میری کیوری کی تابکاری کے ہولناک نتائج

محمد کیف ۔ دی سپر لیڈ ڈاٹ کام

میری کیوری: نوبیل انعام یافتہ خاتون سائنسدان جن کی نوٹ بکس کو آئندہ ڈیڑھ صدی تک بغیر حفاظتی اقدامات کے نہیں چھوا جا سکتا۔ فرانس کی قومی لائبریری میں سیسے کی کئی تہوں سے بنے ہوئے خصوصی ڈبوں میں سائنسی تاریخ کی اہم ترین دستاویزات محفوظ رکھی گئی ہیں۔

اگر کوئی سائنسدان ان دستاویزات سے استفادہ کرنا چاہے تو وہ صرف خلابازوں کی طرح کے بھاری بھرکم حفاظتی سوٹ پہن کر ہی اُن کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔مگر اس مطالعے سے قبل اُنھیں ایک خصوصی دستاویز پر دستخط کرنے ہوتے ہیں کہ لائبریری اُن کے ساتھ پیش آئی کسی بھی صورتحال کی ذمہ دار نہیں ہو گی ۔ دنیا کی قدیم ترین اور نایاب ترین کتابوں کی حامل اس لائبریری میں سب سے محفوظ طریقے سے رکھی گئی یہی دستاویزات ہیں۔مگر جس وجہ سے اُنھیں مشکوک انداز میں اتنی حفاظت سے رکھا گیا ہے اس کی وجوہات درحقیقت ان دستاویزات کی سائنسی اہمیت سے زیادہ اہم ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہ کاغذات انتہائی تابکار مادے سے آلودہ ہیں۔یہ میری کیوری کی نوٹ بکس ہیں، دو مرتبہ نوبیل انعام جیتنے والی واحد خاتون، جنھوں نے اپنے شوہر پیغ کے ساتھ مل کر نہ صرف نئے کیمیائی عناصر دریافت کیے بلکہ اٹامک فزکس اور تابکاری کے قدرتی اُصولوں سے بھی پردہ اٹھایا۔اس جوڑے کے قریب جو بھی چیزیں تھیں، ان سب کی طرح یہ دستاویزات بھی انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر میری کیوری کا ایک پورٹریٹ ، فوٹو کریڈٹ : گیٹی امیجز

میری کیوری اور ان کے شوہر نے نے ریڈیئم اور پولونیئم دریافت کیا تھا۔ یہ نام پولینڈ کے نام پر جہاں سات نومبر 1867 کو میری کی پیدائش ہوئی تھی رکھا گیا تھا۔ مگر سائنسدانوں کو اس وقت تک یہ بالکل بھی علم نہیں تھا کہ تابکاری کے انسانی جسم پر کیا منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔درحقیقت میری کیوری سنہ 1934 میں اے پلاسٹک اینیمیا نامی بیماری کے باعث ہلاک ہو گئیں تھیں جو ممکنہ طور پر ریڈیئم اور پولونیئم سے باقاعدگی سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے اُنھیں لاحق ہوئی۔ میری کیوری اکثر اپنی جیبوں میں یہ مواد لیے گھومتی تھیں۔

ان سے منسلک ہر چیز جو اب بھی سلامت باقی رہ گئی ہے، اسے انتہائی احتیاط سے سیسے کے ڈبوں میں رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کی اپنی لاش بھی، جو پیرس کے مشہور افراد کے لیے مختص قبرستان ’پینتھیونز آف پیرس‘ میں ہے۔ میری کیوری اس قبرستان میں دفن ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔جب اُن کی میت کو وہاں لے جایا گیا تو سیسے کا ایک انچ موٹا تابوت بنایا گیا تاکہ ’جدید فزکس کی ماں‘ کے جسم سے نکلنے والی تابکاری کو ماحول آلودہ کرنے سے روکا جا سکے۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، اور نوٹ بکس بھی کم از کم اگلے 1500 سالوں تک غیر محفوظ رہیں گی کیونکہ میری کیوری کے دریافت کردہ اور دنیا کو بدل دینے والے عنصر ریڈیئم کے اثرات کو ختم ہونے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے۔

خطرناک گھر

پیرس کے جنوب میں واقع ایک رہائشی علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت ہے جس میں داخل ہونا منع ہے۔خاردار تاروں سے بھری ہوئی ایک بلند حفاظتی دیوار اس گھر میں داخل ہونا ناممکن بناتی ہے۔ چاروں طرف کیمروں کے ذریعے مسلسل نظر رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی یہاں داخل ہونے کی کوشش نہ کرے جبکہ حکومت وقتاً فوقتاً عجیب و غریب آلات کے ذریعے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے۔ مگر یہ گھر خالی ہے۔ یہ وہ آخری تجربہ گاہ ہے جہاں میری کیوری نے سنہ 1934 تک کام کیا۔میری کیوری کے یہاں کیے گئے سائنسی تجربات نے اس جگہ کو ایسی تابکاری سے آلودہ کر دیا ہے جو اگلی کئی صدیوں تک اسے زندگی کے لیے غیر محفوظ بنائے رکھے گی۔

میری کیوری کی وفات کے بعد بڑھتی تابکاری کا انکشاف

جب میری کیوری کی وفات کے کئی برس بعد یہاں تابکاری کی بلند سطح پائی گئی تو اسے ’دریائے سایین کا چرنوبل‘ قرار دیا گیا تھا۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر تابکاری پائے جانے سے قبل میری کیوری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی خاطر یہ جگہ انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر فزکس کے ہیڈکوارٹرز اور پیرس یونیورسٹی کی فیکلٹی آف سائنس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔بعد میں پایا گیا کہ تابکاری اس گھر کی دیواروں، قالینوں، فرش، چھتوں اور وال پیپرز تک میں موجود ہے اور اس کی سطح انسانوں کے لیے غیر محفوظ حد تک بلند ہے۔یہیں پر میری کیوری اپنی زندگی کے آخر تک کسی حفاظتی اقدام کے بغیر دنیا کے سب سے ضرر رساں مادوں مثلاً تھوریئم، یورینیئم اور پولونیئم وغیرہ پر کام کرتی رہیں۔

اُنھوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھا کہ اُنھیں رات کے وقت ان مادوں سے نکلتے ہوئے سبز و نیلے رنگ کے جھماکوں کو دیکھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ ان تابکار مادوں پر کام کرتے ہوئے وہ ان کے بارے میں اپنی نوٹ بکس میں لکھتیں اور خاکے بناتیں، اور یوں یہ سب چیزیں تابکار مادوں سے آلودہ ہو گئیں ۔اُن کی وفات کے کئی برس بعد امریکہ سنہ 1938 میں ان مادوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرنے والا پہلا ملک بنا جس کے بعد دوسرے ممالک نے بھی امریکہ کی پیروی کی۔اس سے کئی صنعتوں کو نقصان پہنچا کیونکہ میری کیوری کی دریافتوں اور اُنھیں ملنے والے ایوارڈز کے بعد تابکار مادے اتنے مقبول ہو گئے تھے کہ اُنھیں چہرے کی کریمز، اُسترے اور یہاں تک کہ زیر جامہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ خیال کیا جاتا کہ یہ مادے بال گرنا روک سکتے ہیں اور مردانہ بانجھ پن کا علاج کر سکتے ہیں۔

اسّی کی دہائی تک اُن کے لیبارٹری خالی نہیں کروائی گئی تھی مگر اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق پھر متعدد پڑوسیوں نے اپنے علاقے میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی شکایت کی۔

ایک جائزے میں نہ صرف ریڈیئم بلکہ یورینیئم کے بھی ذرات پائے گئے جنھیں بکھر کر نصف ہونے میں ساڑھے چار ارب سال لگتے ہیں۔ اس کے بعد قومی ورثہ تصور کی جانے والی میری کیوری کی اشیا بشمول اُن کی نوٹ بکس کو قومی لائبریری منتقل کر دیا گیا۔نوّے کی دہائی میں اُن کی لیبارٹری کی ایک مرتبہ پھر گہرائی سے صفائی کی گئی مگر اب بھی فرانسیسی حکام نے یہاں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور وقتاً فوقتاً آس پاس کے علاقوں بشمول دریا میں تابکاری کی سطح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اندازہ ہے کہ فرانس اب تک اس جگہ کی صفائی پر ایک کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے اور جب آنے والے برسوں میں یہ جگہ منہدم ہو جائے گی تو اس پر مزید اخراجات متوقع ہیں۔تاہم یہ نوٹ بکس اگلے ڈیڑھ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک سیسے کے صندوقوں میں بند رہیں گی، اس اُمید کہ ساتھ کہ مستقبل کے انسان بغیر کسی حفاظتی سوٹ کے انسانی تاریخ کی ذہین ترین خاتون کی نوٹ بکس اپنے ہاتھوں میں لے سکیں گے۔