مسعود مفتی کی گواہی .. ہم زندہ لوگوں سے محبت نہیں کرتے۔ جب کوئی زندہ نہیں رہتا تو پھر ہم اُس کی عظمت کے گُن گانے لگتے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں ایسے کئی لوگ ہم سے بچھڑ گئے جو زندہ تھے تو عظیم قرار نہ پا سکے۔ اِدھر فوت ہوئے اُدھر اُن کے دشمنوں نے بھی اُنہیں فٹا فٹ ایک عظیم انسان قرار دے ڈالا۔ پچھلے کالم میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سینئر نائب صدر ارشد وحید چوہدری کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہار کیا۔
اس کالم میں سلیم عاصمی، سعود ساحر، مسعود مفتی اور قاضی جاوید کا بھی ذکر کرنا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کہ خانہ پُری نہ کی جائے، ان شخصیات پر بعد میں تفصیل سے لکھا جائے تو بہتر ہو گا۔ سلیم عاصمی اور سعود ساحر نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے کے شدید مخالف تھے لیکن دونوں نے ہمیشہ آزادی صحافت کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سعود ساحر صاحب سے زیادہ ملاقات پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کی پریس گیلری میں ہوتی تھی۔ وہ پاکستانی سیاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود جب تک ممکن رہا متحرک رہے اور رزق حلال کماتے رہے۔ صحافی تنظیموں کو سلیم عاصمی، سعود ساحر اور ارشد وحید چوہدری کی یاد میں ایک ریفرنس کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے۔ مسعود مفتی صحافی نہیں بلکہ ادیب تھے۔
کشور ناہید صاحبہ کے کالم سے نوجوانوں کو پتہ چل گیا ہو گا کہ مسعود مفتی 1971ء میں بھارت کے جنگی قیدی بن گئے تھے۔ جب پاکستان ٹوٹا تو وہ مشرقی پاکستان میں سیکرٹری تعلیم تھے۔ 16؍ دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا تو بہت سے سویلین افسران کی طرح وہ بھی جنگی قیدی بن گئے۔ قید سے واپس آئے تو اُنہوں نے 1974ء میں ایک کتاب ’’چہرے‘‘ کے نام سے لکھی جو دراصل قید کی کہانی تھی۔
یہی وہ سال تھا جب سقوط ڈھاکہ کی وجوہات جاننے کے لئے قائم کئے گئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ بھی حکومت کو پیش کر دی گئی لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اس رپورٹ کو دبا دیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایبٹ آباد انکوائری کمیشن کی رپورٹ بھی آج تک دبی ہوئی ہے اور اس کمیشن کا سربراہ نیب کا چیئرمین بن کر کرپشن کو دبا رہا ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے تیس سال بعد حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پبلک کر دی گئی تو مسعود مفتی نے اپنی کتاب ’’چہرے‘‘ میں کچھ اضافہ کیا اور 2010ء میں ’’چہرے اور مہرے‘‘ کے نام سے یہ کتاب دوبارہ شائع کی۔ تب تک وہ سرکاری ملازمت سے بھی ریٹائر ہو چکے تھے لہٰذا اپنی کتاب میں اُنہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ وہ سب لکھ ڈالا جسے کہنے پر آج بھی ملک دشمنی اور غداری کے الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔
مسعود مفتی ایک سابق ڈی ایم جی افسر تھے۔ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی تمام وجوہات کو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ سے تلاش کیا لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اُن کی یہ کتاب دراصل حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا ایک ادبی خلاصہ ہے جس میں ایک ایسا دل دھڑکتا سنائی دیتا ہے جو اپنوں کے اپنوں پر ستم سے درد میں ڈوبا ہوا ہے اور عینی شاہد بن کر 1971ء میں ہونے والے ظلم کے خلاف پکار پکار کر گواہی دے رہا ہے۔
مسعود مفتی کی اس کتاب میں لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی کے خلاف مصنف نے اپنی نفرت کو کہیں چھپانے کی ناکام کوشش بھی نہیں کی کیونکہ مصنف بہت سے واقعات کا عینی شاہد تھا۔ مسعود مفتی نے یہ کتاب مشرقی پاکستان کے بہاریوں کے نام کی۔ یہ وہ لوگ تھے جو 1947ء میں بہار، آسام، یو پی اور سی پی وغیرہ سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے اور دوسرے درجے کے شہری بن گئے۔
انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی تحریک پاکستان میں حصہ لیا کہ ان کے علاقے کبھی پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہ 1947ء میں اپنے عزیزوں کی لاشوں پر تیرتے ہوئے ڈھاکہ پہنچے۔ انہوں نے مارچ اور اپریل 1971ء میں وہ دیکھا جو 1947ء میں بھی نہ ہوا تھا کیونکہ ان بہاریوں کو پاکستان کے ساتھ وفاداری کے نام پر ہتھیار تھما دیئے گئے اور کہا گیا کہ عوامی لیگ پاکستان کی دشمن ہے۔ بہاریوں نے عوامی لیگ کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور 16؍ دسمبر 1971ء کے بعد انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔
چند سال پہلے میں نے مسعود مفتی صاحب کو سقوط ڈھاکہ پر گفتگو کے لئے جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں بلایا۔ پروگرام ختم ہونے پر واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے پوچھا ’’آپ پچھلے دنوں ڈھاکہ گئے ہوئے تھے کیا وہاں بہاریوں سے ملے تھے؟‘‘ میں نے اثبات میں جواب دیا اور بتایا کہ ہاں میں بہاریوں کے ایک وفد سے ملا تھا وہ آج بھی اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں۔ پاکستان اُنہیں بھلا چکا لیکن وہ پاکستان کو نہیں بھولے۔
مسعود مفتی صاحب نے بڑے مدھم لہجے میں خود کلامی کے انداز میں کہا ہمیں اس بے وفائی کی سزا ضرور ملے گی۔ ہماری بے وفائیوں کی داستان بہت ہی لمبی ہے۔ ایسے افراد اور تنظیموں کی فہرست بھی بہت لمبی ہے جو کبھی ریاست کا اثاثہ تھے لیکن پھر وہ بوجھ بن گئے۔ کچھ کو ایف اے ٹی ایف کے نام پر لپیٹ دیا گیا اور کچھ لپٹنے کے انتظار میں ہیں۔ آج کل کشمیری یہ دعائیں کر رہے ہیں کہ اُن کا انجام وہ نہ ہو جو بہاریوں کا ہوا۔
مسعود مفتی صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ قبل اُن کی آخری کتاب ’’دو مینار‘‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب پاکستان کی وہ تاریخ ہے جو آپ کو نصابی کتابوں میں نہیں ملے گی۔ یہ کتاب اُس مرحوم بیورو کریسی کے نام ہے جس نے قائداعظمؒ کے پاکستان کو پہلے گیارہ برسوں میں آسمان پر پہنچا دیا اور اگلے تیرہ برس میں ہلاک کر دیا۔
اس کتاب میں مسعود مفتی نے یہ بھی لکھا ہے کہ 1969ء میں اُنہیں لاڑکانہ کا ڈپٹی کمشنر بنا کر بھیجا گیا تو کس طرح جنرل یحییٰ خان بیورو کریسی کی مدد سے ذوالفقار علی بھٹو کو قابو کرنے کی کوشش کرتے رہے اور کس طرح مسعود مفتی قانونی ضابطوں کی آڑ لے کر اپنے آپ کو سیاسی انتقام میں ملوث ہونے سے بچاتے رہے۔
یہ کتاب پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں یحییٰ خان کے دور میں کھڑا تھا۔ میں مسعود مفتی کی کتاب ’’چہرے اور مہرے‘‘ کی ان آخری سطور پر اس کالم کو ختم کرتا ہوں۔ ’’اس مملکت خداداد پر مخفی ہاتھ حسب سابق اپنی خدائی کرتے رہیں گے۔ یہ منظر نامہ جاری رہے گا۔ جب تک ہماری قوم ایسے ہاتھوں اور ایسے مہروں کی اندھی اطاعت ترک کر کے اپنی قسمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لے لیتی‘‘۔