SUPER FEATURE

وادی سندھ کی تہذیب زوال کا شکار کیوں ہوئی ؟

نیلم اعوان ۔ سپر لیڈ نیوز۔ وادی سندھ کی تہذیب سنہ 3300 سے 1700 قبل مسیح تک قائم رہنے والی انسان کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہ وادی سندھ کے میدان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کناروں پر شروع ہوئی۔ اسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہتے ہیں۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ دریائے سواں کے کنارے بھی اس تہذيب کے آثار ملے ہیں۔ اس تہذيب کے باسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے۔ ان کے پاس بیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری وادیٔ سندھ کی تہذیب کے معمار تھے۔
سوتی کپڑا کہ جسے انگریزی میں کاٹن کہتے ہیں وہ انہی کی ایجاد تھی کہ لفظ کاٹن انہی کے لفظ کاتنا سے بنا ہے۔ شکر اور شطرنج دنیا کے لیے اس تہذیب کے انمول تحفے ہیں۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب کی دولت نے ہزاروں سال سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔
خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر بعد کی تحقیقات نے اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار اور سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔

1921ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار مسٹر آر ڈی بنرجی کو موہنجودڑو کی سر زمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائرکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی ۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی ، ڈائرکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔ 1931ء میں فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا۔ اس اثنائ میں محکمہ نے دوسرے مقامات پر اثری تلاش شروع کی ۔ اس میں بڑی کامیابی ہوئی اور پتہ چلا کہ یہ قدیم تہذیب موہنجوداڑو اور ہڑپہ تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا سلسلہ صوبہ سندھ میں چنہودڑو ، جھوکر ، علی مراد اور آمری اور صوبہ پنجاب میں روپر اور بلوچستان میں نال اور کلی کے مقام پر بھی قدیم تہذیب کے آثار موجود ہیں ۔
وادی سندھ سے صرف موجودہ سندھ مراد نہیں بلکہ موجودہ پاکستان، افغانستان کا مشرقی حصہ ، بھارت کا مغربی حصہ وادئ سندھ میں شمار ہوتا ہے۔ وادئ سندھ مغرب میں پاکستانی صوبہ بلوچستان سے لے کر مشرق میں اتر پردیش تک پھیلا ہوا ہے،جبکہ شمال میں افغانستان کے شمال مشرقی حصے سے لے کر جنوب مغرب میں بھارتی ریاست مہراشٹرا تک پھیلی ہوئی تھی۔
ابھی ہم متاخر حجری عہد سے گزرتے ہی سندھ کی وادی میں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے، بستیاں بسنے، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے ۔ اب یک بارگی ہمیں عالی شان شہر دیکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں۔ ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں ۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات وادی سندھ کے وہ آثار جو سب سے زیادہ گہرائی میں ہیں سب سے زیادہ ترقی کا پتہ دیتے ہیں۔ یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے ذوال آتا رہا ۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔
وادی سندھ کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ ماضی میں اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیائ سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور مغربی ایشائی کے تہذیبی عروج و ذوال کا تمتہ تھی ۔ لیکن 1950ء میں ڈاکٹر ایف اے خان نے کوٹ ڈیجی کی کھدائی کی۔ اس سے نئی چیزیں سامنے آئیں اور پرانے تصورات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ کوٹ ڈیجی میں ہڑپہ کے پختہ دور سے بہت پہلے کی مدفون آبادی ملی۔ اس کی تہذیب کے زمانے کا تعین ریڈیو کاربن کے ذریعے کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ آبادی ہڑپہ سے بھی 800 سال پرانی ثقافت ہے ۔ اس کے بعد بے درپے کھدائیاں ہوئیں ۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے ۔ یہ مقامی سماج کے ارتقاء کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانوی اور کم اہم تھے۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے ۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے ۔ اس کا دائرہ اثر شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں ساحل سمندر تک ہے ۔ جہاں یہ بلوچستان کے ساحل سے لے کر کاٹھیاواڑ تک محیط ہے ۔ پرانی کھدائیوں میں اس تہذیب سے وابستہ شہر اور قبضے بیالیس کی تعداد میں تھی ۔ اب اس کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں ڈھونڈی ہیں جن کا تعلق اس تہذیب سے ہے۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا، جھنگ، بٹھیال، وادی سوات میں غالاگئی، وادی گومل میں کے کئی مقامات، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں ۔ بھارت میں دریائے گھگھر (ہاکڑہ) اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان آثار سے پر ہے ۔ اس میں راجپوتانہ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے صوبے شامل ہیں ۔ یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن ، سیسوال ، بانے والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں ۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے شہر تھے۔ ان کے علاوہ چھوٹی بستیاں بہت زیادہ ہیں۔
اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ۔ دوسرا بڑا شہر موہنجوداڑو تھا ۔ بعد میں اب گنویری والا ملا ہے۔ جو ہڑپہ سے بڑا شہر ہے لیکن ماہرین زیادہ اہمیت ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو دی۔
بڑے شہروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ آبادی وسیع تھی ۔ شہروں میں تو تھی ہی، دیہات میں بھی بہت تھی ۔ جو وافر مقدار میں اجناس ۔۔۔ اپنی مقامی ضرورتوں سے زائد ۔۔۔ پیدا کر رہی تھی کہ یہ اجناس شہروں کو بھیجی جاسکیں ۔ ملک کے طول و عرض میں پختہ اینٹوں کا کثرت سے استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ وسیع جنگلات تھے ۔ برتن اور مہروں پر جانوروں کی شکلیں اور دفینوں پر ان کی ہڈیاں جانوروں کی کثرت سے موجودگی اور دوسرے لفظوں میں جنگلوں کی کثرت کا ثبوت ہیں ۔ جانوروں میں گینڈے، شیر، دریائی بھینس اور ہاتھی کثیر تھے ۔ ریچھ کی بعض نسلیں، بندر گلہری اور طوطا بھی ملا ہے۔ بارہ سنگھا اور ہرن بھی ملے ہیں۔
اس تہذہب کے نمایاں شہر موہنجوداڑو، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو، ستکگن دڑو، بالاکوٹ، سوتکا کوہ ، ٹوچی، مزینہ دمب، سیاہ دمب، جھائی، علی مراد، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں۔
مادی ثقافت کی جملہ تفصیلات میں سارا وسیع و عریض علاقہ ۔۔۔ جسے اب ماہرین آثار عظیم تر وادی سندھ کہتے ہیں ۔۔ ۔ آپس میں مکمل یکسانیت رکھتا ہے ۔ مٹی کے برتن ہر جگہ ایک جیسے ہی ہیں ۔ جو تھوک پیداوار کا نتیجہ ہیں ، مکانات طے شدہ معیاری نقشوں پر بنے ہیں اور پختہ اینٹوں کے ہیں ۔ مہریں ایک طرح کے کھدے ہوئے مناظر سے مزین ہیں اور رسم الخط سب جگہ ایک ہی ہے ۔ اوزان اور پیمائش کا ایک ہی معیاری نظام ہر جگہ رائج ہے ۔
ماہرین عموماً وادی سندھ کی تہذیب کے لیے سلطنت کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ لیکن شاید پگٹ اور ویلر نے سرسری طور پر انڈس ایمپائر کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ جب کہ اکثر ماہرین کا رجحان یہ ہے اسے ایک سلطنت نہیں سمجھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بعض بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کی کوئی دوسری تشریح ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ۔ وادی سندھ کی صنعتی پیداوار کی زبردست یکسانیت اس خیال کی گنجائش ضرور پیدا کرتی ہے کہ ایک طاقت ور مرکزی حکومت موجود تھی ۔ جو سارے علاقے کو کنٹرول کررہی تھی ۔ اس کے علاوہ پیداوار اور تقسیم کا ایک مربوط ایک مسوط سلسلہ تھا جس کو وہ کنٹرول کرتی تھی ۔ اس کا یقینا ایک محصول چونگی اور شاہرہوں کی حفاظت کامربوط نظام تھا ۔ ہڑپہ اور موہنجو دڑو ہم عصر شہر تھے ، جو یقناً جڑواں دالحکومت تھے ۔ ان دونوں شہروں کے اندر بلند و بالا قلعے تھے ۔ جو باقی ماندہ آبادی پر غالب نظر آتے تھے۔ اس لئے قیاس آرئی کی گنجائش تھی کہ یہ مرکزی حکومت کے دالحکومت تھے۔
ملک کے طول و عرض میں مصنوعات اور دستکاریوں کی زبردست یکسانیت صرف مرکزی حکومت کے سخت قوانین کا نتیجہ نہ تھی ، بلکہ سماج کے تجارتی قوانین بھی ۔۔۔ جنہیں مذہبی رنگ حاصل تھا ۔۔۔ یقینا بہت سخت ہوں گے ۔ جن پر حروف بحروف عمل ہوتا تھا ۔ ہر علاقے میں اوزان کا یکساں تھے ۔ کانسی کی کلہاڑی کی بناوٹ اور بھالے کی شکل ایک سی تھی ۔ اینٹوں کا سائز ، مکانوں کا نقشہ ، بڑی گلیوں کی ترتیب ، الغرض پورے شہر کی ٹاون پلانگ ایک سی تھی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ صدیوں تک پرانی عمارتوں پر نئی عمارتیں ہو بہو ویسی کی ویسی بنتی رہیں ۔ ایک گھر کی خارجی چار دیواری کئی صدیوں تک نہیں بدلی تھی ۔ اس کا مطلب ہے حکمران اور محکوم دونوں طبقات تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے ۔ کاریگر لوگ ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے نسل درنسل ایک ہی کام کرتے چلے آرہے تھے اور کچھ ایسا ہی حال اونچے طبقات کا تھا ۔
وادی سندھ کی یکسانیت زمان اور مکان میں ایک جیسی شدت تھی ۔ ایک طرف یہ بلوچستان سے لے کر پنجاب اور خیبر پختوںخوا تک یکساں ہے ۔ دوسری طرف تیرہ سو سال کے عرصے پر محیط جب تک یہ تہذیب زندہ رہی اس کی تفصیلات میں فرق نہیں آیا ۔
موہنجوداڑو میں کل نو رہائشی پرتیں نکالی گئیں۔ ان میں کئی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ لیکن ان متفرق ادوار کی مادی ثقافت میں زرا فرق نہیں ملتا۔ نہ زبان بدلی ہے نہ رسم و الخط۔ ایک ایسی زمین پر جس میں زبان نے متعدد شکلیں اختیار کی ہیں اور رسم الخط بار بار یکسر تبدیل ہوا ہے اس میں ایک ہی رسم الخط کا تسلسل اس کے ٹہراؤ کا بڑ ثبوت ہے ۔
ایک طرف تو ان کے عکاد اور سومیر سے تعلقات تھے ۔ دوسری طرف تیرہ سو سال تک انہوں نے عکاد اور سومیر سے بدلتے ہوئے صنعتی طریقوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس مطلب ہے کہ ٹہراؤ کی وجوہات اندرونی اور بہت مضبوط تھیں اور بیرونی اثرات کمزور تھے ۔
کوسمبی مزید کہتا ہے کہ اس تہذیب میں پھیلاؤ کا فقدان تھا ۔ یعنی دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے شہر آباد تھے۔ باقی تمام آبادی چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل تھی اور یہ تہذیب وادی گنگ و جمن اور خاکنائے دکن کی طرف نہیں گئی ۔
وادی سندھ کی تہذیب کا اختتام کس طرح ہوا ؟ کیسے وہ شہر تباہ ہوگئے ، وہ فنون نہ رہے ، دستکاریاں اور صنعت و حرفت ختم ہوگئی ۔ وہ تحریر صفحۂ ہستی سے مٹ گئی اور اس تہذیب کا تزکرہ تک کہیں باقی نہ رہا ۔ ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان شہروں کے لوگ کہاں چلے گئے ۔ اس سلسلے پر ماہرین آثار اور قبل مورخین ابھی کسی ایک حتمی نظریہ پر متفق نہ ہوسکے ۔ لیکن اب عمومی رجحان یہی ہے کہ اس تہذیب کی تباہی چند اندرونی اور بیرونی اسباب سے ہوئی ۔ اندورنی اسباب میں قدرتی عوامل بھی شامل تھے ۔
پرانا مقبول عام نظریہ یہ کہ آریاؤں نے اس تہذیب کو تباہ کیا ۔ اب صرف اس حد تک تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی تباہی میں ایک عنصر آریا قبائل کے حملے تھے ۔
موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح زوال پزیر ہوا ۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست تھا ۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے ۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دارلحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا ۔
اس غربت کی وجہ کھیتوں کی زرخیزی میں کمی یا آبپاشی کے نظام کا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجانا تھا یا اینٹوں اور برتنوں کے بھٹیوں میں جلانے کے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ختم کردینا سمجھا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی ہوگئی ۔ لیکن موہنجودڑو کی کھدائی شدہ سطحوں میں کم از کم تین سیلابوں کا ثبوت ملا ہے ۔ جس سے شہر بالکل تباہ ہوگیا ۔ ہوسکتا ہے ایسی تباہی نچلے حصہ میں بھی آئی ہو ۔ ان سیلابوں نے جو مٹی بجھائی ہے اس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مٹی ٹہرے ہوئے پانی کی ہے ، بہتے ہوئے پانی کی نہیں ۔ جس کا مطلب ہے دریا کے نچلے حصے کی زمین ارضیاتی تبدیلوں سے اوپر اٹھی دریا نے واپس حملہ کیا اور شہر غرق ہوگیا ۔ ڈاکٹر ڈیلز کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ساحل ایک زندہ ارضیاتی علاقہ ہے ۔ جہاں ہزاروں سالوں میں زمین اوپر اٹھتی رہی ہے ۔ اس وجہ سے پرانے ساحلی شہر موجودہ ساحل کئی میل دور ہیں ۔ دوسرے ماہرین ارضیات نے بھی ایسے نتائج نکالے ہیں ۔
یہ طہ شدہ ہے کہ بار بار کے سیلابوں نے تباہی مچائی اور یہ ایک عنصر تھا ۔ لیکن تہذیب کی حتمی تباہی کسی عظیم طوفان نوح کی وجہ سے نہیں تھی ۔ بلکہ بار بار کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بتدریح تھی ۔
کچھ شواہد حملے اور قتل عام کے بھی ملتے ہیں ۔ چھ جگہوں سے لاشیں ملی ہیں ۔ جن میں پانچ جگہوں پر متعدد آدمی یکجا مرے اور ایک جگہ ایک اکیلا آدمی ملا ہے ۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :
ایک عوامی کنواں ایک کمرے میں واقع ہے ۔ برابر کی گلی سے اونچی ہے اور گلی میں سے سیڑھیاں اس کنویں کے کمرے میں اترتی ہیں ۔ ان سیڑھیوں پر دو آدمی مرے پڑے ہیں ۔ ایک عورت اور ایک ان میں سے ایک الٹا گرا ہے ۔ دو لاشیں گلی میں پڑی ہیں ۔ یہ شہر کے آخر زمانے کے لوگ تھے ۔ ایک لاش کمرے کے پختہ فرش پر پڑی تھی دوسری پختہ کمرے میں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کنواں اس وقت زیر استعمال تھا اور اسی وقت یہ لوگ مر کر گرے ہیں ۔ ان کے ڈھانچے مدفون حالت میں نہیں پائے گئے ہیں ۔
ایک گھر میں چودہ ڈھانچے ملے ہیں تیرہ مرد ایک عورت اور ایک بچہ ۔ ان میں سے کسی نے گنگن پہن رکھے تھے ، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار ۔ یہ لوگ یقینا ایک ہی حملے میں قتل ہوئے ہیں ۔ ایک آدمی کی کھوپڑی میں 142 ملی میٹر لمبا کٹاؤ ہے ۔ جو یقینا تلوار یا خنجر کا زخم ہے ۔ بعض دوسری کھوپڑیوں پر تشدد کے آثار ہیں ۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ لاشیں شہر کی آخری تباہی کے وقت کی ہیں ۔ ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز میں 1946 میں موہنجودڑو کی کھدائی میں پانچ ڈھانچے ڈھونڈے جو چاروں شانے چت پڑے تھے ۔ یہ گلی کے ایک کونے سے ملے ہیں ۔ ویلر کا خیال ہے شاید یہ لوگ حملے کے وقت چھپے ہوئے کھڑے تھے ۔ ان میں تین مرد ، ایک عورت اور ایک بچہ ہے ۔ ان کا زمانے بھی موہنجودڑو کا آخری زمانہ تھا ۔
ایک گلی میں چھ ڈھانچے ان میں ایک بچہ ملا ہے ۔
ایک گلی میں ایک ڈھانچہ ملا ہے ۔
ایک جگہ نو ڈھانچے ملے ہیں جو مڑے تڑے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کسی نے جلدی میں نو لاشیں گڑھے میں ڈال دی ہیں ۔ مگر ان کے پاس ہاتھی کے دو بڑے دانت ملے ہیں ۔ اس کا مطب ہے یہ ہاتھی کے دانت کا کام کرنے والا کنبہ تھا ۔ جو جلدی میں بھاگ رہا تھا کہ قتل ہوگیا اور کسی نے انہیں گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی ۔ یہ واحد شعوری طور پر دفن کئے گئے ہیں ۔ یہ بھی شہر کا آخری زمانہ ہے ۔
کل اڑتیس لاشیں اس افراتفری کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں قتل عام ہوا تھا ۔ قلعہ لاشوں سے پاک ہے ۔ ویلر کا خیال ظاہر کیا ہے فاتحین نے لاشیں قلعہ سے باہر دور پھینکی ہوں گی ۔ تاکہ وہاں کچھ سے عرصہ تک رہے سکیں ۔ شہر میں آگ لگائی ہوگی ۔
ویلر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں بلکہ اس کے وسط میں یعنی 1500 قبل مسیح میں آریاؤں نے حملہ کرکے اس شہر کو تاراج کیا ہوگا ۔ رگ وید میں ہے انہوں نے قلعہ بند شہروں (پور) کو تباہ کیا ایک شہر کو وسیع (پرتھوی) کیا اور چوڑا (اروی) کیا ۔ ایک جگہ سو دیواروں والے قلعے کو فتح کا ذکر ہے ۔ آریاؤں نے اپنے دیوتا اندر کو قلعے تباہ کرنے والا ’ پورم ور ‘ بھی کہا ہے ۔ جو دیوداس کے نوے قلعوں کو تباہ کرتا ہے ۔ ایک اور جگہ مقامی دیوتا ’ شام پرا ‘ (شام بھرا) کے نوے قلعے تباہ کرتا ہے ۔ وہ قلعوں کو اس طرح نیست و نابود کرتا ہے جس طرح آگ کپڑے کو کھا جاتی ہے ۔
ان سیکڑوں قلعوں کے کچھ ثبوت آثار قدیمہ کی مدد سے پاکستان کے طول و عرض میں مل چکے ہیں ۔ ان قلعوں کی تباہی کو زمانہ وہی ہے جو رگ وید کے گیتوں میں تباہ ہونے والے قلوں کا ہے ۔ ویلر کہتا ہے کہ سندھ کی تہذیب آریاؤں کے آنے کے تھوڑا عرصہ پہلے تباہ ہوگئی تو بے شمار قلعے اس مختصر سے عرصے میں کس نے بنادیئے ، جن کو آریاؤں نے تباہ کیا ۔ لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ زوال آمادہ تہذیب سندھ 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی ۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حثیت رکھتا ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ایک مرتکز اور منظم ریاست اور سلطنت کی پیداوار تھی ۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت اس وسیع و عریض علاقے میں یکسانی اوزان ، پیمانے ، مہریں ، ظروف ، آلات پیداوار ، رسم الخط ، فن تعمیر اور ٹاون پلاننگ ہے ۔ بغیر ایک ریاست کے اور ایک مرکزی حکومت کے اتنی سختی سے ان چیزوں کا نفاذ دور دور علاقوں میں ناممکن ہے ۔ یہ ہر گز رضاکارانہ یا خود رو یا اتفاقیہ نہیں ۔ قانون کی سخت گیری کے تحت جنم لے سکتی ہے ۔
سماج غلام داری تھا جس میں حکمران طبقات کا پس منظر رکھنے والے لوگوں کے گروہ یا قبائل تھے ۔ ہوسکتا ہے یہ ایک ہی قبیلہ یا گروہ یا برادری ہو ۔ ان کا حکومت کرنے کا جواز ان کی مذہبی قیادت میں تھا ۔ وہ مذہبی سربراہ بھی تھے ۔ چونکہ قدیم مذہبی سربراہ معاشرے کا بینکار ہوتا تھا ۔ جو زائد پیداوار کو نذرانوں کی شکل میں وصول کے جمع کرتا تھا ۔ اس لئے اس کا قدرتی اتحاد تاجروں سے ہوا ۔ گویا حکمران طبقات مذہبی پرہتوں اور تاجروں پر مشتمل تھا ۔ یہ آزاد شہری تھے ۔ دوسری طرف کسان اور دستکار غلام طبقات کی حثیت رکھتے تھے ۔ گنکوفسکی کا کہنا ہے کہ سندھ تہذیب ابتدائی غلامی کے معاشرے کی تہذیب تھی ۔
کوئی تہذیب اس وقت تک جنم لے نہیں سکتی جب تک پہلے سماج نہایت واضح طبقات میں تقسیم نہ ہوچکا ہو ۔ لہذا وادی سندھ کے طبقاتی ڈھانچے کو سمجھنے کے لئے پیداوری ڈھانچے کو سمجھنا ضروری ہے ۔ کوسامبی نے بڑے اناج گھر کے ساتھ بڑی چکیوں اور پاس ہی غلاموں کی رہائش کا حوالہ دے کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غلام مندروں کے غلام تھے ۔ اگر ایسا ہے تو مذہب کا ادارہ پیداواری ڈھانچے میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا ۔ تجارت اور ذرائع آمد و رفت کو بھی منظم کرتا تھا ۔
عام لوگ تو اپنے گھروں میں مخصوص کھرل میں موسل سے آٹا پیستے تھے ۔ لیکن حکمران طبقات اور ریاستی اداروں مثلاً فوج اور حاکم خاندانوں کے لئے تھوک آٹا پیسا جاتا تھا ۔ برتنوں اور اینٹوں کی تھوک پیداوار ہوتی تھی ۔ تعمیر کے کام میں لوگوں کی بھاری تعداد مصروف رکھی جاتی تھی ۔ صنعت و حرفت اور دستکاریوں کی پیداوار تھوک کے حساب سے ہوتی تھی ۔ تھوک پیداوار اور شہر کا لازم و ملزوم کا رشتہ تھا ۔ دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار تھا ۔ صرف یہی نہیں زراعت بھی مختصر اور نجی اور انفرادی نہیں تھی بلکہ تھوک کے حساب سے تھی ۔
اس ابتدائی معاشرے میں استحصال کا سب سے بڑا بوجھ زراعت پر تھا اور اس کے بعد دستکاری اور صنعت و حرفت پر ۔ شہری دستکار غلاموں کی حالت دیہی زرعی غلاموں سے ضرور بہتر ہوگی ۔ غلاموں کی اکثریت بہرحال کسان ہوگی ۔ یہی وجہ ہے بڑے بڑے قلعہ بند شہر بنے ۔ جن میں مذہبی پیشواؤں اور تاجروں نے رہاہش اختیار کی ۔ ان کی خڈمت کے لئے دستکار غلام شہر میں رہتے تھے ۔ اناج کے ذخائر حکومت کے قبضے میں تھے اور انفرادی گھروں میں غلے کا ذخیرہ نہیں پایا گیا ۔ جس کا مطلب ہے کوئی امیر زمیندار شہروں میں نہیں تھے ۔ دوسرے لفظوں میں زمین بادشہ (پروہت) کی ملکیت تھی ، انفرادی ملکیت میں نہ تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے موسمی تبدیلیوں کے علاوہ آبادی میں زبردست اضافہ ہوگیا ۔ جب کہ کاشکاری کے لئے مزید زمینیں حاصل نہیں کی جاسکیں یا مزید جنگل صاف نہیں کئے جاسکے اور جو پیداواری ڈھانچہ موجود تھا وہ پورے سماج کی کفالت کرنے سے قاصر رہنے لگا ۔ ان حالات میں استحصال برداشت سے باہر ہوگیا اور کسان بغاوتیں ہونے لگیں ۔ تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملے اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات ہے ۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کردیا ۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی ۔ غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کردیا ۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کئے ۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے ۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے ۔ مقامی غلام تھے ۔ یہی وجہ ہے سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی ۔ یہ صورت حال تھی جب آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔
جب سلطنت منتشر ہوئی تو مذہبی لوگوں کے ساتھ تاجروں کا اقتدار ختم ہوگیا ۔ شہری دستکار بھی تباہ و برباد ہوگئے ۔ آریا تجارت کو منظم کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے ۔ مقامی زراعت پیشہ لوگوں کی ثقافت دیہی پسماندہ ، تنگ نظر اور کھردری تھی ۔ یہ لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے ۔ خواہ ایک جگہ آبادی بہت زیادہ بھی ہوگی ، مگر اس آبادی شکل ایک گاؤں کی شکل کی تھی ۔ سیاسی اقتدار وسیع علاقے پر پھیلا اور مرتکز نہ تھا ۔ ریاست بکھر چکی تھی ۔ پہلے حکمرانوں کی وفاداری تجارت و دستکاری اور گلہ بانی سے تھی ۔ لہذا وسیع علاقوں میں اقتدار کا توازن رکھ کر انہیں یکجا رکھ سکتے تھے ۔ کاشتکاروں کی وفاداری زمین سے تھی وہ وسعت خیال کے عادی نہیں تھے ۔ جب ریاست کا انہدام ہوا تو سلطنت چھوٹے ٹکروں میں بٹ گئی ۔ شاید کئی سو یا اس سے بھی زیادہ خود مختیار حکومتیں بن گئیں ۔ اس کے ساتھ ان کا رسم الخط ، اوزان ، پیمانے ، مہریں اور دیگر چیزیں جو مرکزی حکومت کے تحت تھیں یکسر ختم ہوگیں ۔ اس طرح کہ گویا کبھی تھی ہی نہیں یا جیسے کوئی دوسری قوم آکر بس گئی ہو ۔ حلانکہ ایسا نہ تھا صرف مقامی ڈھانچہ تباہ ہوا تھا اور اس کے ساتھ ان کا استحصالی نظام بھی تباہ ہوگیا تھا ۔ جو انہی اوزان ، پیمانوں ، رسم الخط اور شہری انتظامیہ اور رسد اور حمل وغیرہ پر مشتمل تھا ۔
آریاؤں کا اپنا کوئی رسم الخط نہ تھا ، نہ فن تعمیر تھا ، نہ انہوں نے دوبارہ قابل ذکر تعمیرات کیں ۔ اس کا مطلب تھا کہ نہ صرف انہوں نے شہروں کو تباہ کیا بلکہ پیداوار کے پورے نظام ۔۔۔ شہری اور زرعی ۔۔۔ تمام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ رگ وید میں بھی ہے کہ اندر ندیوں کو ورتر شیطان سے آزاد کردیا ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آریاؤں نے وادی سندھ کے سیکڑوں بند یا گبر بند توڑے اور رکے ہوئے پانیوں کو آزاد کرایا ۔۔۔ ورتر کسی شیطان کا نام نہیں بلکہ بند یا رکاوٹ کا نام ہے ۔ رگ وید میں ہے کہ ’ ورتر سانپ کی طرح ڈھلوان پر لیٹا تھا ۔ دریا اپنی جگہ جامد ( تستا بھانا ) تھے ۔ جب اندر نے اپنا وجر ) دھجیاں اڑانے والا ہتھیار شیطان پر مارا تو زمین بل کھا گئی ۔ پتھر رتھ کے پہیوں کی طرح لڑھکے ۔ رکے ہوئے پانی شیطان کے لیٹے بدن پر سے بہنے لگے ۔ ( رگ وید 8۔4 ، 19۔4 اور 3 ، 15۔2 ) سوال پیدا ہوتا ہے آریاؤں کو کیا پڑی تھی کہ ان بندوں کو توڑتے ۔ اس کے جواب کے لئے کوئی مواد ہمارے پاس نہیں ہے ۔ لیکن وادی سندھ کی معیشت کی بنیاد زراعت پر تھی اور آبپاشی کا انحصار ان بندوں پر تھا ۔ اس معیشت پر کنٹرول مذہب کے ذریعے تھا ۔ چھوٹے مذہبی پیشوا یقینا دریاؤں کے کناروں ، ندیوں کے کنارے اور بندوں کے کنارے کٹیاؤں میں رہتے ہوں گے ۔ اس طرح یہ سیاسی اقتدار کی علامت بن گئے تھے ۔ جن کو مخالف تاراج کرتے رہتے تھے ۔
وادی سندھ کے لوگوں کے پاس کلہاڑی بغیر سوراخ اور اس لئے بغیر دستے کے تھی ۔اس کے پاس پسلی دار بھالے نہ تھے ۔ تلواریں نہ تھیں ۔ نہر ، ہل ، مٹی کی تختیاں جن پر طویل تحریر کندہ کرتے تھے نہ تھیں ۔

حوالہ جات
یحیٰی امجد ۔ تاریخ پاکستان قدیم دور
پروفیسر محمد مجیب ۔ تاریخ تمذن ہند
ٹی ایچ ۔ سورلے گزیٹیر سندھ
ڈاکٹر معین الدین ، قدیم مشرق جلد دؤم
ڈی ڈی کوسمبی ۔ قدیم ہندوستان

Related Articles

Back to top button