عدلیہ یوٹیوب کیوں بند کرنا چاہتی ہے ؟

پاکستان میں سوشل میڈیا ایپ بیگو پر پابندی کے بعد یو ٹیوب  پر بھی پابندی کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔اس حوالے سے پاکستان کی سب سے اعلیٰ عدالت یعنی سپریم کورٹ نے نوٹس لے کر  پابندی کا عندیہ دے دیا ہے ۔

بحث اب یہ ہے کہ کیا پاکستان کی عدالت کسی ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کے معاملے میں پابندی جیسا کوئی بڑا انتظامی حکم جاری کر سکتی ہے ؟

اس حوالے سے سپر لیڈ نے قانون  دان ندیم ملک ایڈووکیٹ سے رائے جانی جنہوں نے واضح  کیا کہ عدالت حکومتی  انتظامی معاملات میں مداخلت تو کر سکتی ہے لیکن مجاز اتھارٹی کو ہی کوئی بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ملکی قوانین موجود ہیں جبکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن  اتھارٹی   فیصلہ سازی کی مجاز اتھارٹی ہے ۔  یہ اتھارٹی عوامی شکایات  پر کام کرتی ہے جبکہ حکومتی احکامات  پر بھی عمل کرتی ہے ۔

ایسے میں عدالت براہ راست حکم تو دے سکتی ہے لیکن انتظامی امور میں مداخلت   کا اختیار نہیں

فواد چودھری نےاس حوالے سے بدھ کو ایک ٹویٹ میں اس فیصلے پر ڈھکے چھپے انداز میں تنقید کی اور کہا کہ عدالتوں کو ایسے معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے ۔

فواد چودھری پابندی کے حامی نہیں

فواد چودھری کا کہنا ہے عدلیہ انتظامی اماور میں مداخلت نہیں کر سکتی

اگر یوٹیوب  پر پابندی لگی تو ملک کا بہت نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا عدلیہ کو ایسے معاملات سے دور ہی رہنا چاہیے ۔  وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی  نے  خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا  کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ سامنے آگیا تو  ملکی ترقی میں براہ راست اثر انداز ہوگا۔  ٹیکنالوجی کی ترقی رکنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

عدالت کا موقف کیا ہے ؟

 سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا اوریوٹیوب پرقابل اعتراض مواد کا معاملہ زیر غور آیا۔

عدالت نے واضح کیا کہ  کسی صورت ایسے مواد کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ہماری کارکردگی اورفیصلوں  پرعوام کوبات کرنے کا حق ہے۔ ہم اظہار رائے کی آزادی کی بات نہیں کر  رہے لیکن یو ٹیوب پر ہر کوئی چاچا اور ماما بن کر بیٹھ جاتا ہے ۔

سپریم  کورٹ نے یوٹیوب پر سینکڑوں پاکستانی  چینلز کی طرف اشارہ کیا کہ ان کے تبصرے  ناقابل برداشت ہیں ۔ جسٹس قاضی امین نے کہا نجی زندگی کا تحفظ بھی ہمیں آئین ہی دیتا ہے ۔

ان سوشل میڈیا پر ہمارے خاندانوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ۔ ججز کو مسلسل شرمند ہ کیا جارہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس  فرقہ وارانہ الزام میں  ملوث شوکت علی کی ضمانت کے مقدمے میں سامنے آئے ہیں