تبصروں کی بھرمار ہوگئی ۔

امریکی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف سخت اور تنقیدی رویہ اپنایا۔ فوٹو کریڈٹ :رائیٹرز

پاکستان پر پابندیوں  کےحوالے سے ٹرینڈ میں افغان عوام کی بڑی تعداد شامل ہیں۔ ان میں افغان صحافی جو امریکا یا دوسرے ممالک میں نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں شامل ہیں۔ اس ٹرینڈمیں وہ افغان شہری بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جو امریکا، کینیڈااور یورپ میں آباد ہیں ۔ اسی طرح اس ٹرینڈمیں ایسے افغان شہریوں کی بھی ٹویٹس سامنے آرہی ہیں جو افغانستان میں ہی  ہیں مگر طالبان کے ڈر سے اپنی شناخت چھپا رہےہیں ۔ جبکہ بعض ٹویٹر اکاؤنٹس ایسے بھی پائے گئے جو افغان  طالبان سے بے خوف ہیں۔ بیشتر صارفین نے  طالبان کی حکومت کی حمایت کرنے پر پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ایسے صارفین کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر رسوخ بڑھا رہا ہے جبکہ افغان عوام تشدد اور جبر کی پالیسی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

عالمی ردعمل کیا ہے ؟

پاکستانی پالیسی پر عالمی ردعمل بھی خاصا سخت ہے ۔ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان کرس الیگزنڈر اس ٹرینڈ  کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہیں ۔ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اور زبان کا استعمال کرتے ہوئے کرس   ہر پاکستان مخالف ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے سے بھی  نہیں ہچکچا رہے ۔ طالبان کی حمایت کرنے پر روس اور چین پاکستان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔

پیر کے روز ہی وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر ولادمیر پیوٹن کو فون کیا جس میں افغانستان کی صورتحال اور نئی حکومت کی مالی مدد پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران مزید کیا گفتگو ہوئی پاکستانی وزیراعظم آفس کی جانب سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں البتہ رسمی پریس ریلیز ضرور سامنے آئی ہے ۔

اسی طرح چین نے بھی طالبان کی جانب جھکاؤ رکھا ہوا ہے اور افغان طالبان کے مطابق نئے منصوبے شروع کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

پاکستان کا موقف کیا ہے ؟

پاکستان نے کھل کر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا نہ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے  ۔ اگرچہ پاکستانی سفیر منصور علی خان متعدد مرتبہ کابل میں افغان قیادت سےملاقاتیں کر چکے ہیں ۔ حال ہی میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی کابل کا دورہ کر چکے ہیں ۔ دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی پالیسی امن کی ہے ۔ دنیا کو افغان عوام کا خیال کرنا چاہیے ۔ طالبان نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ماضی کا رویہ نہیں اپنایا جائے گا۔

پاکستانی آرمی چیف کیا کہتے ہیں ؟

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی متعدد مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے ۔ اور اس بات کا یقین چاہتا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ آرمی چیف واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی  خطے میں ترقی اور استحکام ہے ۔ انہوں نے مختلف سفیروں یورپی یونین کے نمائندوں سے دوران ملاقات بھی یہی کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کو پر امن ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے ۔ افغانستان میں امن کا فائدہ پورے خطے کو ہوگا۔ پاکستان بہتر انداز میں  خطے  میں ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار اداکر رہا ہے ۔