وادی جن کی سائنسی حقیقت

تحریر :مظہر عباس خان

اس سے قبل کہ میں اس کی سائنسی حقیقت سے آگاہ کروں میں مقناطیسی پہاڑوں (Magnetic Hills) کے بارے میں بتانا چاہوں گاان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے یہ پہاڑ عربی میں تلۃ مغناطیسیۃ کہلاتے ہیں۔ مقناطیسی پہاڑوں کو پراسرار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اسی کی وجہہ سے التباس بصارت پیدا ہوتی ہے۔ اس کو انگریزی میںOptical illusion کہا جاتا ہے اس کو عربی میں خداع بصری اور فارسی میں خطا ی دید کہا جاتا ہے۔۔یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں یعنی یہ علاقہ انسانوں میں فریب نظر پیدا کرتا ہے۔نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں۔ خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ موجود ہیں جو نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کے در حقیقت ڈھلان کو اونچائی میں ظاہر کرتے ہیں۔ جس کی وجہہ سے سڑک کا حقیقی ڈھلان بھی اونچا دکھائی دیتا ہے چونکہ اونچی دکھائی دینے والی سڑک پر موٹر گاڑی بند ہونے کے باوجود چڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے اس کو دنیا جنوں کی حرکت قرار دیتی ہےہندوستان میں علاقہ لداخ کے مقام لیہہ (Leh) سے تقریباً 50 کلو میٹر دور سمندر سے 11000 فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے پر یہ علاقہ ہےجہاں انجن کے بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی اونچائی پر چڑھ جاتی ہے اور کچھ لمحوں بعد تیزی اختیار کرکے بھاگنے لگتی ہےہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقہ تلسی شیام Tulsishyam ضلع امریلی (Amreli)میں بھی گذشتہ برسوں ایسی سڑک دریافت ہوئی ہے جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی کشش ثقل کے برخلاف Up Hill پر چڑھنے لگتی ہے

Lake Wales

فلوریڈا میں Spook Hills ہیں جنہیں Magnetic Hills کہا جاتا ہےاس علاقے میں بھی اشیاء الٹی جانب جاتی ہیں اسی لئے امریکہ کی عوام انہیں بد روحوں کا مسکن یعنی Spook Hill کہتی ہیں۔ کینڈا میں نیاگرا آبشار کے قریب Ontario کے Burlington میں بھی ایسے پہاڑ واقع ہیں جہاں کی سڑکوں پر موٹر کار الٹی جانب یعنی نشیب سے فراز کی جانب سفر کرتی ہےرچمنڈ Richmond آسٹریلیا کے Mountain Bowen روڈ پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں قدرت کی نشانیوں کو دیکھا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خلاقی پر ایمان لا سکیں ۔ اس سڑک پر صرف 50 میٹر کا علاقہ ہی ایسا ہے جہاں موٹر گاڑی اونچائی کی جانب چلنے لگتی ہے۔ان کے علاوہ امریکہ کے علاقہ Shullsburg, Wisconsin کے مقناطیسی پہاڑ، یونان کے MountPenteli اسکاٹ لینڈ کے Electric Brae پہاڑ۔۔مشی گن امریکہ کا Mystery Spot وغیرہ بھی شہرت رکھتے ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں مقامات پر ہمیں ایسے پہاڑ مل جائیں گے جہاں نظروں کا دھوکا حقیقت کو بدل دیتا ہے اور سچ جھوٹ کے پردے میں گم ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہہ سے ڈھلان سڑک بھی اونچی دکھائی دینے لگتی ہے اور عام آدمی کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے۔ میں یہاں بالخصوص ایک جدید سائنسی تجربے کا ذکر کرون گا جو ہمارے ذہنوں کو کھول کر اس میں حقیقت شناسی کے جذبے کو بھر دیتا ہے

یہ تجربہ عراق کی سلیمانی یونیورسٹی میں کیا گیا۔ عراق کی ایک ریاست خردستان ہے جہاں کے علاقہ کویا (Koya) میں بھی ایسے پہاڑ موجود ہیں۔ ان پہاڑوں پر سلیمانی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر Perykhan M.Jaf نے تحقیق کی اور ثابت کیا کہ کسی بھی Magnetic Hills کے اطراف موٹر گاڑی کی کشش ثقل کے خلاف محیر العقل حرکت نظروں کا دھوکہ ہے۔ان کے پیش کردہ مقالے میں کافی وضاحت سے التباس بصری اور مقناطیسی پہاڑوں کو سمجھایا گیا۔ اس محقق نے کئی اقسام کے التباس بصری یعنی فریب نظرکا ذکر بھی کیا ہے جو ہماری عام زندگی سے متعلق ہیں جیسے Illusions of length اور Illusions of shape وغیرہ۔۔ مدینہ کی وادی جن عجیب و غریب خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے۔ گول پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ زائد از سات میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ یعنی اس علاقے کی سات کلو میٹر لمبی سڑک ہمیں فریب نظر میں مبتلا کرتی ہے ایسی خصوصیت رکھنے والی اس قدر لمبی سڑک دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ وادی میں سڑک کی آخری حد تک جانے کے لئے موٹر گاڑیاں بڑی زور آزمائی کے ساتھ گذرتی ہیں۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر آنکھوں کو ڈھلان دکھائی دینے والی اس سڑک پر موٹر گاڑی یا بس (Bus) کے انجن کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈھلوان دکھائی دینے والی سڑک در حقیقت ڈھلوان نہیں ہے اور جب وادی کی آخری حد سے یہ بس پلٹتی ہیں تو بس کا ڈرائیور موٹر گاڑی کے انجن کو چالو رکھتاہےلیکن ایکسلیٹر (Accelerator) سے پاؤں اٹھا لیتا ہے۔ گاڑی نیوٹرل گیر(Neutral Gear) میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ گاڑی کا انجن بند ہوتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے

اور یہ یقیناً تعجب خیز بات ہے کہ ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ نہ ہونے کے باوجود گاڑی سڑک کے نشیب و فراز میں تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے رفتہ رفتہ بس (Bus) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بس (Bus) کی رفتار ایک مرحلے پر ایک سو پچاس تک پہنچ گئی تھی اور ڈرائیور کے پیر ایکسلیٹر پر رکھے ہوئے نہیں تھےبلکہ وہ اپنے پیروں کو سکوڑ کرسیٹ پر رکھے ادب سے بیٹھا اسٹیرنگ کنٹرول کر رہا تھا۔ ہاں کبھی کبھی جب رفتار حد سے بڑھ جاتی تو ڈرائیور کے پیر بریک پر پہنچ جاتے اور وہ گاڑی کے بریک لگا دیتا تاکہ گاڑی قابو میں رہے۔ نظروں کا دھوکہ Optical illusion دراصل حسی تجربات یا حس کو سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہیں یعنی دکھائی دینے والی شئے سے متعلق آگاہی (Perception) کی غلطی غیر حقیقی صورت حال کو پیدا کرتی ہے۔ وادی جن میں بھی انسانی دماغ کی ادراکی صلاحیت حقیقت سے بعید ہوجاتی ہے۔آنکھوں کے ذریعہ حاصل کی جانے والی معلومات کا جب دماغ میں تجزیہ انجام پاتا ہے تو دماغ اور آنکھوں کے مابین کشمکش بصری قوت پر اثر انداز ہوتی ہےاور ان مقناطیسی پہاڑوں سے نکلتی لہروں کے جلو میں انسان تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کا ادراک صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور وہ بالآخر غلط دیکھنے لگتا ہے۔ وادی جن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے علاوہ اس کے اس علاقے میں پائے جانے والے مقناطیسی پہاڑوں کے پھیلاؤ اور رفعت کے باعث افق (Horizon) واضح نظر نہیں آتا جو انتشار بصری کی اہم وجہہ ہے

Horizon

یعنی وہ واضح خط جو زمین کو آسمان سے جدا کرتا ہے اسی لئے اس علاقے میں سڑک ڈھلان ہونے کے باوجود بھی اونچائی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس کیفیت سے انسان عجیب عقیدت میں ڈوب جاتا ہے اور ان پہاڑیوں پر اس کو اللہ کے حروف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کہیں بظاہر ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے پتھر سجدہ ریز ہیں۔ نظر کے اس دھوکے کو طبعیات کے سادہ اصولوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ ہم زندگی میں نظروں کے دھوکے کی کیفیت سے کئی ایک بار دو چار ہوتے ہیں۔ جیسے اونچا درخت جو کھڑا ہوا ہے لمبا دکھائی دیتا اگر اسی درخت کو کاٹ کر زمین پر رکھ دیں تو زمین پر رکھا ہوا درخت نسبتاً چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک وادی جن مدینہ المنور کی بات ہے نہ صرف سائنسداں بلکہ عام افراد نے بھی اس کی حقیقت جاننے کے لئے تجربات کئے ہیں۔ اگر ہم گوگل ارتھ کے ذریعہ اس علاقے کا مشاہدہ کریں تو ایسی خصوصیت رکھنے والی یہ سڑک تقریباً 7 کلو میٹر لمبی نظر آئے گی۔ ان 7 کلو میٹر فاصلے کے دوران سڑک کے ڈھلان کا زاویہ 11.5 ڈگری ہو گااور سڑک کے دونوں حدوں کے بیچ 310 میٹر ڈھلان موجود ہو گا۔۔لیکن واہ رے قدرت کہ اس قدر ڈھلان کے باوجود انسانی آنکھ کو یہ ڈھلان اونچائی بن کر دکھائی دیتا رہتا ہے۔ اسی لئے ایسی وادیاں یا وادی جن مافوق الفطرت اور پراسرار قوتوں کا مرکز دکھائی دیتی ہیں ۔