ہم تو ڈوبے ہیں صنم والا ماحول

جمعہ اور ہفتہ کی صبح اُٹھ کر میں یہ کالم نہیں لکھتا۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نما مولانا فضل الرحمن صاحب نے مگر اعلان کردیا ہے کہ  آئندہ 48گھنٹوں  میں بالآخر  تحریک عدم اعتماد  پیش ہوسکتی ہے۔ مولاناایک زیرک اور کئی حوالوں سے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ خواہ مخواہ کی بڑھک لگانے کے عادی نہیں۔ ان کے دعویٰ پر اعتبار کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔ اگرچہ مجھے اب بھی یہ گماں ہے کہ جس تحریک عدم اعتماد کا وہ دعویٰ کررہے ہیں غالباََ وزیر اعظم کے بجائے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف جمع کروائی جاسکتی ہے۔

میرے گماں کی واحد وجہ “اندر” کی کوئی خبر نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے خلاف یا حمایت میں اراکین اسمبلی اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر ووٹ نہیں دیتے۔ ایک کاغذ پر تنہائی میں مہر لگاکر اسے بکسے میں ڈال دیتے ہیں۔ خفیہ رائے شماری کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کے چند اراکین اسمبلی نے مارچ 2021کے دوران بھی حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں مہر لگاکر انہیں سینٹ کا رکن بنوادیا تھا۔ اسد قیصر کے حوالے سے تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔

خفیہ رائے شماری کی وجہ سے اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اپوزیشن جماعتیں یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ وزیر اعظم صاحب قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھوبیٹھے ہیں۔ وہ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گی۔ عمران خان صاحب کے پاس مگر استعفیٰ دینے کے بجائے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ایک بار پھر ووٹ لینے کا حق میسر رہے گا۔ انہوں نے یہ حق استعمال کرنے کو ترجیح دی تو ان کی حمایت کو ڈٹے اراکین قومی اسمبلی کو اسلام آباد لانے کی اذیت ومشقت عمران حکومت ہی کو برداشت کرنا ہوگی۔ مذکورہ مشقت ہمیں واضح انداز میں یہ بھی دکھلادے گی کہ “وہ” نیوٹرل ہیں یا نہیں۔

اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے باوجود عمران خان صاحب کو یہ آئینی حق بھی میسر رہے گا کہ وہ قومی اسمبلی سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی مشقت سے گزرنے کے بجائے اس ادارے کی تحلیل کا فیصلہ کرتے ہوئے نئے انتخاب کی جانب بڑھیں۔ میری دانست میں یہ فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کو حیران ہی نہیں پریشان بھی کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے اگر قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ کیا تو انتخاب فقط نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لئے منعقد ہوں گے۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومتیں اپنی جگہ برقرار رہیں گی۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں برسراقتدار رہے گی اور شاید بلوچستان میں بھان متی کے کنبہ والی صوبائی حکومت بھی قائم ودائم رہے۔ ایسے حالات میں عمران خان صاحب فقط قومی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخاب کی مہم چلاتے ہوئے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوئی اپوزیشن کے مقابلے میں طاقت ور تر محسوس کریں گے۔

فقط قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کو مجبور کرسکتا ہے۔ گجرات کے چودھریوں کا ممکنہ تناظر میں کردار مزید اہم ہوجائے گا۔ فقط قومی اسمبلی کے لئے نئے انتخاب پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے ہمارے سیاستدان اس کی بدولت ایک نئے قضیے میں اُلجھ جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں جو گھڑمس برپا ہوگا وہ عمران خان صاحب کو یہ بیانیہ فروغ دینے میں آسانی فراہم کرے گا کہ درحقیقت فقط انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ نہیں کروایا گیا۔ ان کے مخالف مافیازنے نفرت سے مغلوب ہوکر ملک کو بلکہ کامل سیاسی عدم استحکام کی جانب دھکیل دیا ہے۔ کامل عدم استحکام کی فضا اگر گھمبیر تر ہونا شروع ہوگئی تو عمران خان صاحب اپنے سیاسی مخالفین کے لئے “ہم تو ڈوبے ہیں صنم، ” والا ماحول بھی بناسکتے ہیں۔ یہ لکھنے کی مجھے ضرورت نہیں کہ ایسا ماحول بالآخر وطن عزیز میں کس کے کام آتا ہے۔

نظر بظاہر اگرچہ پاکستان میں نئے انتخاب کی فضا یقینا بن رہی ہے۔ میری دانست میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے اسلام آباد کی جانب بڑھتا ہوا مارچ نئے انتخاب کی تیاری کے تاثر ہی کو تقویت فراہم کررہا ہے۔ مذکورہ مارچ کی تاریخ کافی سوچ بچار کے بعد طے ہوئی تھی۔ آصف علی زرداری اور ان کے فرزند سے عرصہ ہوا میری گفتگو نہیں ہوئی۔ اپنے تئیں لہٰذا اندازہ ہی لگاسکتا ہوں کہ مذکورہ مارچ کا حقیقی مقصد پیپلز پارٹی کو نئے انتخاب کے لئے متحرک کرنا ہے۔

یہ کالم لکھتے وقت وہ مارچ پنجاب میں داخل ہوچکا تھا۔ سندھ سے گزرتے ہوئے مذکورہ مارچ کی بدولت پیپلز پارٹی نے اپنی ووٹ بینک والی قوت کو متاثر کن انداز میں دکھادیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں متوازی مارچ کا اہتمام کیا۔ مخدوم صاحب مگر اس مارچ کو سیاسی نہیں بناپائے۔ بنیادی طورپر بہائوالدین ذکریا سے منسوب غوثیہ تحریک کے مریدوں ہی پر تکیہ کرتے رہے۔ حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے بھی پیر پگاڑا اور ان کی سرپرستی میں قائم ہوئی جی ڈی اے مذکورہ مارچ سے قطعاََ لاتعلق رہے۔

پیپلز پارٹی کے لائے مارچ کا اصل امتحان مگر ساہی وال سے شروع ہوگا۔ اوکاڑہ اور قصور کے شہروں اور قصبات میں پیپلز پارٹی 2008تک بھی کافی جاندار رہی۔ دیکھنا ہوگا کہ مذکورہ اضلاع کے خاندانی جیالوں کی نئی نسل اب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی چلنے کو آمادہ ہے یا نہیں۔ وہ اگر آمادہ ہوگئی تو لاہور پہنچنے تک پیپلز پارٹی کے مارچ میں کیفیتی اعتبار سے نئی جان پیدا ہوسکتی ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت مذکورہ مارچ کے حوالے سے غالباََ ویسا ہی سرد مہر رویہ اپنائے گی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے 2019میں ہوئے مارچ کے دوران دکھایا تھا۔

دیکھنا ہوگا کہ ساہی وال سے اسلام آباد پہنچتے ہوئے پیپلز پارٹی اپنے تئیں کس نوعیت کے مناظر دکھائے گی۔ یہ مارچ جب سندھ سے رحیم یار خان داخل ہوا تو مقامی انتظامیہ کئی راستوں کو خاردار تاروں اور کنٹینروں سے بند کرتی نظر آئی۔ مذکورہ کاوش واضح انداز میں احمقانہ تھی۔ بہتر یہی ہوگا کہ پنجاب انتظامیہ سندھ سے آئے قافلے کو اسلام آباد کی جانب اپنے پروگرام کے مطابق بڑھنے دے۔ ساہی وال سے اسلام آباد کے درمیان چند مقامات پر اگر “پلس مقابلے” ہوئے تو عدم استحکام کی فضا اسد قیصر کے خلاف ممکنہ تحریک اعتماد سے قبل ہی رونما ہوسکتی ہے۔ اس سے اجتناب لازمی ہے