وزیراعظم کی طلبی

منگل کی رات سے اپنے خیالات حکومت کو یہ مشورہ دینے کے لئے مرتب کررہا تھا کہ وہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جمعرات کے دن بلانے سے اجتناب کرے۔ اس کے اراکین پارلیمان حکومت کی جانب سے ہوئے ہر فیصلے پر سرجھکائے انگوٹھا لگانے کو اب دل وجان سے آمادہ نہیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں جوقانون سازی ہوتی ہے وہ فقط ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت کی حمایت کا تقاضہ کرتی ہے۔ حکومتی جماعت اور اتحاد کے چند اراکین اگر وہاں موجود نہ ہوں تو ان پر سیاسی وفاداری بدلنے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا جو بالآخر ان کی رکنیت کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے فی الوقت اجتناب کا خیال مجھے منگل کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے کے بعد آیا تھا۔ نظر بظاہر یہ ایک عام دن تھا جو اراکین کی جانب سے نجی حیثیت میں متعارف کروائے قوانین کے لئے مختص تھا۔ اس ضمن میں اپنے اختیار کو مسلم لیگ (نون) کے رکن قومی اسمبلی حسنین جاوید نے آئین میں ایک ترمیم تجویز کرنے کے لئے استعمال کیا۔ مقصد اس کا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو مزید دشوار بنانا تھا۔ حکومت نے ان کی پیش کردہ ترمیم کو تفصیلی غور کے لئے قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کو بھیجنے کی استدعامسترد کردی۔ اپوزیشن نے مگر اصرار کیا کہ مذکورہ استدعا کو ایوان کے روبرو ایک بار پھر بیان کرنے کے بعد اس کی حمایت اور مخالفت میں ووٹنگ کروائی جائے۔

مطلوبہ ووٹنگ سے مفر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے لئے بھی ممکن نہیں تھا جو حکومت کوتحفظ دینے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ گنتی ہوئی تو اپوزیشن بنچوں پر حکومتی اراکین کے مقابلے میں 13 زیادہ اراکین موجود تھے۔ حکومت کو لہٰذا شکست ہوگئی اور اپوزیشن نے ڈیسک بجاتے ہوئے اپنی شادمانی کا اظہار کیا۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سردار ایاز صادق نے اس واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے  سے اجتناب کا مشورہ دیا۔ موصوف کو درباری جوڑ توڑ کے معاملات کا بخوبی علم ہے۔ مقتدر کہلاتے حلقوں سے رابطے میں بھی رہتے ہیں۔ ان کے بیان کردہ مشورے کوکم از کم میں سنجیدگی سے لینے کو مجبور ہوں۔

بدھ کی صبح اٹھ کر اس کالم کے ذریعے حکومتی صفوں میں واضح طورپر نظر آتی بددلی کی وجوہات تفصیل سے بیان کرنا چاہ رہا تھا۔ اچانک مگر بریکنگ نیوز آگئی کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم صاحب کو ایک اہم مسئلہ پر وضاحتیں دینے کے لئے ذاتی طورپر پیش ہونے کا حکم صادر کردیا ہے۔ اس حکم کا جو بھی نتیجہ برآمد ہو اس کے بارے میں غوروفکر کی فی الوقت ضرورت محسوس نہیں کررہا۔ سیاست کے طالب علم کے لئے مذکورہ حکم مگر اپنے تئیں ہی ایک تاریخ ساز حکم ہے۔ اس کے اجرا کا سبب وہ قانونی جنگ ہے جو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 2014کے برس میں وحشیانہ دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مذکورہ سانحہ نے پوری قوم کو ہلادیا تھا۔ اس کی وجہ سے عمران خان صاحب نواز حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دئیے دھرنے کو ختم کرنے پر مجبور ہوئے۔ تمام جماعتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے جس نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعدپاک فوج کو دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے کامل اختیارات کے ساتھ متحرک ہونے کی سیاسی اور قانونی حمایت فراہم کی تھی۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن شروع ہوئے تو ان کی کامیابی کو پوری قوم نے یکسوہوکرسراہا۔ خواہش یہ بھی ابھری کہ دہشت گردی کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرنے کے عوض راحیل شریف صاحب کی معیادِ ملازمت میں اضافہ کیا جائے۔ ان کی بروقت ریٹائرمنٹ کی مخالفت ہوئی۔

آرمی پبلک سکول میں شہید ہوئے بچوں کے والدین خاص طورپر دکھی مائیں مگر نہایت استقامت کے ساتھ عدالتوں سے مطالبہ کرتی چلی آرہی ہیں کہ فقط راحیل شریف ہی نہیں بلکہ ان دنوں کے وزیر داخلہ جناب چودھری نثار علی خان کے علاوہ اس دور میں حکومت، دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز اہم افراد کے خلاف تادیبی کارروائی ہو۔ ان سے وضاحت طلب کی جائے کہ تمام تر چوکسی کے باوجود پشاور کے محفوظ ترین  علاقے میں دہشت گردی کا دلخراش واقعہ کیسے ہوگیا۔ میڈیا نے بدنصیب والدین کی اس کاوش کو پیشہ وارانہ ذمہ داری سے کبھی فالو نہیں کیا۔ اسی باعث سپریم کورٹ کا بدھ کی صبح جاری ہوا حکم دھماکہ خیزمحسوس ہورہا ہے۔

آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی جانب سے قانونی استدعا کی جو کاوشیں ہورہی تھیں ان کی بابت باقاعدگی کے ساتھ قارئین وناظرین کو آگاہ رکھا جاتا تو غالباََ مذکورہ حکم ہمیں چونکانے کا سبب نہ ہوتا۔ زور زبردستی بندے کا پتر بنائے میڈیا کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی زبان بندی کی وجہ سے ہمیں مسلسل جاری کسی عمل کے نتیجے میں رونما ہوئی فطری بات بھی انہونی نظر آتی ہے۔

شہید ہوئے بچوں کے والدین کے ذہنوں میں چند سوالات ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری عدالتیں ان کے جوابات ڈھونڈنے میں مدد فراہم کریں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ نامزدہ کردہ حکام کے خلاف انتقام کے جذبے سے مغلوب ہوکر بے سروپا سوالات اٹھارہے ہیں۔

ان کے اٹھائے سوالات کی وجہ سے سپریم کورٹ کا متحرک ہونا سیاسی اعتبار سے اس وقت خصوصاََ اہم ترین محسوس ہورہا ہے جب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اس ملک میں موجود ان گروہوں سے ایک بار پھر مذاکرات کی بات چل رہی ہے جو کئی برسوں تک پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے مرتکب تصور ہوتے رہے ہیں۔ سانحہ پشاور کی ذمہ داری بھی ایسے ہی گروہوں سے جڑی ایک تنظیم نے اپنے سرلی تھی۔ ان گروہوں کی جانب سے پیر کے روز قومی سلامتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے لئے ہوئی ایک بریفنگ کے بعد ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کی حیران کن پیش قدمی کے بعد وہ اپنے فیصلے پر قائم رہنے کو تیار ہوں گے یا نہیں۔