واخان کا علاقہ، جہاں طالبان کی نظر پڑی نہ نیٹو کی

تحریر: ستونت کور

یوں تو افغانستان گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ و جدل اور خانہ جنگی کا شکار ہے تاہم افغانستان کا ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں نہ تو کبھی بیرونی افواج نے قدم رکھا نہ ہے طالبان نے۔۔۔۔ اور وہ خطہ ہے واخان راہداری Wakhan Corridor جوکہ پاکستان اور تاجکستان کے ٹھیک درمیان واقعہ ہے۔

پاکستان اور تاجکستان کے درمیان محض 16 کلومیٹر چوڑی پٹی موجود ہے جس سے دونوں ممالک جدا ہیں بصورتِ دیگر تاجکستان بھی تکنیکی  طور پر پاکستان کا ہمسایہ ملک بنتا ہے۔

یہ ایک بلند پہاڑی خطہ ہے جوکہ کوہِ پامیر، کوہ ہندوکش اور سلسلہ قراقرم کا حصہ ہے اور افغانستان کی سمت سے صوبہ بدخشاں کو چھوتا ہے۔

جغرافیائی حقائق :

واخان کی لمبائی تقریباً 350 کلومیٹر ہے ۔

جبکہ اس کی چوڑائی کم سے کم 16 اور زیادہ سے زیادہ 64 کلومیٹر ہے۔

یہ خطہ 4,923 میٹر بلندی پر واقعہ ہے۔

۔

آبادی، اقوام, مذہب اور زبان :

واخان کی آبادی محض 12000 کے قریب ہے ۔

واخان میں اکثریت “واخی” قوم کے افراد کی ہے جبکہ دیگر “کرغیز” ہیں۔

یہاں کی اصل زبان “واخی” ہے جبکہ اس کے علاؤہ واخان میں “دری” بھی بولی جاتی ہے۔

واخی لوگوں کی اکثریت اسماعیلی  مسلم عقائد کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔

۔

موسم :

واخان کا موسم شدید سرد ہے ۔ سال کے 9 ماہ واخان برف سے ڈھکا رہتا ہے جبکہ یہاں درجہ حرارت جون میں منفی 8 اور دسمبر میں منفی 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی گر جاتا ہے۔

۔

بود و باش:

واخی لوگوں کا طرز زندگی باقی افغانستان سے یکسر مختلف ہے۔ یہ لوگ قبائل یا کمیونٹیز کی شکل میں رہتے ہیں۔

ان قبائل کی اکثریت گول ساخت کے خیموں میں رہتی ہے جنہیں “یورت” Yurt کہا جاتا ہے۔

یہ خیمےنما گھر لکڑی ، یاک کی کھال اور پتھر کی مدد سے تعمیر کیے جاتے ہیں جوکہ باہر سے بالکل سادہ اور بےرنگ جبکہ اندر سے بہت خوبصورت اور سجاوٹ آمیز ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر واخی لوگ مٹی اور پتھر سے بنے گھروں میں بھی ، چھوٹے گاؤں کی صورت میں رہا کرتے ہیں۔

۔

آمد و رفت :

پورے واخان میں کوئی بھی پکی سڑک نہیں نہ ہی کسی قسم کی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہے۔ واخان کے مختلف علاقوں اور گاؤں کو کچی سڑکیں اور عارضی راستے ملاتے ہیں جبکہ سفر کا زریعہ گھوڑے، اونٹ اور یاک ہیں۔

سال میں دو مرتبہ کچھ سپلائی ٹرک ان کچے راستوں سے سفر کرتے ہیں اور ان کے مالک واخی کمیونٹیز کو اشیائے ضرورت فروخت فروخت کرنے کے بعد واپسی کی راہ پکڑ لیتے ہیں۔۔۔ یہ کچے راستے بھی اس قدر دشوار اور خطرناک ہیں کہ گنتی کے چند ٹرک ڈرائیورز ہی واخان کا رخ کر پاتے ہیں۔

۔

معیشت اور گزر بسر:

سخت موسم کی وجہ سے واخان میں کاشتکاری ممکن نہیں ۔ یہاں کے لوگوں کی گزر بسر گلہ بانی کرکے ہوتی ہے۔ واخی لوگ یاک، گھوڑے، بھیڑیں اور دوکوہانی اونٹ پالتے ہیں۔

واخان میں 3 سے 4 ماہ بعد پگھلنے کے دوران محض گھاس اگتی ہے جسے کاٹ کر باقی پورے سال کے لیے مویشیوں کو کھلانے کے واستے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔

واخان کے لوگ بھیڑوں کی اون، یاک کی کھالیں ، زندہ مویشی اور مخصوص واخی پنیر “کُرت” بیرونی دنیا میں فروخت کرکے باہر سے آٹا ، اناج ، دالیں اور سبزیوں کا سٹاک خریدنے کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی بھی باہر سے ہی خرید کر لاتے ہیں۔

انتہائی مشکل راستے اور طویل و خطرناک سفر ہونے کی وجہ سے افغانستان میں جاکر اپنی مصنوعات اور مویشی فروخت کرنے کا سفر بھی قافلے کی صورت میں اور سال بھر میں محض دو سے چار مرتبہ ہی ہو پاتا ہے۔

۔

خوراک :

واخی لوگوں کی روز مرہ کی خوراک بہت سادہ ہے جو گندم کی نان نما روٹی ، مکھن اور نمکین چائے پر مشتمل ہے۔

یاک کا دودھ اور اس سے بنا مکھن ، دہی اور پنیر (کرت) واخی لوگوں کی خوراک میں اولین مقام رکھتا ہے۔

یاک اور دنبے کا گوشت بھی واخی لوگوں کی خوراک میں اہم ترین مقام رکھتا ہے۔ یہ لوگ گوشت کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتے بلکہ جانور کے سر، آنکھیں ، زبان ، معدہ سمیت سب کچھ پکا کر کھایا کرتے ہیں۔

جن چند ماہ میں برف پگھلتی ہے تو ان دنوں گھاس کے ساتھ ایک پیاز نما ہری سبزی بھی اگتی ہے جوکہ واحد واخی سبزی ہے ۔ اس کے علاؤہ واخی لوگ محض تبھی کوئی سبزیاں یا دالیں افورڈ کرسکتے ہیں کہ جب سال میں ایک یا دو مرتبہ کوئی سپلائی ٹرک ان کے علاقے تک پہنچ پائے۔

واخان میں بجلی اور گیس کی سہولیات موجود نہیں ہیں اس لیے پکانے کے لیے خشک گھاس اور یاک کا خشک کیا گیا گوبر استعمال کیا جاتا ہے

۔

تعلیم :

پورے واخان میں گنتی کے چند اسکول ہیں جہاں بھی تعلیم محض مڈل یا سکینڈری تک ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی ان چند ایک سکولوں سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ سکولز اکثر کئی گھنٹوں کی مسافت پر ہوتے ہیں۔

۔

صحت :

واخان میں کوئی نجی ہسپتال یا کلینکس موجود نہیں۔ گنتی کے چند سرکاری کلینکس موجود ہیں جو پورا سال نہیں بلکہ کچھ عرصہ ہی کھلتے ہیں ۔ تاہم واخان میں امراض اور صحت کے مسائل بھی بہت محدود ہیں۔

۔۔۔۔۔

ایک الگ تھلگ زندگی :

بھلے ہی واخی لوگوں کی زندگی بیحد دشوار ، سخت اور محنت کشی سے لبریز ہے ۔ اور انہیں جدید دنیا کی اکثر سہولیات میسر نہیں ہیں۔۔۔۔۔لیکن دوسری طرف انہیں اس دوردراز خطے میں رہنے سے کئی فوائد بھی حاصل ہیں جیسا کہ :

✓ یہ خطہ افغانستان میں جنگ اور خانہ کی تباہ کاریوں سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہاں آج تک کوئی دہشتگردی کی کارروائی نہیں ہوئی۔

✓ یہاں پر کسی قسم کے کوئی جرائم ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل ، ریپ یا ایسے دیگر جرائم کا سرے سے کوئی تصور موجود نہیں۔

✓ یہ خطہ آلودگی سے بالکل پاک ہے۔ صاف ہوا ، صاف پانی اور فطرتی طرز زندگی کی وجہ سے اکثریت واخی لوگ 100 تا 120 سال تک کی زندگی پاتے ہیں۔