انسان کےچاند پراترنےکےحتمی دلائل

انسان کےچاند پراترنےکےحتمی دلائل ۔ کچھ عرصہ قبل  انسان کی  چاند پر لینڈنگ کی 51 ویں سالگرہ سے لے کر اب تک پھر وہی روایتی بحث جاری ہے ۔

محمد شاہ زیب صدیقی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی ، جغرافیہ  اور ارضیات کے موضوع پر لکھتے ہیں ۔ آپ کے کئی مضامین مختلف فورمز پر شائع ہوچکے ہیں ۔

کچھ حضرات کی جانب سے بےبنیاد پراپیگنڈا ہمیشہ سے جاری رہا ہے ۔ یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے  کہ چاند پر لینڈنگ دراصل ڈرامہ تھی۔

یہ بات یہاں  بیان  کرنا انتہائی ضروری ہے کہ جنہوں نے حقائق کو تسلیم نہیں کرنا ہوتا تو انہیں جو مرضی ثبوت فراہم کردئیے جائیں ،وہ چڑھتے سورج کا بھی انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لہٰذا ان اعتراضات کے جوابات کسی علم دشمن طبقے کو نہیں دئیے جارہے بلکہ ان اعتراضات کے جوابات اس لئے دئیے جارہے ہیں کہ عوام الناس ایسے جعل سازوں اور علم دشمن حضرات کی اصلیت جان سکیں۔

قارئین کو سوال جواب کی صورت میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔

سوال نمبر ایک

بیس جولائی 1969ء کو انسان چاند پر گیا تھا ۔۔ اب اتنی زیادہ ٹیکنولوجی بڑھ گئی ہے۔ امریکہ خود یا کوئی دوسرے دوبارہ جدید کیمروں اور جدید آلات کے ساتھ آج کے دور میں دوبارہ کیوں نہیں گئے ۔

یعنی اس وقت امریکہ کے ڈرامے کے بعد جب  روس اور چین  نے بھی مخالفت میں باری باری ڈرامے کئے ۔۔تو یہ تینوں اپنے ڈراموں کے بعد آج کے دور میں دوسرا ڈرامہ کیوں نہ بنا سکے ؟


جواب: یہ سچ ہے کہ آج سے 60 سال قبل امریکا اور روس کے مابین سرد جنگ چل رہی تھی،مگر یہ دعویٰ کرنا کہ سرد جنگ کی وجہ سے یہ سب “ڈرامہ “تھا،یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔

جیسے ہم دین کے لئے علماء کرام سے اور بیماری کے لئے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور ان کی رائے کو معتبر مانتے ہیں۔

بالکل ایسے ہی سائنسی معاملات میں فلکیات دانوں اور سائنسی اداروں کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دُنیا کی تمام فلکیاتی اور سائنسی تحقیقاتی ایجنسیز مون لینڈنگ کو تسلیم کرچکی ہیں.

چاند پر لگائے گئے ریفلیکٹر آج بھی وہاں موجود ہیں

ان کے ناقابل تردید شواہد انسان کے پاس موجود ہیں،جن میں سب سے اہم ثبوت وہ ریفلیکٹرز ہیں جو خلاء باز چاند کی سطح پر فٹ کرکے آئے۔۔ آج بھی بڑی فلکیاتی آبزرویٹریز ان پر طاقتور لیزر پھینک کر چاند کا زمین سے فاصلہ ناپتی رہتی ہیں!۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ آج کے دور میں انسان چاند پر کیوں نہیں گیا؟ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاند پر جانا سیر سپاٹے کی طرح نہیں تھا، یہ انتہائی مہنگا مشن تھا۔۔ یکے بعد دیگرے چاند پر 6 انسانی مشنز بھیجنے کی وجہ سے امریکی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔

چاند کے مشن کی وجہ سے امریکی معیشت کو قدرے نقصان پہنچا۔

اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ موجودہ دور میں اگر مون لینڈنگ مشنز سرانجام دئیے جائیں تو اس پر 150 ار ب ڈالر خرچ آئے گا۔

پاکستان صرف 4 ارب ڈالرز کے لئے آئی ایم ایف کے پاس بار بار جارہا ہے اور یہ چار ارب ڈالرز بھی ہمیں چار سال کے عرصے میں قسط وار مل رہے ہیں ۔۔

ہم چاند پر دوبارہ کیوں نہیں گئے؟

مون لینڈنگ انتہائی مہنگا مشن تھا۔ جس کے نتیجے میں ہمیں صرف چاند کے پتھر ہی مل رہے تھے۔ لہٰذا ناسا کا بجٹ محدود کردیا گیا اور امریکی حکومت اور عوام الناس کی جانب سے دباؤ بڑھنے کی وجہ سے دوبارہ انسانوں کو بھیجنے کی بجائے ربورٹک مشنز کو بھیج کر تحقیقاتی کام انجام دئیے گئے۔

ربورٹک مشن انسانی مشن کی نسبت بے حد سستے ہوتے ہیں۔ ربورٹک مشن کتنے سستے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ ایک سال قبل بھارت نے چاند کی جانب ربورٹک مشن محض 0.1 ارب ڈالر میں بھیجا تھا۔ لہٰذا یہ اعتراض بےمعنی ہے کہ ابھی چونکہ ہم چاند پر دوبارہ نہیں جارہے لہٰذا ماضی میں بھی نہیں گئے۔

لیکن ناقدین کے لئے بری خبر ہے کہ مریخ پر آبادکاری کی وجہ سے اگلے کچھ سالوں میں انسان دوبارہ چاند پر جائے گا ۔

اب کی بار وہاں بیس کیمپس بنائے گا۔ جس وجہ سے امید ہے کہ ان کا یہ شکوہ بھی ختم ہوجائے گا۔

سوال نمبر2


کیوں چاند پر صرف امریکہ اور اس کے مخالفین ہی آپس کی دشمنی کی وجہ سے ڈراموں
کا مقابلے کرتے رہے تھے؟

کیوں امریکہ حمایتی ملکوں میں سے کسی ایک کی بھی ہمت نہ ہوسکی چاند پر قدم رکھ کر امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ؟


جواب: ہم سوال نمبر 1 میں سمجھ چکے ہیں کہ یہ مشنز کتنے مہنگے تھے۔چھوٹے ممالک بجٹ کی کمی کے باعث ان معاملات میں نہیں پڑے، لیکن چونکہ چاند پر ربورٹک مشن بھیجنا سستا کام ہے۔جس وجہ سے چھوٹے ممالک نے ربورٹک مشنز بھیج رکھے ہیں۔

سوال نمبر3


جب چاند گاڑی چاند پر پہنچی تو چاند پر پہچنے کے بعد ایک عجیب قسم کی کار میں چاند کی زمین پر گھومے پھرے ۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بڑی چاند کار چاند گاڑی سے برآمد کیسے ہوئی ؟ یعنی چھوٹی سی چاند گاڑی کے پیٹ میں اتنی گنجائش کہاں سے آئی اس کو اپنے اندر گھسانے کی ؟

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چاند کار کو چاند گاڑی سے برآمد ہونے کی ویڈو کیوں نہیں بنائی گئی ؟ کیونکہ یہ بھی ایک بھی ایک بہت بڑا کمال اور معجزہ تھا ۔

ایک چھوٹی سی چاند گاڑی سے بڑی سی چاند کار کی برآمدگی بھی دنیا کو حیران کرنے کے لیے کافی تھی ۔کیوں یہ والا ڈرامہ دکھلا کر مزید داد وصول کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ؟

پھر اس کے بعد ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ یہ چاند گاڑی کس لفٹ کی مدد سے اتاری گئی اور دوبارہ کس لفٹ کی مدد سے چڑھائی گئی ؟ اور آخر میں ایک اور سوال کیا چاند گاڑی چاند پر ہی چھوڑ آئے یا ساتھ واپس بھی لائے ؟؟

اگر ساتھ واپس بھی لائے تو اس واپسی کا لفٹ کے ذریعے اوپر چڑھنے کا ڈرامہ ہمیں کیوں نہیں دکھلایا گیا ؟


جواب: یہ سچ ہےکہ چاند پر بھیجے جانے والے 6 میں سے تین انسانی مشنز کے دوران چاند گاڑی کو بھی انسانوں کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔

یہ گاڑی فولڈ ہوسکتی تھی۔

لوئر ماڈیول کا وزن کم رکھنے کے لئے چاند گاڑیوں کو وہیں چھوڑ دیا گیا،۔فوٹو کریڈٹ :ناسا

لونر ماڈیول کا وزن کم رکھنے کےلئےاِن چاند گاڑیوں کو وہیں چھوڑ دیا گیا۔۔واپس نہیں لایا گیا۔

یہ دعویٰ بھی کم علمی پر مبنی ہے کہ کسی ویڈیو میں اِس چاند گاڑی سے اتارتے نہیں دکھایا گیا۔ یہ ویڈیو آپ اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں ۔:
https://www.youtube.com/watch?v=rHF5EcdLxQo&app=desktop

سوال نمبر 4


کہا جاتا ہے کہ نیل آرم سٹرونگ نے چاند پر سب سے پہلے قدم رکھا ۔۔ تو جناب وہ کون کون سے فوٹوگرافر پہلے ہی چاند پر اتر چکے تھے ۔
۔جو چاند گاڑی کو اترتے ہوئے اور خود نیل آرمسٹروم کو اترتے ہوئے ان کی مووی بنا رہے تھے؟؟

ایک نہایت چھوٹی سی چاند گاڑی بغیر اندھن کے صرف اسپرنگ کی مدد سے دوبارہ کیسے چاند پر سے اُڑ کر دنیا تک آ گئی ؟؟

چاند پر سے واپسی پر دوبارہ جب وہ اڑکر واپس آرہی تھی۔۔ تب چاند پر بیٹھ کر کون کون سے فوٹوگرافر چاند گاڑی کی تصویر بنا رہے تھے ؟؟

پھر وہ فوٹو گرفر کون سی چاند گاڑی سے واپس آئے ؟؟واپس آئے بھی یا وہیں رہ گئے ؟؟

فوٹوگرافر کہاں سے آیا؟

جواب: سوالات کے جوابات جاننے کےلئے سنجیدگی درکار ہوتی ہے۔ بہرحال فلیٹ ارتھرز سے سنجیدگی کی توقع رکھنا بےکار ہے۔

جس وجہ سے اٹھائے گئے مختلف اعتراضات کے جوابات مندرجہ ذیل ہے۔


نیل آرمسٹرانگ نے لُونر ماڈیول سے نکلنے سے پہلے بٹن دبا کر ایک کیمرہ باہر نکالا۔

اس کے بعد لونر ماڈیول کا دروازہ کھول کر سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترے۔ لہٰذا وہاں کوئی فوٹو گرافر پہلے سے موجود نہیں تھا۔۔


ایک انتہائی چھوٹی سی خلائی گاڑی تھرسٹرز کی مدد سے چاند سے واپسی کے لئے اڑی۔ تھرسٹرز انتہائی چھوٹے راکٹ ہوتے ہیں۔جن کا استعمال عموماً سیٹلائیٹس کی سمت دُرست کرنے کےلئے بھی خلاء میں کیا جاتا ہے ۔ یہ ہر لونر ماڈیول میں موجود تھے۔

زمین کی شدید کشش ثقل کے باعث ہمیں زمین سے اڑنے کےلئے لانچنگ پیڈ چاہیے ہوتا ہے۔۔ مگر چاند کی کشش ثقل کم ہے۔

وہاں ہوا بھی موجود نہیں جو رگڑ پیدا کرے جس کی وجہ سے تھرسٹرز کی مدد سے وہاں سے اُڑنا ممکن ہے۔


جس دوران لُونر ماڈیول چاند کی سطح سے اُڑا اُس دوران اس کو واقعی فلمایا جارہا تھا۔۔ اور یہ سچ ہے۔ مگر وہ کیمرہ کسی انسانوں کے ہاتھ میں نہیں تھابلکہ چاند کی سطح پر پڑا ہوا تھا ۔ زمین سے کنٹرول کیا جارہا تھا، وہ کیمرہ آج بھی چاند کی سطح پر موجود ہے۔

سوال نمبر 5


نیل آرم سٹرونگ صاحب کا ۲۵ اگست ۲۰۱۲ کو
انتقال ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے نیل آرم سٹرونگ صاحب کو ساری دنیا سے اور اپنے ملک کے میڈیا سے بھی کیوں چھپا کر رکھا؟؟


جواب: نیل آرمسٹرانگ کو دنیاسے ہرگز چھُپا کر نہیں رکھا گیا۔ نیل آرمسٹرانگ سمیت دیگر 12 انسان جنہوں نے چاند پر قدم رکھا ہے۔ ان کے انٹرویوز پوری دنیا کا میڈیا لیتا رہا ہے.

سوال نمبر6


چاند پر کئی تصاویر ایسی لی گئیں جن کے دو دو سائے تھے ۔کیا چاند پر دو سورج نکلتے ہیں؟؟ یا دو طرف سے سٹوڈیو لائیٹیں ڈلیں گئیں تھیں ؟


جواب: مون لینڈنگ کی جتنی بھی تصاویر مستند ذرائع پر موجود ہیں سب پر ایک ہی سایہ بنتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسی کوئی تصویر موجود ہے جس میں دو سائے ہو تو لازمی شئیر کیجیے۔

اگر سٹوڈیو کی لائٹس سے بھی دو سائے بنیں تو پھر انہیں اتنا شارپ نہیں ہونا چاہیے بلکہ دونوں سائے مدھم ہونے چاہیے۔

سوال نمبر7


چاند پر امریکہ نے جھنڈا گاڑا ۔۔ جو جھنڈا گاڑا گیا وہ لہرا رہا تھا.چاند پر ہوا کہاں سے آئی ؟؟ جبکہ خلا میں ہوا نہیں چلتی ؟


جواب: جھنڈا ہرگز لہرا نہیں رہا تھا بلکہ جھنڈا سرنگوں نہ ہو۔ اس جھنڈے کو سیدھا رکھنے کےلئے اس میں perpendicular سمت میں ایک اور ڈنڈا لگایا گیا تھا،

جس وجہ سے جھنڈا سیدھا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جھنڈا کپڑے کا نہیں بلکہ نائلون کا بنا ہوا تھا ۔جس وجہ سے اس کو تہہ کرنے کی وجہ سے سِلوٹیں آگئی تھیں جسے لہرانے سے تشبیہ دی جارہی ہے

سوال نمبر 8


چونکہ ناسا دنیا کے سوتھ پول کے بارے میں بہت سارے سوالات کے جواب نہیں دے پا رہا تھا ۔ خاص طور پر موسم کے بدلنے کے نظام کو تو اس نے سب کو بتایا کہ زمیں گول نہیں بلکی بیضوی ہے انڈے کی مانند ۔۔۔لیکن حیرت ہے تمام فرضی تصاویر گول ہی پیش کرنا شروع کر دی گئی ہیں ۔۔

بقول ناسا کے کشش زمین صرف 100کلو میڑ کے بعد سے ختم ہو جاتی ہے اور خلا شروع ہوجاتی ہے ۔۔

اگر زمین ایک طرف سے سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔ وہ بھی ایک طرف سے ہزار میل اور ساتھ ساتھ دوسری طرف سے 67000میل فی گھنٹے کی رفتار سے ۔۔ تو ایک سیدھا چلتا ہوا راکٹ کیسے اتنا بڑا جھٹکا کیسے سہہ سکتا ہے ؟؟

یعنی 67000میل گھنٹے پر گھومتی ہوئی زمین کے مدار سے باہر نکلنا۔ بلکل ایسے جیسے کسی کو انتہائی تیز چلتی ہوئی کار سے باہر پھینکا جائے تو کیا وہ بڑے ہی آرام سے آگے چلتا رہے گا ؟


جواب: گاڑی کی مثال کو زمین کی مثال سے جوڑنا اس خاطر غلط ہوگا کیونکہ گاڑی کی کشش ثقل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ خلاء اچانک سے نہیں شروع ہوجاتی بلکہ آہستہ آہستہ ہوا کا دباؤ کم ہونا شروع ہوتا ہے۔

راکٹ بدستور زمین کے چکر کاٹتا رہتا ہے اور آہستہ آہستہ زمین سے دور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔چونکہ کسی بھی شے پر زمین کی کشش ثقل 13 لاکھ کلومیٹر اونچائی تک حاوی رہتی ہے۔اس دوران زمین کشش ثقل کی وجہ سے راکٹ کو بھی اپنے ساتھ لے کر سورج کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے۔ لہٰذا راکٹ کو جھٹکا لگنے والی باتیں محض کم عقلی اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔

سوال نمبر 9


بیس جولائی1969ء کو چاند پر جانے کی کہانی کی وجہ سے امریکہ سپر پاور بنا ۔امریکہ یا پوری دنیا کیوں ہر سال بیس 20 جولائی کو چاند ڈے کیوں نہیں مناتی ؟


جواب: امریکہ میں ہر سال 20 جولائی کو نیشنل مُون ڈے منایا جاتا ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اعتراض کرنے والے اعتراض اٹھانے سے پہلے کم از کم گوگل کا ہی استعمال سیکھ لیں۔

سوال نمبر 10


چاند خود بھی اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے ۔بقول ناسا کے اس کی اسپیڈ ۳۶۸۳ کلو میٹر فی گھنٹی ہے ۔ چاند اسی دوران ۱۲۹۰۰۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے ۔ ایک راکٹ کس طرح انتہائی تیز گھومتے ہوئے چاند کے اوربٹ(مدار)میں داخل ہوسکتا ہے؟؟اس راکٹ نے فضا سے چاند کے اوربٹ میں داخل ہونے کا جھٹکا کیسے برداشت کیا ؟

یہ بھی پڑھیئے:کائنات کے پراسرار راز
جواب: یہ سچ ہے کہ چاند زمین کے مدار میں گردش کررہا ہے۔ فلکیات میں ہل سپیئر نامی ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔۔

جب کوئی شے چاند کی جانب سفر کرتے ہوئے چاند سے 60 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچتی ہے۔۔ تو اُس کو چاند آہستہ آہستہ اپنی جانب کھینچنا شروع کردیتا ہے۔ اس علاقے کے بعد چاند کی کشش ثقل زیادہ ہوتی جاتی ہے۔

لہٰذا کوئی راکٹ ایک دم جھٹکے سے چاند کے مدار میں نہیں چلا جاتا۔۔ بلکہ زمین کی کشش ثقل بتدریج کم ہوتی جاتی ہے ۔ چاند کی کشش ثقل بڑھنا شروع ہوجاتی ہے جس وجہ سے مرحلہ وار یہ سب ہوتا ہے۔ کائنات کے قوانین ایک طریقے سے چل رہے ہیں، انہیں گاڑی کے جھٹکے سے تشبیہ دینا احمقانہ بات ہے۔

One thought on “انسان کےچاند پراترنےکےحتمی دلائل

Comments are closed.