SUPER BLOG

روح کا نکھار۔۔ ادب

روبینہ فیصل  کینیڈا سے تعلق رکھتی ہیں ۔  مصنفہ ، پروڈیوسر  اور شاعرہ بھی ہیں  ۔ سماجی اور سیاسی ایشوز پر لکھتی ہیں ۔ قارئین  ان کی ویب سائٹ پر  رابطہ کر سکتے ہیں ۔

ادب کسی بھی زبان میں ہو اور اس کی کو ئی بھی صنف ہو اس کا مقصد ایک ہی ہو تا ہے جیساکہ نامور افسانہ نگار پریم چند نے اپریل 1936 کو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے کی صدارت کرتے ہو ئے کہا تھا کہ؛”

ادب اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں حقیقت کا اظہار ہو۔ جس کی زبان پختہ، شستہ اور لطیف ہو اور جس میں دل و دماغ پر اثر ڈالنے کی صفت ہو،اور ادب میں یہ صفت کامل طور پر اس حالت میں پیدا ہو تی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربے بیان کئے گئے ہوں۔”

  ارسطو نے کہا تھا روح تین سطحوں پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ پہلی سطح نباتات کی ہے، جہاں محسوس کرنے کا عمل ہی اس کا نمایاں ترین ثبوت ہے۔

دوسری سطح حشرات الارض کی ہے جہاں محسوس کرنے کے علاوہ حرکت کرنے کا عمل ایک اضافی وصف کے طور پر موجود ہے۔تیسری سطح، انسان کی ہے جہاں محسوس کرنے اور حرکت کرنے کے علاوہ، سوچ بچار کا عمل بھی موجود ہے۔

یہ ادب ہی ہے جو سوچ کی کھڑکی کو کھولتا ہے کہ زندگی محض مادی وسائل کے حصول کا نام نہیں، اس کا مقصد روح کا نکھار، تہذیبی رفعت اور تخلیقی سطح پر زندہ رہنابھی ہے۔۔۔

جب فنکار،خیال یا وژن کو اپنی ذات کے ایک حصے سے حاصل کر کے دوسرے تک پہنچا دیتا ہے تو ابلاغ مکمل ہو جاتا ہے۔

وزیر آغا نے اس اجتماعی ذہن کو جو قارئین کے بطون میں چھپا ہوتا ہے، زمانے کا نام دیا ہے۔ ذات کا اسرا رہو یا زمانے کا یہ آرٹ اور ادب کے واسطے سے ہی منکشف ہو تا ہے۔

 

ادب کا زندگی سے ربط۔۔

ادب کا زندگی کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ ہے، کہ یہ اس کا آئینہ بھی ہے اور اس کا میک اپ بھی، مطلب ادب آپ کو زندگی کی تصویردکھاتا ہے تو اس زندگی کو بہتر بنانے کی تدبیر بھی بتاتا ہے۔

اسی لئے ادب کا فروغ، ذہنی اور دماغی قوتوں کا فروغ ہے اور قوموں کی ترقی اسی میں پوشیدہ ہے۔ فیض احمد فیض کے الفاظ میں:

ادب و فن صرف تفریح کا ذریعہ نہیں،وہ ہماری قومی زندگی کا حصہ ہیں۔

قومی زندگی کے لئے صنعتی ترقی،نہریں،سڑکیں،سبھی ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ادب و فن کا ارتقا بھی ضروری ہے۔ہم نے ابھی تک ایک آزاد قوم کی طرح اس کو وہ اہمیت یا مقام نہیں دیا،جس کا وہ مستحق ہے”

       فیض احمد فیض ۔۔ متاع ِ لوح و قلم

 برنڑنڈرسل کہتا ہے: ہم کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں یہ بات ہم سائنس سے سیکھتے ہیں مگر ہمیں کیوں زندہ رہنا چاہیئے؟

یہ راز ہمیں ادب بتاتا ہے۔ اور ذرا سوچیئے زیادہ تر لوگ اس "کیوں "کے بغیر ہی جیے چلے جاتے ہیں۔ زندگی کے اس” کیوں "کی تلاش میں جو ادب تخلیق ہو تا ہے اس کے اظہار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔

کبھی اسے شاعری میں تو کبھی داستان میں، کبھی ناول میں اور کبھی افسانے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔

ہندی ادب کی تاریخ

ایک ادیب کی معاشرے کی طرف ذمہ داریاں ایک عام انسان سے زیادہ ہو تی ہیں، اس کا نقطہ نظر زیادہ پختہ ہو نا چاہیئے کہ وہ زیادہ باشعور ہو تا ہے اور اسے عام لوگوں کو معاشرے کا بلیو پرنٹ دکھانا ہو تا ہے۔  

جس طرح قرون ِ وسطی کے یورپ کا ادب، عام لوگوں کی سمجھ سے بالاترمردہ زبانوں میں تھا اسی طرح ہند کا کلاسیکی ادب اور فلسفہ سنسکرت میں تحریر کیا گیا۔

چھال کے صفحات کو رسی میں پرو کر کتاب کی شکل دے دی جاتی اورکتب خانوں میں رکھا دیا جا تا تھا۔ وید ک عہد کا ادب لکڑی کا تھا۔۔۔تحریر سے دور،تقریر کے قریب۔ چھاپہ خانہ مسلمانوں کے ساتھ ہند میں آیا۔

جب سلطنت ِ ہندمغلوں کے ہاتھ لگی تو وہ جنگ اور شاعری کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا جانتے تھے۔

اس وقت مسلم تعلیم، انفرادی تھی جو صرف اشرافیہ کے حصے میں، نجی معلمین کی صورت ملتی تھی اورعام لوگوں تک تعلیم کی رسائی نہیں تھی مگر پھر بھی اس زمانے میں شاعری خوب پھلی پھولی۔ اور پھر یہ مشاعرے،ہندوستان کی تہذیب کا حصہ بن گئے، اور آج تک ہیں۔

شاہجہاں کے دور حکومت میں اردو کو عوامی سے ادبی درجہ بھی مل گیا تھا۔ بعد میں فارسی زبان  وادب کے فروغ کی کوششیں ہوئیں اوربرطانوی عہد میں انگریز نے اردو کو مزید فروغ دیناشروع کر دیا تھا۔ 

ہندمیں ادب تصویری شکل میں ۔ فوٹو کریڈٹ :آرتھی سماچار

ادب مختلف دور میں مختلف حالتوں میں موجود رہا ہے جیسا کہ یو نانیوں کے ہاں، ہمیں داستانیں ایلیڈ اور اوڈیسی کی شکل میں ملتی ہیں اور ہندوستان میں گلی کوچوں کے افسانوں کو نسل در نسل دیو مالاؤں کی شکل دے دی گئی تھی۔

مہا بھارت، ایشیا ء کا عظیم ترین تخیلاتی فن پارہ قرار دیا گیا ہے۔ کچھ محققین، اسے ایلیڈ سے عظیم تر نظم کہتے ہیں۔

گیتا کا مقام

گیتا، عالمی ادب میں فلسفے کی عالی مرتبہ نظم ہے۔اسے ویدوں کے بعد سب سے زیادہ تکریم دی جاتی ہے۔ اسے حقیقی فلسفی گیت بھی کہا جا تا ہے۔

ہند کی دوسری مشہور ترین داستان رامائن ہے۔ جو مہابھارت کی نسبت، مغرب والوں کو زیادہ آسانی سے سمجھ آجاتی ہے اور یہ نسبتا مختصر بھی ہے۔ رام اور سیتا، شاید افسانوی کردار ہیں مگر اولیسس اور پینی لوپ کی طرح زندہ انسانوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

افسانہ کا بنیادی موضوع بھی انسان ہے،چاہے وہ درخت، پرندے،کیڑے، یا جانور کی شکل میں ہو مگر جب افسانے میں آئے گا تو انسانی اوصاف لے کر آئے گا۔ 

Related Articles

Back to top button