تاریخ کی سب سے مہنگی پارٹی

ستونت کور، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ آج کی تحریر پڑھ کے شاید آپ کو حیرت کا ایسا ہی سکتہ طاری ہوجائے کہ جیسے مجھے یہ سب پہلی مرتبہ جان کے ہوا تھا۔۔۔!!۔۔۔1960 ۔ ایران ایک غریب اور ترقی پذیر ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام اور انارکی کا بھی شکار تھا ۔جہاں پانی ، تعلیم اور طبی سہولیات کا سخت فقدان تھا۔

ان دنوں سربراہِ مملکت مشہور آمر رضا شاہ پہلوی تھا جوکہ پہلوی سلطنت کا آخری بادشاہ تھا۔رضا شاہ ایک لبرل ، ترقی پسند اور مغربی کلچر کا دلدادہ شخص تھا جو کہ ایران کو دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال مغربی ممالک کی صف میں دیکھنا چاہتا تھا۔

اپنے اس ویژن اور کاوش کے سلسلے میں شاہ پوری دنیا کی حکومتوں کی توجہ اور سپورٹ کا خواہاں تھا۔۔۔۔۔لیکن سوال یہ تھا کہ وہ اپنے اس “انقلابی ویژن” کو آخر پوری کی حکومتوں کی نظروں میں کیسے لاتا کہ دنیا نہ صرف اس منصوبہ سے من و عن آگاہ ہوجاتی بلکہ خوشی خوشی شاہ کی سپورٹ کرنے پر بھی راضی ہوجاتی ۔

اس سلسلے میں شاہ کے پاس ایک پلان تھا۔۔۔۔جس کے مطابق وہ “سلطنتِ فارس” کے قیام کی 2500 ویں سالگرہ پر ایک ایسی شاندار بین الاقوامی پارٹی کا انتظام کرکے پوری دنیا کے صدور، وزرا اعظم اور دیگر سربراہان مملکت کو مدعو کرنا چاہتا تھا کہ جیسی پارٹی آج تک نہ کسی نے دیکھی ہو اور نہ سنی ہو۔۔

سائرسِ اعظم کے ہاتھوں سلطنت فارس کے قیام کو 1971 میں پورے 2500 سال مکمل ہورہے تھے ۔ اور شاہ نے یہ پارٹی اسی موقعہ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن۔۔۔سوال یہ تھا کہ اس قدر بڑے پیمانے کی اور اتنی شاندار تقریب کہاں پر منعقد کی جائے ؟

اس وقت میں ایران میں کوئی ایسا بڑا اور شاندار ہوٹل یا کوئی ایونٹ ہال نہ تھا کہ جو اس لیول کی تقریب کے شایان شان ہوتا۔۔چنانچہ۔۔۔کئی آپشنز پر غور کرنے کے بعد شاہ نے یہ فیصلہ کیا کہ “یہ پارٹی صحرائے شیراز کے بیچوں بیچ واقع قدیم سلطنت فارس کے شہر “پرسیپلس” کے متروک شدہ کھنڈرات کے قریب ایک مصنوعی شہر قائم کرکے وہاں پر منعقد کی جائے گی”.سیریسلی۔۔۔۔ایک انتہائی دوردراز کا بےآب و گیاہ ریگستان کہ جہاں موسم دن کو شدید گرم یعنی 40 ڈگری تک ، رات کو شدید سرد 0 ڈگری سے بھی نیچے، نہ وہاں تک آنے جانے کا کوئی راستہ ، نہ وہاں بجلی، نہ پانی اور یہ علاقہ سانپوں ، بچھوؤں اور زہریلے ریگستانی جانوروں سے اٹا پڑا تھا۔۔۔۔اور شاہ اس مقام پر ایک تین روزہ بین الاقوامی تقریب منعقد کرنا چاہتا تھا۔

پر شاہ کا حکم تو بادشاہ کا حکم تھا۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ اس صحرا کے بیچوں بیچ ایک مصنوعی شہر کی تعمیر کے ناقابل یقین حد تک حیران کن منصوبے پر کام 1969 میں ہی شروع ہوگیا۔۔۔۔۔

جنگل میں منگل

سب سے پہلے پرسیپلس کے کھنڈرات کے 30 مربع پر جہازوں کے زریعے زہریلا سپرے کیا گیا۔جس کے بعد اس سارے علاقے سے ایک ٹرک کے برابر سانپوں ، بچھوؤں اور دیگر جانوروں کی لاشیں اٹھا کر وہاں سے ہٹائی گئیں۔اس کے بعد قریب ترین شہر شیراز سے پرسیپلس تک ایک ہائی وے کی تعمیر پر کام شروع کردیا گیا جس کے ذریعے سبھی مہمانوں کو تقریب کے مقام تک پہنچایا جانا تھا۔ساتھ ہی شیراز میں ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر پر بھی کام شروع کردیا گیا ۔ جہاں ناصرف مہمانوں کے طیاروں نے اترنا تھا بلکہ مصنوعی شہر کی تعمیر و تزئین کے لیے سارا ساز وسامان بھی اسی ائیر فیلڈ کے زریعے پہنچا کر یہاں سے گاڑیوں کے زریعے پرسیپلس تک پہنایا جانا تھا۔شیراز تا پرسیپلس ہائی وے پر دونوں اطراف درخت لگائے گئے اور بڑی تعداد میں لائٹنگ کی گئی۔اتنا ہی نہیں۔۔۔شاہ حکومت نے شیراز میں 2 نئے فائیو سٹار ہوٹلز بنام “کروش” اور “دیریوش” تعمیر کروائے . 300 کمروں پر مشتمل ان ہوٹلز میں اصل مہمانوں کے ساتھ آئے کم اہم افراد کو ٹھہرایا جانا تھا۔۔۔۔۔

باغات اور پرندے

پرسیپلس کی بنجر اور بےآب و گیاہ زمین کو ایک خوبصورت و سرسبز قطعہ زمین میں بدل دینے کے لیے شاہ نے بھاری مقدار میں گھاس کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے 15000 خوبصورت درخت اور تقریباً 20 ہزار پھولدار پودے (بالخصوص گلاب) منگوائے تاکہ ان کی مدد سے پرسیپلس کو ایک جنتِ ارضی میں بدلا جاسکے۔۔۔ اور اس کام کی ذمہ داری شاہ نے ورسلز(فرانس) کے ایک مشہور فلورسٹ ‘جارج ٹرو فو” کو دی۔۔اس مصنوعی سبزہ زار کو سجانے کے لیے شاہ نے یورپ سے 50 ہزار سریلے پرندے جیسے کنیری اور 20 ہزار چڑیاں منگوائیں اور انہیں اس مقام پر چھوڑ دیا گی۔ (سب پرندے پارٹی کے بعد چند دن میں ہی پانی کی کمی اور گرمی کے باعث مر گئے).تو اس سبزہ زار کے لیے بھاری مقدار میں پانی کی بھی ضرورت تھی جسے روزانہ شیراز سے سینکڑوں واٹر ٹینکرز کی مدد سے پرسیپلس پہنچایا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیموں کا شہر

مہمانوں کی رہائش کے لیے پرسیپلس میں باغات کے بیچوں بیچ 50 عدد لگژری اور بےمثال حد تک پر آسائش خیمے نصب کیے گئے جنہیں ایک ستارے کی شکل میں 5 لڑیوں میں نصب کیا گیا۔۔۔۔ان کے بیچوں بیچ کئی فواروں سے لیس ایک شاندار ، بڑا تالاب تعمیر کیا گیا۔اس کے علاؤہ خیمہ بستی کے آغاز پر دو انتہائی بڑے اور شاندار ایونٹ ہال تعمیر کیے گئے۔

بات کریں خیموں کی تو ہر خیمہ اپنے آپ میں ایک شاہکار تھا۔ان خیموں کو فرانس کی “میسن جانسین” کمپنی نے پیرس کے قریب ایک ائیر فیلڈ میں تیار کیا گیا جس کے بعد انہیں سینکڑوں پروازوں کے ذریعے ایران منتقل کیا گیا۔ہر خیمے کا سائز ایک 5 مرلے کے مکان جتنا تھا۔دنیا کے مہنگے ترین رنگارنگ ، دلکش فرنیچر ، پردوں، پینٹنگز ، ڈیکوریشن اور قالینوں سے مزین ہر ائیر کنڈیشنڈ خیمے میں 2 بیڈروم ، 2 باتھ روم ، 1 سٹنگ روم اور 1 کچن بمع 24 گھنٹے کُک اور ملازمین کے، موجود تھا۔ہر خیمہ ایک ایک ملک کے مہمانوں کے لیے تھا۔۔۔۔۔

خور و نوش

مہمانوں کی تواضع کے لیے شاہ نے دنیا میں دستیاب سب سے عمدہ اور لذیذ کھانوں اور سب سے مہنگے مشروبات کا انتظام کیا۔اور اس سب کا انتظام شاہ نے اس دور میں دنیا کے سب سے بہترین ریسٹورینٹ “میکسیم” کے ذمہ کیا جس کا تعلق فرانس سے ہے۔میکسیم نے جو سامان کئی پروازوں کے زریعے پرسیپلس منتقل کیا اس میں :18 ٹَن پھل، سبزیاں اور دیگر سامان3 لاکھ 80 ہزار انڈے 2700 کلوگرام بیف، پورک اور دنبے کا گوشت1280 کلوگرام چکن اور مچھلی30 کلو کاویار (مچھلی کے انڈے-دنیا کی سب سے مہنگی غذا)سالم ہرن ، مور اور دیگر جانور 30 ٹن برتن اور کچن کا سامان2500 بوتل شیمپئن 1000 بوتل برگنڈی۔1000 بوتل بورڈو۔اور درجنوں دیگر اقسام کی مہنگی شراب۔۔۔۔۔۔

سکیورٹی

اس دعوت پر پوری دنیا کے سربراہان مملکت نے شرکت کرنی تھی تو ظاہر ہے اس کی سکیورٹی اپنے آپ میں ایک بہت اہم ایشو تھی۔اس مقصد کے لیا شاہ نے 65000 فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو پرسیپلس اور اس تک پہنچنے کے سبھی راستوں پر تعینات کیا۔پارٹی سے کئی ماہ پہلے ہی ایک ملک گیر کریک ڈاؤن میں شاہ نے ہر اس ممکنہ شخص کو گرفتار کروا کے قید کردیا کہ جو شاہ کا مخالف تھا یا شاہ کی حکومت سے معمولی سا بھی اختلاف رکھتا تھا۔پارٹی کے ایام میں تو شاہ نے ایران کی سبھی سرحدی گزر گاہوں تک کو بند کروا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔

تشہیر

اس عالیشان ایونٹ کے لیے شاہ کی حکومت نے ایک سال قبل ہی دنیا کی مشہور میڈیا کمپنیز ، ٹی-وی چینلز ، اخبارات و جرائد اور دیگر ذرائع ابلاغ سے رابطہ کر کے اس ایونٹ کی کوریج کے سلسلے میں کام شروع کردیا۔ایرانی فلم بورڈ نے اس ایونٹ پر ایک باقاعدہ فلم بھی بنانے کا قصد کیا جسے Flames of Persia کا نام دیا گیا۔ایک سال تک یہ اپ کمنگ پارٹی پوری دنیا کے میڈیا پر چھائی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہمان

اب بات کرتے ہیں اس پارٹی کے مہمانوں کی۔

ہیڈز آف سٹیٹ = آسٹریا ، فن لینڈ اور سوئٹزرلینڈ۔

وزرائے اعظم = فرانس، اٹلی، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ۔

صدور مملکت = بلغاریہ ، برازیل ، ترکی ،ہنگری ، چیکو سلواکیہ، انڈونیشیا، پاکستان , لبنان ، انڈیا، جنوبی افریقہ، سینیگال ، زائرے، موریطانیہ، یوگوسلاویہ، رومانیہ۔

گورنر جنرل = کینیڈا ، آسٹریلیا۔

چودہ اکتوبر 1971 کو رضا شاہ پہلوی مہمانوں کے استقبال کے لیے بذات خود شیراز پہنچا ۔مہمانوں کو 200 بلٹ پروف لیموزین گاڑیوں کے ذریعے پرسیپلس پہنچایا گیا۔اس سہ پہر تقریبات کا آغاز ہوا اور شاہ نے سب مہمانوں سے ایک مختصر خطاب کیا جس میں اس نے اپنے ملک کے عظیم ماضی اور پر امید مستقبل کا ذکر کیا۔جس کے بعد سبھی مہمانوں کو ان کے خیموں تک پہنچا دیا گیا۔۔۔۔

دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پورے کرہ ارض سے اتنی بڑی تعداد میں بااثر شخصیات ایک مقام پر اکھٹی ہوئی تھیں۔شام کے وقت مہمانوں کو ایک بڑے ہال میں قائم سوشل کلب سے مستفید ہونے کا موقع دیا گیا۔اس کلب میں ایک استقبالیہ، ایک شراب خانہ ، ایک ریسٹورنٹ اور ایک جوا خانہ شامل تھا۔ساتھ ہی یہاں 20 میک اپ سیلون اور ہیئر ڈریسنگ ، 4 سیلون برائے مرد حضرات بھی قائم کیے گئے تھے۔۔۔جن کے لیے پوری دنیا کے ٹاپ میک اپ آرٹسٹوں اور ہیئرڈریسرز کو بلوایا گیا تھا۔ساتھ ہی ایک بنکر بھی تعمیر کیا گیا جس کا مقصد خواتین کے زیورات و دیگر قیمتی چیزوں کو حفاظت سے رکھنا تھا۔

اس شب رضا شاہ پہلوی نے دوسرے بڑے ہال یعنی بینکوئٹ میں سبھی مہمانوں کو ایک شاندار ڈنر پر جوائن کیا۔۔۔۔اس بینکوئٹ کا ایک ایک انچ دنیا کے سب سے ماہر اور مہنگے پروفیشنل ڈیزائنرز نے تیار کیا تھا۔قیمتی فرنیچر، خوبصورت فانوسوں، اور سونے چاندی کے برتنوں کا تذکرہ نہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی۔ڈائننگ ٹیبل کی لمبائی 70 میٹر تھی۔۔۔۔جس پر بچنے قیمتی کپڑے کو تیار کرنے میں 125 خواتین نے 6 ماہ کام کیا تھا۔

پوری دنیا کی تاریخ میں پہلا اور اب تک کا واحد موقع تھا کہ 6 براعظموں اور بیسیوں ممالک کے سربراہان مملکت ایک جگانے کے میز پر اکھٹے ہوئے تھے۔ان 600 مہمانوں کو دنیا کے سب سے قیمتی اور مزید کھانوں اور دنیا کے سب سے مہنگے مشروبات سے محظوظ کیا گیا۔15 اکتوبر۔۔۔۔ پارٹی کے دوسری دن صبح کے وقت پرسیپلس کے قدیم کھنڈرات پر ایک شاندار شو منعقد کیا گیا جہاں سب مہمانوں کو ایران کی 2500 سالہ تاریخ کے مختلف ادوار کی افواج، لیڈرز ، ہتھیاروں اور کلچر پر مبنی ایک شاندار پریڈ دکھانے کا انتظام کیا گیا۔

اس پریڈ کے لیے 12000 ایرانی فوجیوں کو مختلف ادوار کی ایرانی افواج کی وردیوں ، زرہ بکتر، ہتھیاروں ، عمدہ گھوڑوں اور دیگر چیزوں سے مزین کیا گیا۔ باقی دن مہمان اپنے خیموں میں رہے یا ہالز میں مختلف سرگرمیوں اور سہولیات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔اس رات پرسیپلس کے کھنڈرات پر مہمانوں کے لیے روشنیوں اور آتش بازی کے ایک بےمثال مظاہرے کا انتظام کیا گیا جسے دیکھ کر اتنے بلند مرتبہ مہمان بھی مبہوت ہوکے رہ گئے ۔16 اکتوبر۔۔۔۔ پارٹی کے آخری روز نصف دن تک مہمانوں کو ان کے خیموں یا پھر ہالز میں ایک سے بڑھ کے ایک پرلطف سرگرمیوں، کھیلوں اور کھانوں سے محظوظ ہونے کا موقع دیا گیا ۔اس موقع پر کئی مہمان ایک دوسرے کے خیموں میں بطور مہمان آتے جاتے رہے جوکہ اپنے آپ میں ایک کمال کا ماحول تھا کہ جہاں دنیا بھر سے اہم ترین شخصیات ایک دوسرے کے پڑوس میں بطور ہمسایہ رہائش پذیر تھیں۔دوپہر کو سبھی مہمانوں کو دارالحکومت تہران میں کچھ اہم تقریبات پر مدعو کیا گیا۔اور آخری رات شیرات ٹاور پر آتش بازی کے ایک اور شاندار مظاہرے کے ساتھ پارٹی کا اختتام ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اثرات

ٹائم میگزین کے مطابق اس پارٹی پر 100 ملین ڈالرز کا خرچہ ہوا ۔ جوکہ آج کے دور کے حساب سے کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے۔بلاشبہ یہ پارٹی ایک کامیاب ترین ایونٹ تھا جس نے کچھ ماہ کے لیے ایران اور شاہ کو پوری دنیا کے میڈیا کی زینت بنائے رکھا ۔لیکن پارٹی کے اختتام کے کچھ عرصے بعد ایران سمیت پوری دنیا سے یہ سوال اٹھنے لگے کہ ایک غریب ملک جہاں کی 50٪ سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے جینے پر مجبور ہے اسے 100 ملین ڈالرز ایک ایونٹ پر لگانا کیا زیب دیتا ہے ؟

اس پارٹی کے منفی اثرات نے شاہ کی مقبولیت میں خطرناک حد تک کمی کردی اور اس کی سیاسی ساکھ بہت بری طرح سے مجروح ہوئی۔ساتھ ہی ایران میں شاہ کے خلاف تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ روز پکڑتی چلی گئی اور 1979 میں انقلابِ ایران کے چلتے ، شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔شاہ ایران سے فرار ہوکر مصر پہنچ گیا۔27 جولائی 1980 کو جلا وطنی کے دوران ہی مصر میں ہی شاہ کا انتقال ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ان تین دنوں کے بعد پرسیپلس کا مقام پھر سے متروک اور ویران ہوگیا ۔۔۔ آج وہاں ان خیموں کے محض کچھ زنگ آلود سانچے ہی باقی پڑے رہ گئے ہیں۔