شوہر کی تعریف یاطنز ؟

ہمارے میاؤں جس دن ہماری تعریف کر دیں پھر دو گھنٹے سوچنا پڑتا ہے کہ کس پہلو سے اسے طعنہ نہ سمجھیں۔۔ 

مثلا کہیں گے “واہ۔۔ آج دس سال میں پہلی بار اتنا مزیدار سالن بنایا ہے”۔ اوہ بندہ خدا یہ پچھلے دس سال کا شکوہ ہے یا آج کے کھانے کی تعریف؟  

یا یوں کہہ دیں گے۔۔ “آج تو بہت ہی پیاری لگ رہی ہو۔ بالکل پہچانی نہیں جا رہی۔۔۔ “

اب ان نازک معاملات کو ہینڈل کرنا ہمارے دل کو کس قدر بھاری پڑتا ہے۔ یہ تو ہم ہی جانیں۔  

اس بشر خطاکار نے کبھی ہم پر آج تک دو شعر نہ کہے۔۔ شعر تو دور کی بات۔۔کئی بار نثر بھی اتنی خراب کہی کہ اردو نے خود ہمارے سامنے دم دے دیا اور بوریا بسترا سمیٹ چل دی۔ کہنے لگے۔۔۔بیگم تمہاری ناک دیکھ کر ہتھنی یاد آ گئی۔۔۔۔ اللہ کے بندے وہ نتھنی ہوتی  ہے۔۔۔ پر کیا پتہ انہیں ہتھنی ہی یاد آئی ہو۔۔۔ 

اب میرے نازک سے دل کا حال سوچیے۔۔اگلے پورے دن جیا جلے جان جلے۔۔۔کہ نہ جلے۔۔۔

ایک دن تو بس میری حد ہو گئی۔۔اک یہ شاعر موئے نہ ملنے والے محبوب کی چاہ میں رُلے جا رہے اور ایک یہ جنہیں میں میسر ہو گئی پر پھر بھی قدر نہیں جانتے۔میں نے کہہ دیا دیکھو جی مانا کہ میں شاعر نہیں ۔ پر بساط بھر محبت انڈیلی تھی نا؟ ۔ یاد کرو کیسےآپ کے سچ بولنے کی عادت کو میں نے خط میں اک شعر میں سمویا تھا۔۔ 

کہنے لگے بیگم جہاں تک یاد پڑتا ہے وہ شعر تھا 

آپ بولتے ہیں بالکل سچ۔۔

کیونکہ آپ ہیں مگر مچھ۔۔

اب اس کو شعر نہیں فاش غلطی کہتے ہیں۔۔۔ جس سے جتنی جلدی ہو سکے توبہ کر لینی چاہیے۔۔۔

کیوں جی؟  آپ اور مگر مچھ کا وزن برابر برابر کر کے شعر میں ڈالا تھا۔ پتہ ہے کس دریا کی گہرائی سے یہ گوہر مچھ ڈھونڈ کر لائے تھے۔ چلو ٹھیک۔۔ مانا کہ شعر کا وزن ہمارے اہنے وزن سے کم ہی ہو گا ۔۔ پر جب بیمار پڑے تھے۔ تب بھی تو میں نے شعر میں وش کیا تھا۔۔۔

پھر سے گویا ہوئے۔۔بیگم 

“سنئیے اب کھا کر دوائیاں ہو جائیے بالکل ٹھیک۔۔

آفس سے چھٹیاں زیادہ ہو گئیں تو مانگنی پڑے گی بھیک”

یہ کس قسم کا شعر تھا؟  

جی جی آپ کو کیا پرواہ کہ ایک ہی بات میں تندرستی ہزار نعمت اور بےروزگاری ایک عفریت بتانے والی زوجہ جو مل گئی۔ ایسے ہیرے کی ناقدری تو آپ کریں ہی گے۔۔ 

اچھا میری شاعری کو چھوڑو۔۔ کبھی خود بھی کوئی شعر میری آنکھوں پر نازل کر دو۔چلو آنکھیں نہ سہی ماتھے پر ہی پھوڑ دو۔۔ پر ایسا قفل؟؟ 

شعر نہیں کہتے  نہ سہی۔ یہ جو اتنا گنگناتے پھرتے ہو کہ کئی بار مجھے شک پڑا کہ جو سُر آپ نے شاور تلے لگایا ہے وہ پاؤں پھسل جانے کےبعد منہ سے نکلنے والی چیخ ہے۔ اسی سُر میں میرےلیے اک گیت ہی گنگنا  دو۔۔۔ 

اس انسان نے مجھے اپنے سُر سنگیت کے چکر میں۔۔”میرے محبوب قیامت ہو گی۔۔آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی”… پورے دس منٹ تک سنایا۔  وہ تو میں نے خود ہی دل کو تسلی دی کہ شاید محبوب کے جنازے میں شرکت کرتے وقت کسی جھروکے میں انہیں ہمارا دیدار بھی نصیب ہوا ہو گا۔۔۔ 

 خیر لاکھ تیار ہو جاؤں۔۔۔اچھا کھانا بنا لوں۔۔نازوادا دکھا دوں ۔۔ بہانے سے چار گلاس توڑ دوں۔۔پر ان پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔انہیں نہیں پتہ کہ بیگم کو ان کے منہ سے چار جملے تعریف کی کس قدر چاہ ہے  ۔۔۔ایک بار کہنے لگے وہ اُس فلم والی ہیروئین کی شکل تم سے کتنی ملتی ہے۔ سارا دن دل باغ باغ رہا۔ دل نے رانی مکھرجی سے لے کر مادھوری تک کے سپنے سجائے۔ رات ٹی وی دیکھتے بہانے سے پوچھا کہ جس ہیروئین کا ذکر کیا تھا کون سی فلم کی ہیروئین تھی وہ؟ ایک کامیڈی فلم میں ڈاکو کی ہیروئین جو خود فلم میں سیٹھ کے گھر نوکرانی تھی کا نام لے دیا۔۔۔ حد ہو گئی۔۔ چھن سے جو ٹوٹا تو پھر دل ٹوٹنے کی آواز کہاں آتی ہے۔ بالاخر اک دن صاف ہی کہنا پڑا کہ ہماری تعریف کرتے سینے پر جو بھی سانپ لوٹیں کرنی ہی پڑے گی ۔  دو منٹ سوچ کر کہنے لگے ۔۔