نعیم بٹ، لاہور ۔ جعلی عاملوں اورجنات کاانوکھافراڈ معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ آپ نے عملیات کی تو لاتعداد کتب پڑھ رکھی ہوں گی مگر کیا کبھی ان کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے ؟
اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لیے غیر مرئی مخلوقات اور عامل حضرات سے ربط استوار کرنے کی خواہش ہمارے معاشرے میں صدیوں سے موجود ہے اوراب مزید سرایت کرتی جارہی ہے ‘اس کا بنیادی سبب ضعیف الاعتقادی ہے۔ اس موضوع پر ایک کتاب ’ہاں میں جادوگر ہوں‘ تحریر کی گئی ہے جس کے مصنف محمد شہریار ہیں۔
ہاں میں جادوگر ہوں نامی یہ کتاب 232 صفحات پر مشتمل ہے اوراس کی اشاعت کا اہتمام منظور الکتاعت نامی اشاعتی ادارے نے کیا ہے، کتاب نسبتاً بہتر کاغذ پر شایع کی گئی ہے اور موضوع کی مناسبت سے انتہائی دیدہ زیب سرورق کی حامل ہے۔اس کتاب کی دیپاچہ معروف سائنسدان پروفیسر پرویز ہود بھائی نے لکھا ہے اور اس کتاب کو جہالت کے اندھیرے دور کرنے میں انتہائی معاون گردانا ہے جس سے اس کتاب کی افادیت کو چار چاند لگتے دکھائی دیتےہیں ۔
کتاب میں عام لوگوں کو پیش آنے والے مختلف مابعدالطبعیاتی واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے اوراسی نوعیت کے معروف واقعات و روایات کو موضوع ِ گفتگو بنایا گیا ہے۔
کتاب میں پاکستان کے علاوہ بھارت‘ چین ‘ امریکہ ‘ یورپ اوردیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر فطری اور ماورائی واقعات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔
کچھ کتاب کے بارے میں
ہاں میں جادوگر ہوں نامی اس کتاب کے پیش لفظ میں مصنف لکھتے ہیں کہ’اس کتاب میں حساس موضوع کو لیتے ہوئے ایک علمی بحث چھیڑی گئی ہے تاکہ قارئین خود فیصلہ کریں‘۔
کتاب میں جہاں ایک جانب عام لوگوں کو پیش آنے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہیں ملکی اور عالمی شہرت یافتہ مابعدالطبعیاتی موضوعات کو بھی موضوع ِ گفتگو بنایا گیا ہے۔
کتاب میں عملیات کے حوالے سے رائج بعض کتب کے حوالہ جات کے ساتھ ان میں درج عملیات کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جن کے متعلق مصنفین کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی ہیں۔ محمد شہریار نے ان میں سے بیشتر علوم کے اسلام سے قبل رواج پا جانے کے حوالے درج کیے ہیں اور ان کے اسلامی ہونے سے متعلق عقلی دلیل اور حوالے درج کیے ہیں۔
کتاب کے آغاز میں مصنف نے کہا ہے کہ ’ کہیں کہیں طنزو مزاح کا پہلو رکھا گیا ہے لیکن یہ ایک خالص علمی بحث ہے‘ تاہم بعض مقامات پر مصنف کا طرزِ تحریر مزاح سے بڑھ کر استہزائیہ نوعیت کا حامل ہوجاتا ہے۔
کتاب میں استعمال کی جانے والی زبان کو ایک عمدہ نثر نہیں کہا جاسکتا بلکہ زبان و بیان کی نوعیت اخباری ہے اور بعض مقامات پر انگریزی الفاظ کا غیر ضروری استعمال کیا گیا ہے جو کہ ایک علمی بحث ہونے کے ناطے بطورسقم شمارہوگا، تاہم عام قاری کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ آسان فہم کی حامل کتاب ہے ۔
کتاب کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ ہر جگہ حوالہ جات بھرپورانداز میں دیے گئے ہیں، عموماً اس قسم کے موضوعات پر لکھنے والے افراد حوالہ جات دینے سے گریز کرتے ہیں یا اپنی بات کو حرف ِ آخر سمجھتے ہوئے حوالے کو ضروری نہیں سمجھتے۔
کتاب کے پیش لفظ میں جیسا کہ مصنف نے اعلان کیا تھا کہ وہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں ، اس بات سے وہ یقیناً انصاف نہیں کرپائے اور کئی مقامات پر تقابلی جائزہ پیش کرنے کے بعد ان کا لہجے میں قطعیت آجاتی ہے یعنی کہ اگر وہ اپنے پیش کردہ دلائل سے مطمئن ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ان کا قاری بھی ان دلائل سے صد فی صد متفق ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کتاب معاشرے میں زہر بن کر گھل جانے والی ضعیف الاعتقادی کے خلاف دلیل پر مبنی ایک عقلی بند باندھنے کی کوشش کرتی ہے ‘ اب مصنف اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئے ا س کا فیصلہ تو قارئین نے کرنا ہے۔
مصنف کا تعارف
محمد شہریار کا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر لکھتے ہیں جبکہ غیر فطری عوامل کی الجھی ہوئی گھتیوں کو سلجھانے کے لیے متعدد آرٹیکل اور مضامین مختلف فورمز کے لیے تحریر کرچکے ہیں۔
انہوں نے معاشرے کی رگوں میں میں سرایت کرجانے ضعیف العتقادی کے خلاف جنگ شروع کررکھی ہے جس کا ثبوت ان کی ہاں میں جادوگرہوں‘ بہم فراہم کرتی ہے کتاب ، ہاں میں جادوگر ہوں ۔