اگر آپ مسلمانوں کی پوری چودہ سو سالہ تاریخ کا جائزہ لیں گے تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہ اور ہر دور کے علماء نے اپنے وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے اسلام کے کسی ایک جزو کو یا اسلام کو درپیش کسی ایک مخصوص چیلنج کو ترجیحات، جدو جہد اور تحریر کا محور بنایا ہے۔
ابتدا ہوتی ہے امیر کے انتخاب سے اور پھر زکات کے خلاف مہم، جہاد کی ترغیب، حکومتی نظم و نسق، ترتیبِ قرآن، تدوینِ حدیث، استنباطِ مسائل یعنی فقہ، فلسفیانہ علوم کی عربی زبان میں منتقلی، علم کلام و منطق، فلسفہ و تصوف کی تطہیر، رد فلاسفہ، صحیح غلط احادیث کے درمیان تمیز و تدوین، رجال کی کانٹ چھانٹ، بدعات کی مخالفت، رد فرق باطلہ، رد ادیان باطلہ، اسلامی کلچر اور اس کی اجتماعیت، اسلامی احکام کی عقلی و حسی مصلحتیں، باطل پاورز کے خلاف فکری، سیاسی اور عسکری مزاحمت، مدارس و یونیورسٹیوں کا قیام، انٹرنیشنل انقلاب و تعلقات باہمی کا تصور، غیر مسلموں میں دین کی دعوت، مسلمانوں میں تبلیغ، نصاب کی تبدیلیاں، اسلامی بینکاری، رد الحاد، اور بچے کھچے اسلامی احکام اور لٹے پٹے مسلمانوں کے محدود حقوق کے تحفظ و بقا کی جد و جہد پر ختم ہوتی ہے۔ احصاء کا دعویٰ تو نہیں پر اکثر ترجیحات کا ذکر کردیا گیا ہے اس پیراگراف میں۔
(اسلامی تاریخ کے ادوار سے واقفیت رکھنے والے حضرات اس پیراگراف سے مکمل طور پر محظوظ ہوسکتے ہیں)
پر آج کا دور پہلے کے ادوار سے دو طرح سے ممتاز ہے
(1) مسلمانوں کے اندر آج سے زیادہ فکری کجی اور بدعملی کبھی نہیں پیدا ہوئی اور علماء کے سامنے ایک ساتھ اتنے سارے چیلنجز کبھی پیش نہیں آئے
(2) نبی کے وارث علماء اس بدعملی کو دور کرنے اور چیلنجز کی تعیین و ترجیح اور ازالے کے سلسلے میں آج سے پہلے کبھی بھی اتنے نا اہل ثابت نہیں ہوئے جتنے آج ہورہے ہیں
اس نا اہلی کی وجوہات کیا ہیں؟
کسی بھی ناکامی کے پیچھے ایک نہیں کئی ساری وجوہات کارفرما ہوتی ہیں کچھ اختیاری ہوتی ہیں اور کچھ اضطراری:
1 معاشی ابتری
علوم اسلامیہ کی درس و تدریس اب تک بادشاہوں کے زیر کفالت چلی آرہی تھی تو علماء معاشی مسائل سے عموماً اپنے استغناء یا کفالت کی بناپر دو چار نہیں ہوا کرتے تھے لیکن جب مسلم بادشاہت کا دور لدگیا تو ان کے سامنے زندگی کا سب بڑا مسئلہ یعنی پیٹ کا مسئلہ تھا جو انہیں اژدہے کی مانند نگلنے کو تیار بیٹھا تھا، اور بھوکے پیٹ یا اپنے گھر والوں کو پریشانی اور مفلسی کے عالم میں دیکھ کر آدمی اپنے رب کی عبادت ٹھیک سے نہیں کرسکتا قوم کے مسائل پر کیا خاک سوچے گا
2 علوم کی تقسیم در تقسیم کا فقدان اور متخصصین کی قلت
در اصل ہوا یوں کہ شروع میں اسلامی علوم و فنون محدود تھے، تو اس وقت کے علماء شروع میں بہت ہی قلیل عرصے میں تمام فنون کی ضروریات پڑھ کے پھر اپنی ساری عمر کسی ایک فن کے ساتھ اختصاص کرکے اسی کی درس و تدریس میں لگ جاتے تھے، چونکہ علم کی فطرت ہے پھیلاؤ جیسے جیسے ہزاروں لوگوں کا عبقری دماغ کسی فن میں چلتا رہتا ہے تو اس کی جزئیات بڑھتی جاتی ہیں اس لئے علوم کو اجزاء میں بانٹنا پڑتا ہے کیٹگرائز کرنا پڑتا ہے، تاکہ یہ پھیلے ہوئے علوم مرتب انداز میں سمٹ جائیں، پھر ان تقسیم شدہ علوم کے کیٹیگری وائز مختلف نام دے دئیے جاتے ہیں، پہلے لوگ اس قسم کے تخصصات ذاتی دلچسپیوں کی بنا پر مختلف اساتذہ کے پاس جاکر کیا کرتے تھے، اور پھر ذاتی طور اپنی درس گاہ اور مدرسہ بناکر پڑھاتے تھے، پھر اس شوق میں زیادتی اور علوم کی کیٹیگریز میں اضافے کی بنیاد پر افراد کی جگہ جامعات اور یونیورسٹیوں نے لے لی، پھر ایک طرف تو لوگوں کی علوم و فنون میں ذاتی دلچسپیاں ختم ہونے لگیں اور دوسری طرف علوم میں بے حد وسعتیں پیدا ہوتی گئیں اور جتنی کیٹیگریز بننی چاہئے تھیں اتنی بن نہیں سکیں
تیسری جانب ابتدائی علوم کی تحصیل میں ہی عمر کا ایک بڑا حصہ صرف کیا جانے لگا
نتیجہ یہ نکلا کہ علوم و فنون کے ماہرین دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہوگئے
اگر اس کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ علوم دینیہ کی ایک فہرست بنائیے اور پھر سروے کرلیجئے کہ کتنے علماء ہر فن کے متخصص نظر آتے ہیں
اسی طرح ایک مفتی کے پاس جو سوالات آتے ہیں وہ سینکڑوں شعبہائے زندگی سے متعلق ہوتے ہیں مگر تین چار مفتی بیٹھے ہر شعبہء زندگی سے متعلق فتوے دے رہے ہوتے ہیں، کیا آج کل کے غیر متخصص عالم و مفتی اتنے مشاق اور جامع الکمالات اور حالات سے اتنے باخبر ہوگئے ہیں کہ ہر شعبہء زندگی کے متعلق ان کی رائے لی جاسکے؟ اس کا اندازہ آپ خود ان کے مبہم اور غیر تسلی بخش جوابوں سے لگاسکتے ہیں
3 دینی و عصری علوم میں اضطراری تقسیم
پہلے علوم میں دینی و عصری تعلیم کی تقسیم نہ تھی تو دینی علوم کا واقف عصری علوم سے بھی آشنا ہوتا تھا اور عصری علوم کا جانکار دینی علوم سے بھی بہرہ ور ہوتا تھا لیکن انگریزوں نے تعلیمی نظام ایسا بنایا کہ اس میں سے اسلامی علوم کو نکال باہر پھینک دیا، پھر چند علماء نے اس پھینکے ہوئے کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیا، اور یوں انگریزوں کی مرہون منت یا نحوست کی بدولت علوم کی دینی و عصری تقسیم شروع ہوگئی
4 عوام کی نگاہ میں معزز، قابل قبول اور اثر انداز بننے کے وسائل اختیار نہ کرپانا
سماج اور سوسائٹی میں ضم ہونے کے لیے، ان سے اپنی باتیں منوانے کے لیے اور ان کی قیادت کے لیے پچھلے دو تین صدیوں میں ایسا ماحول اور ٹرینڈ بنا کہ علماء سے عوام کا تعلق پہلے کی طرح مستحکم نہیں رہ پایا اب ان کی نگاہ میں ہماری ذات اور ہماری باتوں کی قدر و قیمت بٹھانے اور اثر انداز ہونے کے لیے محض مذہبی تعلیم کا ہونا کافی نہ رہا تھا اب ہمیں عصری علوم سے بھی مالامال ہونا چاہئے تھا لیکن اس کا ادراک ہم نہ کرسکے، لہذا معاشرے کے بااثر افراد کا مقام حاصل نہ کرسکے اور ان میں ضم ہوکر ان کے مسائل کا قریب سے مشاہدہ و مطالعہ نہ کرسکے اور اپنے آپ کو مساجد و مدارس میں محصور کرکے محض فضائل مسائل اور وعیدوں جیسے موضوعات تک خود کو محدود کرلیا
جناح جیسے لوگوں کو مسلمانوں کے جانب سے لیڈر تسلیم کیا جانا ایک اشارہ و نقارہ تھا کہ ٹرینڈ اب تبدیل ہوچکا ہے
اور جنہوں نے مذہبی تعلیم کے بعد عصری تعلیم حاصل بھی کی ان کی اکثریت معاشرے کو کیا بدلتی وہ خود اسی معاشرے میں ڈھل گئی جسے انہیں تبدیل کرنا تھا اور انہوں نے عام آدمیوں کی صف میں خود کو شامل کرلیا۔
5 اپنی شخصیت کی تعمیر سے پہلے قوم کی فکر میں سارا وقت صرف کرنا
مدرسے کے ہر فارغ کے ساتھ عالم کا ٹیگ لگاکر اسے یہ باور کرایا گیا کہ وہ نبی کا وارث ہے اور پھر اسے عالمی شخصیت بننے کی دعوت دی گئی مگر خود کی فکر اور معاشرے و قوم کی فکر کی ترتیب اس کے ذہن نشیں نہیں کرائی گئی کہ انسان پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ایک لمبے عرصے تک، تب کہیں جاکر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ کسی اور شخصیت کی اور قوم کی تعمیر کرسکے
نتیجۃً وہ اپنے آپ کو علمی و فکری طور پر نکھارے بنا اپنی اصلاح کی تکمیل کئے بنا پورے قوم کی فکر کرنے لگا، اور بس وہ فکر کرتا ہی رہ گیا کچھ کر نہیں سکا کیوں کہ اس نے خود کو اس لائق بنایا ہی نہیں کہ قوم اس کی باتوں کو قبول کرے اور آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پھل کو پکنے سے پہلے اگر مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے تو کتنے لوگ خریدار بنیں گے
6 اپنی جولاں گاہ ِ عمل کی مکمل واقفیت نہ رکھ پانا، ایک جامع ڈاٹا کی کمی
وقت کے ساتھ ساتھ مسلم پاپولیشن بڑھتی گئی لیکن علماء کے پاس کوئی ایسا جامع ڈاٹا نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اس آبادی کی تعیین کرکے ان کے مسائل و حالات کی تشخیص کرسکیں، تھوڑا بہت جو ڈاٹا دستیاب بھی ہے اولاً دوسروں کا دیا ہوا ہے جو ناقابل اعتبار ہے ثانیاً وہ ڈاٹا ناقص بھی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ ہم بہت ہی عمدہ محل تعمیر کرنا چاہ رہے ہیں مگر ہمیں یہ ہی پتہ نہیں کہ زمین کتنی اور کس قسم کی ہے
کوئی ایک صحابی بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غائب ہوتا تھا تو انہیں پتہ چل جاتا تھا اور پھر ان کی خیریت دریافت کرتے تھے، اگر اس چیز کو وسیع تناظر میں دیکھیں تو ایک سرگرمِ عمل عالم کے لیے فرض عین اور ابدی اصول کی حیثیت رکھتا ہے اس بات کو جاننا کہ اس کا ٹارگٹ کون ہے اس کی کیا خوبیاں اور کیا خامیاں ہیں
اخرجت للناس والی جماعت کو ناس کا ہی پتہ نہیں ہے پھر کیسے وہ نفعِ ناس کا فریضہ انجام دے گی؟
7 اپنے رفتار فکر و عمل کو زمانے کی رفتار کے مطابق اور برابر نہ رکھ پانا
زمانہ دس سال میں سو سال کی رفتار سے بڑھ رہا ہے، پہلے انسان کی ذہنیت کی تعمیر والدین اور استاذ اور دوست احباب کیا کرتے تھے مگر اب سب کی جگہ موبائل و انٹرنیٹ نے لے لی ہے جو کہ ایک طرف سیکھنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف سمِ قاتل بھی ہے، لیکن علماء کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے، تو انہیں پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کون کس طرح اپنی شخصیت و ذہنیت کی تعمیر کررہا ہے، ہم اپنی مسجدوں اور مدرسوں میں خدمتیں انجام دے کر اس سوچ میں مگن ہیں کہ الحمدللہ ہم ملت کی خدمت کررہے ہیں اور اللہ ہم سے دین کی خدمت لے رہا ہے حالانکہ نہ ہمیں زمانے کے پیش آمدہ مسائل سے واقفیت، نہ زمانے کی تیزی کا علم اور نہ عوامل کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے
8 سسٹم کے قیام اور میتھڈ کی تجدید میں عدم دلچسپی
ایک تو ہم میں سے قابل افراد گنے چنے بچے تھے پھر ان گنے چنے افراد نے بھی افرادسازی پر دھیان تو دیا پرسسٹم بنانے پر دھیان نہیں دیا، وہی مدرسہ وہی نصاب، آپ کیسے پھر الگ قسم کے عالم کی امید کرسکتے ہیں جو جدید چیلنجز مثلاً الحاد کا مقابلہ کرسکے، اسلام مخالف معاشی، تعلیمی و سیاسی نظریات و عملی سازشوں کا مقابلہ کرسکے، اپنی ذاتی دلچسپی کی بنا پر تو آدمی کچھ الگ کارنامہ انجام دے سکتا ہے پر اس کا کریڈٹ سسٹم کو نہیں دیا جاسکتا، عموماً یورپ کا کوئی قابل پروفیسر جب کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرلیتا ہے تو وہ اپنی محنت اور اپنی جد و جہد کو چند اصول بناکر ایک سسٹم میں منتقل کردیتا ہے جس کے ذریعے ایک تو دوسروں کو اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی جتنی اس نے کررکھی ہے دوسرے اس تیار کئے ہوئے سسٹم سے صرف چند گنے چنے افراد نہیں لاکھوں کروڑوں افراد تیار کئے جاسکتے ہیں، ماہر لسانیات نوم چومسکی کا تیار کردہ جینیریٹو گرامر (1950ء کی دہائی میں چومسکی نے یہ انقلابی نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے) کا سسٹم اس کی ایک واضح مثال ہے، اس کے برخلاف ہمارے یہاں وہی پرانے انداز میں تدریس ہورہی ہوتی ہے اگر کوئی کچھ نیا کرتا بھی ہے تو بس اس کی شہرت تو ہوجاتی ہے کہ وہ اتنا اچھا پڑھاتا ہے مگر وہ ایسا سسٹم اور میتھڈ تیار نہیں کرپاتا کہ اس کی طرح کے پڑھانے والے ہزاروں لوگ بن سکیں، اسی طرح جب ہمارے مصنفین علماء کی تصنیفات کا جائزہ لینے بیٹھیں گے تو اسی فیصد تصنیفات ایسی ہی ملیں گی جس میں محض نقالی کی گئی ہے اور ادھر ادھر سے کانٹ چھانٹ کر کتاب لکھ ماری گئی ہے
ہمیں پڑھایا تو جاتا ہے کہ پڑھنا کیا ہے مگر پڑھنا کیسے ہے، لوگوں کو کیسے پڑھنا ہے اور بھانت بھانت کے دماغوں کے ساتھ کیسے پیش آنا اور کیسے متاثر کن بننا ہے پھر مختلف قسم کی کتابوں کو کیسے پڑھنا ہے، ایسے میتھڈ اور طریقوں کی تعلیم ندارد ہے
ہے نا کتنا اچھا سسٹم کہ بنا کوئی ریسرچ پیپر تیار کئے ہوئے ہمیں عالمیت کی ڈگری اور تخصصات کے سرٹیفکیٹس سے نواز دیا جاتا ہے
9 تھنک ٹینک کا تصور قصۂ پارینہ بن گیا
کل ملاکر صحیح معنوں میں قوم کے لئے سوچنے والے بچے ہی نہیں، پھر اجتماعی طور پر بھی ہم علماء میں سوچنے کا مزاج ختم ہوتا چلاگیا، تھنک ٹینک کا تصور ایک قصۂ پارینہ بن گیا، ہر معاشرے کے ظاہری ثقافت و اعمال اور باطنی خیال و فکر کے پیچھے چند اعلیٰ دماغوں کی کارفرمائی ہوتی ہے، جب وہ دماغ کام کرنا بند کردیتے ہیں تو پھر وہ قوم تنکوں کی مانند حالات کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پر ادھر سے ادھر بہ رہی ہوتی ہے، آج کے قوم مسلم کی اگزیکٹلی یہی صورت حال ہے کہ ان کے دماغ کی حیثیت رکھنے والے علماء کے پاس خود ایک فعال دماغ باقی نہیں رہا ہے، اس کا اندازہ آپ ان کے شب و روز کی مصروفیات اور ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر لگاسکتے ہیں
10 وسائل کی کمی
جو چند ایک سوچنے والے بچے ہیں ان کے پاس کافی وسائل ہیں نہیں، اور نہ ہی کوئی حکومت و ریاست اس طرح کی کسی جامع کوشش کو اسپانسر کرنے والی ہے، اب ایک ہی آپشن بچا وہ ہے مسلم عوام سے مدد اور کسی لمبے اور بڑے پروجیکٹ پر کام کرنے لئے عوام کو تیار کرنا بڑا مشکل کام ہے کل ملاکر وسائل کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا علماء کے لیے اور جس کی بنا پر ہماری سوچیں بھی محدود ہوتی چلی جارہی ہیں کہ ہم سوچیں بھی تو کیا فائدہ ہوگا جب ہمارے پاس ان آئیڈیاز کو ایکچولائز کرنے اور زمینی سطح پر کام کرنے کے وسائل ہی نہیں ہیں۔
خواب دیکھے کون اور خوابوں کو دے تعبیر کون
ابھی بندہ نے ہماری نا اہلی کی صرف دس وجوہات ذکر کی ہیں جن میں سے بعض ایسی ہیں جن کے براہ راست ذمہ دار ہم خود ہیں اور بعض وجوہات زمانہ کی ناسازی کے نتائج ہیں، اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں، جنہیں وقتاً فوقتاً تجزیہ کرکے پیش کیا جاتا رہے گا ان شاءاللہ
خیر یہ وجوہات تنقید کے واسطے نہیں بیان کی گئی ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں صرف تواضعاً نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت اپنی نا اہلی کا احساس ہو کیوں کہ جب احساس مرجاتا ہے تو پھر ایک بے حس کے لیے نہ کوئی فرض منصبی بچتا ہے اور نہ کوئی احساسِ زیاں
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جب ہمیں اپنے زخموں کا علم ہوگا تبھی ہم ان پر مرہم رکھ سکیں گے، اور چند زخموں پر مرہم رکھ کے بھی کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ خون بقیہ زخموں سے رستا رہے گا اس لیے ہر زخم کی چن چن کر شناخت کرنی ہوگی اور مرہم پٹی کرنی ہوگی
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کام نہیں کررہے ہیں کررہے ہیں مگر وہ کافی و شافی نہیں ہے، ابھی بہت سے مراحل طے کرنے ہیں، اپنی شخصیت کی تعمیر بھی کرنی ہے قوم کے مسائل کی تعیین بھی کرنی ہے اور پھر وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ان کی درجہ بندی کرکے اپنی ترجیحات اور میدان عمل بھی اختیار کرنے ہیں اور وقت بھی بہت کم ہے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ اللہ سے نصرت طلب کرنے کے ساتھ ساتھ ایک فعال دماغ کا کردار نبھائیں امت آپ کی رہنمائی کی منتظر ہے
پلیز رہنما بنئے، ایک فعال دماغ کا کردار ادا کیجئے، ورنہ قیامت میں صرف سوال ہی نہیں ہوگا لٹھ پڑیں گے لٹھ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
آج پھر سے علامہ اقبال کے وہ اشعار یاد آگئے جو انہوں نے ہم سے شکوہ کرتے ہوئے اور حقیقی وارثِ نبی بننے کی تحریض دیتے ہوئے کہے تھے
آہ! اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا، نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!