ہمسائیوں نے گھر کا کام شروع کیا۔ روز ہی ٹھک ٹھک کی آوازیں آتی تھیں ۔تبھی ایک دن غور کیا کہ ہمارے چھت کے کونے پر ایک بال برابر دراڑ ہے۔ جو بھری تو پلاسٹک سین سے بھی جا سکتی تھی مگر میاں جی بھاگ کر مزدور بلا لائے۔ مزدوروں نے دیکھ کر کہا کہ سر جی چھت کا حال وہی ہے جو فی الحال مہنگائی سے غریب کا ۔۔یعنی برا۔ لہذا ایسا کریں کہ ہمیں مدعو کر لیں۔ چار دن کا تو کام ہے۔ دو آرزو میں کٹ جائیں گے دو انتظار میں ۔اسی کے ساتھ آپ کا کام بھی نبیڑے لگ جائے گا۔ میاں جی نے نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔فوراً دعوت دے ڈالی۔۔۔پہلے دن آتے ہی انہوں نے کہا کہ ساری چھت نئے سرے سے اکھاڑ کر تعمیر کرنی پڑے گی۔ ورنہ صورت حال بہت نازک ہے۔ یہ نہ ہو ادھر کسی نے چھینک ماری ادھر چھت اس کے سر پر آسمان کی طرح آ گرے ۔ میاں جی خدا کا شکر بجا لائے کہ بروقت مسلے کا حل نکل آیا اور مصیبت کا تدارک ہو گیا۔ ورنہ کیا پتہ کب پیامِ اجل آن پہنچتا اور ہم غفلت کی نیند میں ہی گم رہتے۔۔
بہرحال چار دن تو سارے ہی چھت اکھاڑنے اور نئی بننے کی آرزو میں کٹ گئے۔ چھت بناتے بناتے مزدوروں نے میاں جی کو پٹی پڑھائی کہ پانی کی دو ٹینکیاں ہونا بہت ضروری ہیں۔ ورنہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ پانی کا اتنا دھوکہ نہیں کیا ہو گا جتنا نچلی منزل کے ہوتے ہوئے اوپری منزل کے مکینوں کے ساتھ ہو گیا۔ پانی کے لیے نہ صرف گلی میں نئے پائپ بلکہ گھر میں بھی پائپوں کا نیا جال، نئی ٹنکی اور نئی موٹر کا انتظام ہونا ضروری ہے جس میں دس دن مزید لگ جائیں گے۔ خیر میاں جی فرہاد بن کر اس نہر کو کھودوانے پر بھی راضی ہو گئے۔پانی کا کام کرتے ہوئے مزدوروں نے پھر یقین دلا دیا کہ اگر فرش نئے ڈل جائیں تو لک نئی نکل آئے گی۔ اور گھر بھی مضبوط ہو جائے گا۔ ویسے بھی آجکل تو رشتے پائیدار نہیں ہوتے گھر کہاں سے ہوں گے۔ہو نہ ہو یہ گھر کسی نکمے مستری کی سازش ہے۔لو جی اس کے لیے بھی پتھر اور سامان کا انتظام کیا گیا۔
فرش ڈلتے ڈلتے اچانک انکشاف ہوا کہ اگر سیوریج بھی نئی ڈال دی جائے تو کام ایلفی کی طرح پکا ہو جائے گا۔ سیوریج کا کام شروع ہوا تو پتہ لگا کہ باتھ روم توڑ کر دوبارہ تعمیر کرنے سے باتھ روم میں نہانے کے ساتھ ساتھ بیڈ ڈال کر قیلولہ کرنے کی بھی گنجائش نکل آئے گی۔ اب فرش نئے ڈلے تو دروازے بھی نئے ضروری ہیں۔ اور پرانے دروازوں سے جو لکڑی نکلی اس کو پھینکنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ مشورہ ملا کہ ایسا کریں اس لکڑی کو لے کر نئی الماریاں تعمیر کر دی جائیں۔ جب سب ہی نیا ہے تو کچن بھی تو نیا لگنا چاییے۔ ٹائلز سے لے سینٹری تک کا نیا کام کرنے کے بعد مزدوروں نے میاں جی کو کہا کہ گھر کے باہر بھی تھوڑی بہت مرمت ہو گی اور ساتھ ہی چھوٹے موٹے لکڑی کے کام کروا لیں۔
اب سب کام کے بعد پینٹ ہونا تو نہایت ضروری ہے نا ورنہ کیا فائدہ کام کروا کر بھی گھر پرانا پرانا ہی لگے ۔۔۔ویسے بھی پینٹ والا مستری کا اپنا یار دوست ہی تو ہے۔ مناسب دام میں سب کر دے گا۔۔ الغرض سارا کام کرنے کے بعد مزدوروں نے انکشاف کیا کہ آپ کسی گھر میرا گلشن میں نہیں رہتے بلکہ یوں سمجھیے کہ شب و روز موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلاتے ہیں ۔ اوپری منزل کے ساتھ نچلی منزل کا بھی پکا اور مضبوط ہونا بےحد ضروری ہے لہذا ایسا کریں لگےہاتھوں نچلی منزل ٹھیک کروا لیں۔ اب میاں جی پستول میں گولیاں ڈال رہے ہیں۔ کہ کمبختوں کو ایسے ہی نکالنا پڑے گا