صحافت میں رپورٹر نام کی ایک شے ہوا کرتی تھی۔ بہت محنت ومشقت سے یہ کارندہ کوئی خبر ڈھونڈتا تو اسے اخبارات میں شائع کرنے سے قبل سو بار سوچا جاتا تھا۔کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔۔ والی فکر لاحق ہوجاتی۔ 2002میں تاہم ہمیں 24گھنٹے باخبر رکھنے کے دعوے دار ٹی وی چینل نمودار ہوگئے۔ بتدریج انہیں "ذرائع” میسر ہوگئے۔ گھر بیٹھے Whatsappکے ذریعے "خبر” فراہم کردی جاتی۔رپورٹر اسے من وعن اپنے چینل کو بھجوادیتا۔ چیختے چنگھاڑتے Tickersکے ذریعے وہ ٹی وی سکرینوں پر چلنا شروع ہوجاتی۔
ایسی خبر کو سکرینوں پر چلاتے ہوئے کسی مدیر نے کبھی اس حقیقت پر توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ اس کے رپورٹر نے جو "خبر” دی ہے وہ دیگر ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بھی عین ان ہی الفاظ میں دکھائی جارہی ہے۔خبر اور اسے یکساں الفاظ میں بیان کرنا ہرگز حسنِ اتفاق نہیں۔ درحقیقت یہ کسی طاقت ور اور جماعت یا ادارے کا بیانیہ ہے جو رپورٹروں کے تعاون سے پھیلایا جارہا ہے۔ اسی بیانیے کو بنیاد بناتے ہوئے شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک تمام ٹی وی چینلوں کے اینکر خواتین وحضرات بھی ہماری ذہن سازی میں مصروف ہوجاتے۔ اب تو ہر صاحب رائے کا اپنا یوٹیوب چینل بھی ہے۔ جو بیانیہ روایتی میڈیا نے اجاگر کیا ہوتا ہےاندر کی خبر دیتے ہوئے اس میں مزید مٹھاڈالا جاتا ہے۔ رونق لگ جاتی ہے۔
اس رونق کے شوروغوغا میں تاہم کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ جنوبی ایشیاء کے دو ازلی دشمنوں کے مابین بیک ڈور مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ بالآخر پاکستان اور بھارت کی جانب سے مشترکہ طورپر تیار ہوئی ایک پریس ریلیز فروری 2021کے آخری ہفتے میں منظر عام پر آئی۔ اس کے ذریعے ہمیں علم ہوا کہ کشمیر میں قائم لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ دونوں ممالک نے وعدہ کیا ہے کہ 2003کے آغاز میں واجپائی اور جنرل مشرف کے درمیان مذکورہ لائن پر سیز فائر کا جو معاہدہ ہواتھا اس کا مکمل احترام ہوگا۔ اس معاہدے میں جو مزید نکات طے ہوئے تھے انہیں بنیاد بناتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش ہوگی۔
میرے اور آپ جیسے عام شہری کو آج تک کسی معتبر رپورٹر نے آگاہ ہی نہیں کیا کہ 2019سے سنگین تر ہوتی پاک -بھارت کشیدگی میں بالآخر کمی لانے کا فیصلہ کیوں اور کیسے ہوا۔ دونوں ممالک نے اس کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ نظر بظاہر "ذرائع” نے Whatsappکے ذریعے رپورٹروں کو اس کی بابت آگاہ کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ بے چارے رپورٹر”جو دے اس کا بھلا-جو نہ دے اس کا بھی بھلا” سے لبریز قناعت کی بدولت اس تناظر میں بے چین بھی نظر نہیں آئے۔
آصف علی زرداری جن دنوں برسراقتدار تھے تو ہمارا "آزاد وبے باک” میڈیا ان کی ذات اور شخصیت کو مسلسل مخاصمانہ تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔ ایوانِ صدر میں اس دوران مجھے ان سے تنہائی میں چند ملاقاتوں کے مواقعہ بھی میسر ہوئے۔ ایک مرتبہ بھی انہوں نے میڈیا کی اجتماعی مخاصمت کا گلہ نہیں کیا۔ انہیں گماں تھا کہ عوام سے براہِ راست رابطے والی سیاست کے عادی افراد کو اس سے گھبرانا نہیں چاہے۔”سب چلتا ہےو الا رویہ اختیار کرتے ہوئے ایوان صدر میں پانچ برس گزار لئے۔
2013کے بعد تاہم پیپلز پارٹی کو ادراک ہوا کہ ٹی وی صحافت ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرنا شروع ہوگئی ہے۔ 2014سے سوشل میڈیا کی اہمیت بھی سمجھ آنا شروع ہوگئی۔ بلاول بھٹو زرداری ٹویٹر پر متحرک ہوگئے۔ اب ان کی جماعت کا توانا دِکھتا سوشل میڈیا سیل بھی ہے۔ منگل کے دن اس نے بھرپور جلوہ دکھایا۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف صاحب نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو اندرونِ خانہ جو جلی کٹی سنارہے تھے وہ Real Timeمیں ٹی وی سکرینوں پر ہوبہو نمودار ہوناشروع ہوگئیں۔ Whatsappنے کرشمہ دکھایا۔ پی ڈی ایم کواس کی بدولت ICUمیں بھیج دیا گیا ہے۔ دیکھئے جانبر ہوپاتا ہے یا نہیں۔
پنجابی کا ایک محاورہ اس کالم میں اکثر دہراتا رہتا ہوں جو ایک بے بس بیوہ کا ذکر کرتا ہے جسے محلے کے اوباش لونڈے چین سے رہنے نہیں دیتے۔ پی ڈی ایم کے ICUمیں چلے جانے کے بعد ہمارے ذہن ساز اپنی تخلیقی توانائی اس امر کو یقینی بنانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد جانبرہوپائے۔ صحافیوں کا ایک گروہ پیپلز پارٹی اور خاص کر آصف علی زرداری کے ساتھ شریف خاندان کی جانب سے1980کی دہائی سے رواں رکھی زیادیتوں کو یاد دلاتے ہوئے اصرار کررہا ہے کہ سابق صدر نے پی ڈی ایم اجلاس کے دوران دل کی بات زبان پر لاکر ہرگز کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔
آصف علی زرداری کی فراست کو بلکہ اس تناظرمیں فراخ دلی سے سراہا بھی جارہا ہے جس کی بدولت نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کو ڈسکہ کے ضمنی انتخاب والی رونق ہی نہیں نوشہرہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست بھی نصیب ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست نے عمران حکومت کو مزید وختہ ڈال دیا۔ ان سب واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے لندن میں مقیم نواز شریف کو پیغام دیا جارہا ہے کہ قوم کو سڑکوں پر لاکر مروانے کے بجائے آصف صاحب کی فراست سے مزید رجوع کیا جائے۔ بہترتو یہی ہوگا کہ نیویں نیو یں رہتے ہوئے عمران حکومت کو وختے پر وختہ ڈالنے کی ذمہ داری "سب پہ بھاری” کو Outsource کردی جائے۔
آصف علی زرداری کو عمران حکومت گرانے کا ٹھیکہ دینے کی بات چلی ہے تو آپ کو مزے کی ایک خبر بھی سنادیتا ہوں۔ گزشتہ برس کے ستمبر میں پی ڈی ایم کے افتتاحی اجلاس کے دوران ہوے چائے کے ایک وقفے میں آصف صاحب نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر شہباز شریف ان کی تیار کردہ حکمت عملی پر دل سے عمل کرنا شروع ہوجائیں تو وہ پندرہ دنوں کے اندر عمران حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ نواز شریف اس کے لئے نظر بظاہر آمادہ نہیں ہوئے۔ غالباَ اسی باعث شہباز شریف اب جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم کی ICUمیں ہلاکت کو یقینی بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر چھائے نواز شریف کے حامی بھی آصف علی زرداری کی بے وفائیاں گنواتے چلے جارہے ہیں۔ بضد ہیں کہ مسلم لیگ (نون) پیپلز پارٹی پر بھروسہ نہ کرے۔ دریں اثناء وطنِ عزیز کو مذہبی انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے فریضے پر مامور "لبرل” حضرات مولانا فضل الرحمن کو "فساد” کی اصل جڑ بناکر پیش کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جیسے "روشن خیال” نوجوان کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی جماعت کو اس "رجعت پسند مُلاّ” کا یرغمال نہ بنائے۔
پی ڈی ایم کی بربادیوں کے جو مشورے سوشل میڈیا سے جڑی ہیجان انگیز زبان میں دئیے جارہے ہیں وہ عمران حکومت کو یقینا توانائی فراہم کررہے ہیں۔ اسی حکومت کے "وژن” کو فروغ دینے والے نہایت اعتماد سے لہٰذا دعویٰ کررہے ہیں کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی باہم مل کر اب پارلیمان کو وقار بخشیں گے۔ ان کے مابین متوقع تعاون قوم کو آئینی اور قانونی اصلاحات کے ذریعے سیدھی راہ پر چلائے گا۔ آغاز اس تعاون کا گلگت بلتستان کو پاکستان کا "عبوری صوبہ” بنانے سے ہوگا۔
عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے سب پہ بالادست ایوان یعنی قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر کو وزیر اعظم صاحب نے ایک چٹھی لکھ کر حکم دیا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کو متعارف کروانے والی قانون سازی کی راہ اپنائیں۔ اسد قیصر صاحب نے مگر مناسب جانا کہ "سنجیدہ” کام کی جانب راغب کرنے سے قبل انہیں اراکین قومی اسمبلی کو "تہذیب” بھی سکھانا ہوگی۔ اس خواہش میں بزرگ اراکین کی ایک کمیٹی فخرامام صاحب کی قیادت میں بھی بنادی گئی ہے۔
فخر امام جیسے خاندانی بزرگ سے اسمبلی کے آداب سیکھنے کے بعد ہی قیمے والے نان کھلاکر قومی اسمبلی میں درآئےتلنگے نمااراکین معزز کہلوائے جانے کے مستحق ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے نام نہاد Custodianیعنی سپیکر اسد قیصر نے بزرگوں کی جو شوریٰ بنائی ہے وہ عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے ایوان کے وقار کی اوقات ثابت کرنے کو کافی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اس تناظر میں حق پہنچتا ہے کہ وہ اس ایوان کا منتخب رکن نہ ہونے کے باوجود وہاں کھڑے ہوں اور نہایت رعونت سے "قیمے والے نان” کھلاکر وہاں پہنچنے والوں کو یاد دلائیں کہ ان کی بنائی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کے واشنگٹن میں موجود مرکزی دفاتر میں سرسری دورے کی سعادت بھی کبھی نصیب نہیں ہوگی۔