کیا عمران خان امریکا کو اڈے دینے کی فوجی پالیسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ؟

وقت اشاعت :20جون2021

علی رضا، سپر لیڈ نیوز، واشنگٹن ڈی سی ۔ کیا عمران خان امریکا کو اڈے دینے کی فوجی پالیسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ؟ وزیراعظم نے امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں بہت سے سوالات کو جنم دے دیا۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی ایچ بی او کو دیئے گئےانٹرویو میں دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے امریکا کو اڈے دینے کے سوال کا نفی میں جواب دے دیا۔ پاکستانی وزیراعظم کا یہ انکار پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اس طرح وزیراعظم نے ان قیاس آرائیوں کی تردید کردی ہے کہ پاکستان امریکا کو اڈے دینے والا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکا  کو افغانستان میں کارروائی کے لیے اڈے نہیں دیں گے۔ دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ  افغانستان میں ایکشن کے لیے پاکستان کی  زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں  گے۔ یہ ممکن  ہی نہیں  کہ ہم ا مریکا کو  اڈے دیں۔ ملکی سالمیت  پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔اس طرح وزیر اعظم نے بظاہر ابہام دور کردیا ہے ۔ انٹرویو میں وزیراعظم کی بااعتماد باڈی  لینگوئج بہت سے سوالات کا خود ہی جواب دے چکی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کی اس حوالے سے کیا پالیسی ہے ؟

امریکا  مستقبل میں افغانستان میں گڑ بڑ کے نتیجےمیں پاکستانی اڈوں کا استعمال چاہتا ہے

افغانستان سےا نخلا کےبعد ممکنہ طور پر طالبان کے طاقت پکڑنے پر امریکا نے پلان بی بنا رکھا ہے ۔ اس کی تصدیق گزشتہ ماہ تب ہوئی جب امریکا کے معاون وزیر دفاع برائے انڈو پیسفک ڈیوڈ ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ امریکی انتظامیہ کسی موزوں ایئربیس کی تلاش میں ہے ۔ انہوں نے دوران بریفنگ دعویٰ کیا کہ پاکستان  امریکا کے ساتھ اس سلسلے میں بھرپور تعاون کرے گا۔

شاہ محمود قریشی کی مبہم تردید

ڈیوڈ ہیلوے کے تہلکہ خیز بیان کے بعد پاکستان میں آوازیں اٹھیں تو وزیر خارجہ نے پہلے قومی اسمبلی میں تردید کی پھر ایک بیان میں کہا کہ امریکی آپریشن کے لئے فوجی اڈے پاکستان منتقل نہیں ہو رہے تاہم افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہے ۔ ایک دوسرے موقع پر دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان جاری کیا اور اڈے دینے کی تردید  کی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک میں باہمی تعاون کا معاہدہ موجود ہے ۔ ماضی میں چند ایئر بیسز امریکا کو دی گئی تھیں ۔

امریکی انتظامیہ کا عمران خان کے بجائے آرمی چیف سے رابطہ

امریکا کو سکیورٹی تعاون فراہم کرنے کی غرض سے کسی بیس کا کنٹرول دینے کا شور اس وقت دوبارہ اٹھا جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستانی آرمی چیف جنرل  قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا اور سکیورٹی امور اور افغان امن عمل پر بات چیت کی ۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے تو روایتی پریس ریلیز جاری کی گئی مگر دفاعی تجزیہ کاروں نے اس اہم رابطے کو مختلف زاویوں سے پرکھا ۔ واضح رہے کہ پینٹاگون نے لائیڈ آسٹن اور جنرل باجوہ کے ٹیلی فونک رابطے کو اہم پیش رفت قرار دیا۔ پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی کہا کہ لائیڈ آسٹن اور پاکستانی آرمی چیف کی بات چیت بہت مفید رہی۔ امریکی وزیرِ دفاع نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔

 اسی رابطے کے تناظر میں وزیراعظم نے اپنی با اعتماد وزرا  اسد عمر اور دیگر کے ہمراہ اسلام آباد میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کا بھی دورہ کیا اور پاک امریکا تعلقات پر بھی اجلاس میں بات چیت کی ۔

پاک ، امریکا روابط میں تیزی

اسی دوران امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے دو مرتبہ رابطہ کیا۔ ذرائع کے مطابق اس دوران بھی امریکی مفادات کا تحفظ بنیادی ایجنڈا تھا تاہم روایتی طور پر تفصیلات سامنے نہ لائی گئیں ۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ جیک سلیوان سے مل کر خوشی ہوئی۔ ہم نے باہمی دلچسپی کے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی امور پر مثبت تبادلۂ خیال کیا۔

ماضی میں پاک فوج کی پالیسی کیا رہی ؟

ماضی میں پاک فوج ہی امریکی انتظامیہ سے براہ راست روابط رکھتی آئی ہے ۔ جنرل مشرف کے دور میں سول انتظامیہ کا کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ یہی بنیاد آگے بھی پڑی جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور میں فوج کو ہی کلیدی کردار نبھانا پڑا۔اس سے پہلے 1960 میں بھی فوجی انتظامیہ نے ہی پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا فضائی اڈا امریکا کے حوالے کر دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو  مختلف بیسز  کا کنٹرول دے دیا گیا۔

بلوچستان میں قائم شمسی ایئر بیس سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔ سٹریٹیجک  اہمیت کی حامل اس ایئر بیس سے ڈرون اڑائے جاتے رہے ۔ اسی طرح  جیکب آباد کا شہباز ایئر بیس بھی امریکی فوج کے استعمال میں رہا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد امریکہ سے شمسی ائیر بیس خالی کرالیا گیا تھا۔

عمران خان کی پالیسی کیا ہے ؟

سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فیلو شپ ہولڈر ڈاکٹر احد بن احمد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان دائیں بازو کی جماعت سے ہیں ۔ وہ سخت گیر موقف رکھتے ہیں اور بنیادی اصولوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عمران خان امریکا کو اڈے دینے کے حق میں نہیں نہ ہی وہ مستقبل میں ایسا کریں گے ۔

امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں جیسا کہ سب نے دیکھا وہ انکار کر چکے ہیں ۔ گو کہ ان کا یہ انکار خاصا مقبول ہوا ہے اور اسے پاکستان میں ان کی جماعت نے بہت سراہا ہے مگر حقیقت  اس کے برعکس ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس طرح کے قومی سلامتی کے معاملات میں سول حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ وزیراعظم یا اس کی کابینہ اپنی رائے تو رکھ سکتے ہیں لیکن اس طرح کے بڑے فیصلوں میں چلتی فوج کی ہی ہے ۔ ماضی میں البتہ ایسا بھی ہوا ہے کہ سول حکومت فوجی پالیسی سے ٹکراؤ یا تصادم کے راستے میں چل  نکلی ۔ جیسا کہ ہم نے نوازشریف کا کیس دیکھا  جب انہوں نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں کوئی وزیر خارجہ ہی تعینات نہیں کیا ۔ اس کی وجہ صرف یہ  تھی کہ وہ فوجی مداخلت کو زیادہ پسند نہیں کر رہے تھے  اور خارجہ امور براہ راست  اپنی نگرانی میں چلانا چاہ رہے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح موجودہ دور میں دو رائے سامنے آرہی ہیں۔ یا تو پاک فوج چند ایک اڈے خفیہ طور پر امریکا کو دینے کی ٹھان چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان اپنی ہی فوج کی پالیسی کو کاؤنٹر کر رہے ہیں ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ  عمران خان نہیں جانتے کہ کونسی پاکستانی ایئر بیس امریکا کے حوالے کی جا چکی ہے  یا دینے کی منصوبہ بندی چل رہی ہے ۔  آخری رائے یہ ہوسکتی ہے کہ پاک فوج کی پالیسی بھی وہی ہے جو عمران خان کی ہے ۔ لیکن اس  آخری رائے میں ابہام اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ وزیرا عظم یا ان کے خاص نمائندے کے بجائے  پاک فوج سے رابطے میں ہے ۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ بیان کردہ پہلی دو آپشنز میں سے ہی کوئی ایک ہے اور کھچڑی مسلسل پک رہی ہے ۔