احمد جہانزیب، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ تخت بھائی پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جو لگتا ہے کہ ایک صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مردان سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سرحد میں واقع ہے۔ اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ تخت اس لئے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی ضلع مردان کا سب سے زیادہ زرخیز علاقہ ہے۔ یہاں کئی طرح کی فصلیں ہوتی ہیں جن میں پٹ سن ، گندم اور گنا وغیرہ شامل ہیں اس زمین کی زرخیزی کے پیش نظر ایشیا کا پہلا شکر خانہ یا شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھا صومعہ کے نزدیک بنائی گئی تھی۔
یہ مقام بدھ مت کی یہاں قدیم ثقافت ، طرز رہائش کے بارے میں بہت تفصیلی معلومات اور ثبوت فراہم کرتاہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم شہر کی باقیات پر رکھی گئی ، وہ باقیات آج بھی بہترحالت میں دیکھنے والوں کے لیے علم اور شعور کی فراہمی کا ذریعہ ہیں۔ قدیم دور کے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اورہندو نسل کے لوگ آباد تھے۔ عمارتیں، جو راہبوں کے لیے بنوائیں گئی تھیں ، ہر ایک تمام ضروریات زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لئے بھی فراہمی آب کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں فضائی نقل و حمل کے لئے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لئے طاق بھی بنائے گئے تھے۔
کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت ہوئیں ان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں ، صومعہ کی عبادتگاہوں کا کھلا صحن ، کنونشن کے مراکز ، بڑے ایستادہ مجسمے اورمجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلند و بالا دیواریں شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف توجہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے مبذول کرائی تھی۔ جبکہ تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہاں شاید کبھی بدھا کا گزر ہوا تھا۔
ڈک کھوڑ ، شیر گڑھ ، چارسدہ ، سیری بہلول ، تخت بھائی کے اطراف و مضافات میں واقع ہیں۔ سیری بہلول بھی تاریخی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تخت بھائی کی حدود میں آتا ہے، یہاں بھی بدھا تہذیب کی باقیات ہیںتاہم تحقیق اور کھدائی کا کام ہنوز مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔ لفظ سیری بہلول کی بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہندی لفظ ہے جس کا مطلب ہے” سر بہلول” جس میں علاقے کا ایک سیاسی مذہبی طریقہ ہوتا تھا تاہم ، یہ نام اتنا پرانا ہے کہ اس کی تاریخ نہیں ملتی۔
سب سے قدیم گاؤں اطراف میں ہیں جن کا علاقہ بہت سرسبز ہے یہاں اب بھی کاشتکاری کی جاتی ہے۔ کمیونٹی کے طور پر یہاں کے لوگ پسماندہ اور غریب ہیں، تعلیم کا تناسب بھی بہت کم ہے۔ مقامی لوگ ان تاریخی مقامات پر کھدائی کرتے رہتے ہیں ، جس سے ان تاریخی نوادرات کو نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ کچھ نوادرات کے شوقین اور تاجر ، بلکہ مقامی لوگوں کی غیر قانونی کھدائی کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہاں نادر اور نایاب تاریخی ورثے کے تحفظ کے لئے ملکی اور بین الاقوامی توجہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے تاکہ تاریخ کی ایک اہم تہذیب کی باقیات کو محفوظ رکھا جاسکے۔