SUPER FEATURE

ایمازون کی ملکیت کا انوکھا دعوےدار

محمد شاہ زیب صدیقی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی ، جغرافیہ  اور ارضیات کے موضوع پر لکھتے ہیں ۔ آپ کے کئی مضامین مختلف فورمز پر شائع ہوچکے ہیں ۔

ایمازون کی ملکیت کا انوکھا دعوےدارآخر ہے کون ؟

ایمازون کے بارشی جنگلات کا شمار زمین کے سب سے بڑے جنگلات میں ہوتا ہے، اس کی وسعتوں کا اندازہ ایسے لگائیے کہ ایمازون جنگل میں ہمارے پاکستان جیسے 8 ممالک سما سکتے ہیں۔

یہاں پر جانداروں کی لاکھوں خطرناک اقسام دریافت ہوچکی ہیں، اس کے باوجود حیاتیاتی ماہرین کے نزدیک ابھی اسے مزید کھوجنا باقی ہے۔

ایمازون کے جنگلات میں خطرناک جانوروں کی لاکھوں اقسام دریافت ہو چکی ہیں ۔فوٹو کریڈٹ:گیٹی امیجز

یہ جنگل اتنے گھنے ہیں دِن کے وقت بھی وہاں رات کا سماں معلوم ہوتا ہے یعنی یہاں متعدد جگہیں ایسی موجود ہیں جہاں آج تک سورج کی روشنی  نہیں پہنچ پائی۔

یہاں بارش معمول کی بات ہے، بارش جب شروع ہوتی ہے تو گھنے درخت ہونے کے باعث پانی کو زمین تک پہنچنے میں دس سے پندرہ منٹ لگ جاتے ہیں۔

یہ جنگل دُنیا کی بیس فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتا ہے جس وجہ سے اسے زمین کے پھیپھڑوں سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔

پچھلے سال یہاں لگنے والی آگ کے باعث 23 لاکھ جانوروں کی ہلاکتیں ہوئیں اور زمین کے ماحول پر اس کے سنگین نتائج مرتب ہوئے۔

اس جنگل میں بہنے والا دریائے ایمازون تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبا ہے یوں یہ دُنیا کا دوسرا لمبا ترین دریا ہے۔ بارشی موسم میں یہ دریا 45 فٹ تک اونچا ہوجاتا ہے۔

ایمازون کے انوکھے قبائل

ایمازون کے جنگل میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے قبائل موجود ہیں جن کا آج تک باہری دُنیا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

یہ جنگل کی اُن کے لئے کُل کائنات ہے، وہ یہیں پیدا ہوتے ہیں، یہی زندگی گزارتے ہیں اور یہیں اپنی آخری سانسیں گنتے ہیں۔

سوچنے کی بات ہے کہ یہ قدیم انسان رات کو آسمان پر تارے اور ملکی وے کہکشاں کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے؟

ان کے لئے یہ تارے، کہکشائیں الغرض سب کچھ ہی شاید کچھ اور معنی رکھتے ہوں گے۔

موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن سے انجان انسانوں کی زندگی کیسی ہوگی؟

یقیناً دُنیا اور کائنات کے جھمیلوں سے بےخبر اِن قبائل کی اپنی ہی زندگی ہے، جس میں وہ جیسے بھی جی رہے ہیں مگر خوش ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ باہری دُنیا سے آنے والے "جدید انسانوں” کا اپنی بستیوں کے قریب بھٹکنا بھی پسند نہیں کرتے۔

انہی بدقسمت قبائل میں سے برازیل کے صوبے رینڈونیا میں بسنے والا ایک جنگلی قبیلہ بھی تھا جو دریائے ایمازون کے کنارے اپنی زندگی گزارنے میں مگن تھا۔

جنگلات میں لگی آگ کے مناظر جس سے جانوروں اور حشرات کو بے حد نقصان پہنچا۔فوٹو کریڈٹ :گیٹی امیجز

اُس قبیلے کے باسیوں کو نہیں معلوم تھا کہ باہری دنیا کے خطرناک انسانوں کی نظر اُن کے علاقے میں اُگنے والے درختوں پر پڑ چکی ہے، جس کی لکڑی کی مانگ دُنیا بھر میں تھی۔

اس قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے جدید انسان نے قدیم انسان پر حملہ کردیا، یوں لکڑی مافیا کے ساتھ اِس قبیلے کی کئی جھڑپیں ہوئیں، مگر نیزے اور کُلہاڑے بھَلا گولی اور بارود کے سامنے کہاں ٹِک پاتے ہیں۔

جدید انسان نے قدیم انسان کو ہرا کر اس کے علاقے پر قبضہ کرنا شروع کردیا، اِن جھڑپوں میں اِس قبیلے کے تمام افراد مارے گئے۔

بے نامی انسان کی پراسراریت

ایک ہی شخص زندہ بچا جس کے متعلق ہم کچھ بھی نہیں جانتے، یہاں تک کہ اس کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں ۔

یہ شخص 1996ء سے تنہا اِس جنگل کے سینکڑوں کلومیٹر کے احاطے میں اپنی دُنیا آپ سجائے ہوئے ہے۔

یہ دنیا کا تنہا ترین انسان ہے۔ جس کو جدید دُنیا کے مہذب باسیوں نے تنہا کردیا، صرف اِس لیے کہ اِس علاقے کی لکڑی کی دنیا بھر میں مانگ تھی۔

برازیل میں فونائی کے نام سے ایک سرکاری تنظیم ہے، جس کا مقصد جنگلی قبائل کا خیال رکھنا ہے اور انہیں جدید دُنیا کے مہذب قاتلوں سے بچانا ہے۔

فونائی نے قتلِ عام کے دوران اپنے قبیلے میں تنہا بچ جانے والے انسان کو 1995ء میں ڈھونڈھ نکالا۔ جس کے بعد اس کے لیے 112 مربع کلومیٹر تک کے علاقے کو وقف کردیا گیا ۔

پچیس سال سے یہ شخص اس علاقے  میں بسیراکئے ہوئے ہیں ۔ یہ بیرونی دنیا سے  نفرت کرچکا ہے۔

اِس کا خوف جائز بھی ہے کیونکہ جس طرح اس نے اپنے قبیلے کا قتلِ عام اپنے سامنے ہوتا دیکھا اور جدید دنیا کے قاتلوں نے خون ریزی کرتے ہوئے جیسے اسے زبردستی تنہا کیا۔

کوئی بھی ذی شعور جاندار ہوگا تو اس کا ہمارے ساتھ یہی رویہ ہوگا۔اس کے ایسے رویے کے بعد فونائی نے اسے خاموشی سے مانیٹر کرنا شروع کردیا۔

اس کے صبح و شام کے معمولات کے متعلق دُنیا بھر کو بتایا۔ اِس کے روز و شب انتہائی مصروف گزرتے ہیں۔

تنہا شخص کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں ؟

یہ شخص صبح اُٹھتا ہے اور جنگل میں نکل پڑتا ہے، وہاں یہ دن بھر تنکے اورلکڑیاں جمع کرتا ہے، شام ہونے پہلے اُن سے ایک جھونپڑی بناتا ہے، اس کے بعد وہ جھونپڑی میں ایک گہرا گڑھا کھودتا ہے۔

نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیوں کرتاہے، کچھ ماہرین کے نزدیک وہ ایسا جنگلی جانوروں کو پکڑنے کےلئے کرتا ہے،جبکہ کچھ کے نزدیک وہ جنگلی جانوروں سے چھُپنے کےلئے یہ سب کرتا ہے۔

اسی طرح کچھ ماہرین یہ دعویٰ بھی کرتے دکھائی دیتےہیں کہ وہ یہ سب اپنی مذہبی رسومات کے باعث کرتاہے۔بہرحال گڑھا کھودنے کے بعد وہ اسی جھونپڑی میں قیام کرتا ہے اور اگلے دن وہ دوبارہ کسی ایسے ہی مشن پر نکل پڑتا ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے پاس یہ اوزار کہاں سے آئے اور یہ اب تک کار آمد کیسے ہیں؟ کیونکہ اس کو کسی انسان یا پھر کسی جنگلی قبیلے سے ملے ہوئے 24 سال گزر چکے ہیں ۔

وہ اِتنا تنہا ہے کہ خود سے بات بھی نہیں کرتا، شاید وہ بولنا بھول چکا ہے، وہ 25 سال سے کسی انسان سے نہیں ملا۔

شاید وہ انسانوں کو بھی بھول چکا ہے۔ سن 1998ء میں ایک ڈاکیومنٹری بناتے ہوئے اس کا مبہم سا چہرہ کیمرے نے ریکارڈ بھی کیا۔

ایمازون میں پاکستان جیسے آٹھ ممالک سما سکتے ہیں۔

پھر 2018ء میں فونائی کے ماہرین نے انتہائی نزدیک سے اس کی ایک ویڈیو فلمائی جو کچھ ہی وقت میں پوری دُنیا بھر میں مشہور ہوگئی۔

ویڈیو میں 50 سالہ ایک نیم برہنہ شخص کو کلہاڑی کی مدد سے درخت کاٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

جنگل کا بیٹا کیا کبھی انسان سے ملے گا ؟

بہرحال دُنیا کے جھمیلوں سے کٹ کر رہنے اور تنہائی کا دُکھ جھیلنے والے اِس شخص کے متعلق فونائی نے اب اعلان کیا ہے کہ مرتے دم تک کسی انسان کو اس سے نہیں ملنے دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیئے :بڑے پیروں والا جن کون ہے ؟

دُنیا سے اتنا عرصہ کٹ کر رہنے کی وجہ سے اِس کا جسم کسی بھی بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت کھو چکا ہے۔ یعنی اب اس کو معمولی سا جرثومہ بھی موت کی وادی میں دھکیل سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برازیل نے اپنے قوانین میں بھی ترامیم کرتے ہوئے جنگلی انسانوں کو تحفظ دینے کی شِق شامل کردی ہے ۔

ایمازون کے ایک بڑے حصے کو اس شخص کے لئے وقف کردیا گیاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تنہا شخص کیا ہماری دنیا کا حصہ بنتا ہے یا یونہی جنگل کا بیٹا بنا بیٹھا رہے گا۔۔

Related Articles

Back to top button