ہر سوسائٹی میں ایسے سفلہ مزاج لوگ ہوتے ہیں جن کا محبوب مشغلہ بے پرکی اڑانا اور غلط افواہیں پھیلانا ہوتا ہے۔ ایسی افواہیں خاندان،قبیلوں بسا اوقات قوم کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔دنیا بھر میں یکم اپریل کے روز بولے جانے والے جھوٹ کی وجہ سے بے شمار لوگوں کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔مغرب سے نکلنے والی اس قبیح رسم کے تحت یکم اپریل کو دروغ گوئی کرکے کسی کو مذاق کے نام پر دھوکہ دینا یا بے وقوف بنانا اور ذہنی اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ کسی کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کرنا بھی کمال مہارت قرار دیا جاتا ہے۔جو شخص جتنی ایکٹنگ اور چابکدستی سے دوسروں کو گھمائے گا،اتنا ہی ذہین و فطین سمجھا جائے گا۔شریعت محمدؐ میں اس چیز کی کوئی گنجائش نہیں کہ تہذیب کے دائرے کو عبور کرتے ہوئے انٹرٹینمنٹ کے نام پر خلاف مروت بات کی جائے۔عصر حاضر میں سوشل میڈیا کے سحر میں سب گرفتار ہیں، جو ویڈیو یا پوسٹ نظر سے گزر جائے بغیر کسی تحقیق کے اسی کو قبلہ تصور کرتے ہوئے من و عن قبول کر لیتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں فرق یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر خبر باوثوق ذرائع سے نشر کی جاتی ہے جبکہ سوشل میڈیا بے لگام ہے جہاں مستند ذرائع تو دور کی بات بعض خبریں اخلاقیات کی حدود وقیود سے بھی آزاد ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال برا نہیں ہے۔اگر ہم خود اسے برا نہ بنائیں۔ افواہوں کی بہت سی اقسام ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ رشتوں میں بگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے شر انگیزی کی جائے۔ قارئین سوشل میڈیا اس میں صف اول ہے۔ ملاحظہ کیجیئے کہ مارچ 2019 میں پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد31,467,000 تھی جو اس وقت یقیناً مزید بڑھ چکی ہوگی۔ جعلی آئی ڈیز بنا کر نفرت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔جدید ترین سروے کے مطابق 60 فیصد طلاقیں سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ طلاق ہونے کا جب سبب دریافت کیا جاتا ہے تو زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہی وجوہات میں شامل ہوتا ہے۔افواہوں کی اقسام میں سے ایک قسم وہ ہے کہ من گھرٹ الزامات پر مبنی پوسٹ کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا کیا جائے اور سیاسی انتشار اور بے چینی کو ہوادی جائے۔ اس میں سیاست دانوں، بیوروکریٹس، اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کی ذاتیات پر حملے کیے جاتے ہیں، پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ جانور تو جانور سبزیوں مثلاً آلو،پیاز وغیرہ پر سیاست دانوں کے چہروں کی مشابہت دلوائی جاتی ہے۔ایک پارٹی منفی سرگرمیوں اور افواہوں سے مخالف پارٹی کو داغدار کرتی رہتی ہے کہ ’’اس پارٹی نے یہ کہہ دیا،وہ کر دیا‘‘ حالانکہ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ایسی افواہوں کا مقصد یہ ہے کہ عوام کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں اور ملک بہتر قیادت سے محروم رہے۔بعض افواہیں خوش فہمیوں کے پس منظر سے ابھرتی ہیں مثلاً ہر سال بجٹ سے پیشتر پاکستان میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بارے میں کئی خوش کن افواہیں پھیلتی ہیں۔ ملازمین مسحور کن کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور جب بجٹ آتا ہے تو حکومت سے نالاں رہتے ہیں۔کچھ افواہیں تجسس پیدا کرنے کے لیے معرضِ وجود میں آتی ہیں۔مثال کے طور پر آسمان سے آناً فاناًبوڑھی پری گری اور مر گئی۔اس کے علاوہ شارجہ کے ساحل پر نظر آنے والی جل پریاں ان کے متعلق یہ افواہ پھیلی کہ بالائی دھڑ ایک حسین عورت کا جبکہ نچلا دھڑ مچھلی کا ہے۔ اس ضمن میں فوٹو گرافر نے کاری گری سے مچھلی اور عورت کی تصویروں کی پیوند کرکے فوٹو انٹرنیٹ پر وائرل کر دی۔ ان افواہوں کا مقصد لوگوں کے اذہان اور قلوب کو سحر میں مبتلا کرکے مسخر کرنا ہے۔ افواہوں کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ حوصلہ شکنی کی جائے۔پوری دنیا کو اس گھڑی کورونا بیماری سے متعلق جھوٹی معلومات کے ایک سیلاب کا سامنا ہے۔ کرونا کے ابتدائی ایام سے ہی غلط معلومات اور افواہ پھیلائی جانے لگی کہ کوئی وباء نہیں بلکہ یہ کوئی سازش اور خفیہ مشن ہے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کی جارہی ہیں جن کا مقصد کسی بھی ملک یا معاشرہ کی منفی باتوں کو پروموٹ کرکے عام آدمی کو اس سے متنفر کرنا ہے۔ اس کابڑا مشاہدہ کورونا کی تیسری لہر کے دوران کیا جا رہا ہے کہ بعض شر پسند عناصر کی جانب سے یہ افواہ اڑائی جا رہی تھیں کہ ’’کورونا شرونا‘‘ کچھ بھی نہیں۔! بس پھر عوام میں سے بعض نے ایس او پیز کی دھجیاں اڑا دیں جس کا خمیازہ آج زیادہ ہلاکتوں کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ افواہ سازی کے میدان میں ایک حقیقت تو یہ ہے کہ جتنی بڑی افواہ ہوتی ہے اس کی تردید بھی اتنی ہی مقتدر شخصیت کو کرنا پڑتی ہے۔ جس سے ابہام دور ہو جاتے ہیں۔ مگر سوچئے!… کہ گھروں اور معاشرے میں ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کون کرے گا؟؟؟۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور شکوک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دراڑوں کو کون پر کرے گا۔؟؟؟ وقت کی پکار ہے کہ ہم پہلے خبر کی تصدیق کریں اور اس کے بعد اس کو قبول کریں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی جھوٹ بول رہا ہو اور ہم مشتعل ہو کر ایسی کارووائی کر بیٹھیں جس کے خوفناک نتائج مرتب ہوں اور پھر ساری عمر فرطِ ندامت سے کفِ افسوس ملتے رہیں۔