روس کی فوجیں الرٹ مگریہ سب دکھاواہے، شین ہیرس کاتجزیہ

بشکریہ : واشنگٹن پوسٹ ۔ دی سپر لیڈ ڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی ۔ سرحدوں پر روس کی فوجیں الرٹ مگر یہ سب دکھاوا ہے ، شین  ہیرس کا تجزیہ ، روایتی جنگ کے امکانات کو رد کر دیا۔

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کے سینئر تجزیہ کار شین ہیرس نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین بظاہر جنگ کے دہانے پر ہیں مگر دونوں ممالک ہی درحقیقت روایتی جنگ نہیں چاہتے ۔ یہ جارحیت کے بادل ایسے ہی ہیں جو بغیر بارش کےگزر جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے بعد سخت معاشی چیلنجز کی وجہ سے کوئی بھی ملک جنگ نہیں چاہتا ۔ البتہ نظریاتی طور پر دونوں ممالک کے فیصلے اٹل ہیں مگر جنگ کے اثرات کتنے دورس ہونگےیہ دونوں ممالک ہی اچھی طرح جانتے ہیں ۔

بائیڈن صورتحال میں اپنی برتری چاہتے ہیں

دوسری جانب صدر بائیڈن اس جنگ کو رکوانے کی کوشش میں ہیں مگر یہ طے شدہ امر ہے کہ بائیڈن بھی روس پر اپنی برتری ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ یورپ بھی کسی نہ کسی طرح جنگ کو خود ہوا دیتا نظر آرہا ہے ۔ اگر امن کی خواہش ہو تو یوکرین پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے درمیانی راستہ بھی نکالا جا سکتا تھا مگر روس پر معاشی پابندیوں کی دھمکیاں  اور یوکرین کے لئے معاشی پیکیج کی تیاری یہ ثابت کرتی ہے کہ اہل مغرب بھی امریکا کے  ہم خیال ہونے کی روش سے باہر نہیں نکل سکتے ۔

روس یوکرین سے الگ ہونے والے علاقوں کو ریاست تسلیم کرے گا

روس کے صدر نے یوکرین سے  علیحدگی اختیار کرنے والے علاقوں دونیتسک اور لوہانسک کو آزاد  ریاستیں تسلیم کرنے پر غور شروع کردیا  ہے ۔روس کی فوج بارڈرز پر موجود ہے مگر حیرت انگیز طور  پر جارحیت کے ارادوں سے بھی انکاری ہے ۔ دوسری جانب یوکرین مذاکرات کی میز پر آنے پر  آمادگی ظاہر کر چکا ہے ۔ بیلاروس نے کہا ہے کہ مشترکہ مشقوں کے اختتام کے باوجود روسی فوجی موجود رہیں گے ۔ اب وہ وہاں رہ کر کیا کریں گے سب جانتے ہیں کہ وہاں زیادہ دیر قیام اخراجات کی آندھی  کے مترادف ہوگا۔

ادھر امریکی صدر نے فرانسیسی ہم منصب کی تجویز پر پیوٹن کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس رکھنے پر اتفاق کیا ہے  لیکن روس  نے اس تجویز پر فوری مثبت ردعمل دینے سے گریز کیا ہے ۔ ایسے حالات میں کچھ بھی واضح نہیں مگر یہ اشارے ضرور مل رہے ہیں کہ یہ سب دکھاوا ہے ۔