کیاسب سے بڑا خطرہ بلوچستان لبریشن آرمی ہے ؟

خصوصی رپورٹ: بلال اللہ زہری ،کوئٹہ

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آگئی ہے ۔ تازہ واقعہ بلوچستان کے علاقے تربت میں پیش آیا ہے جہاں گھات لگائے دہشت گردوں نے فورسز کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس فائرنگ سے گاڑی کو نقصان پہنچا۔

لانس نائیک جاوید کریم موقع پر زندگی کی بازی ہار گئے ۔ اس واقعے میں تین جوان زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ۔

فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دہشت گرد حملوں کے بعد جوابی کارروائی کی گئی ہے ۔ سرچ آپریشن کے بعد بلیدہ کے مقام پر دہشت گردوں کا ایک ٹھکانہ ٹارگٹ بنا ہے ۔

واقعے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہو گیا ۔ شرپسندوں کے ٹھکانے سے مواصلاتی آلات، نقشے اور بارود برآمد ہو ا ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کا تعلق کالعدم بی ایل اے سے ہے۔

بی ایل اے اچانک سکیورٹی رسک کیسے بن گئی ؟

پاکستان کے اعلیٰ سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ چند روز قبل پاکستان سٹاک مارکیٹ پر ہونے والے حملے میں بی ایل اے ملوث ہے ۔

وفاق کے نمائندے گورنر عمران اسماعیل نے حملے کے روز ہی میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ اس دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے جبکہ ایک روز بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا بلوچستان کی دہشت گرد تنظیم بی ایل اے ملوث ہے جس کے سلیپر سیل بھارت سے آپریٹ ہو رہے ہیں ۔

یوں تحریک انصاف کی حکومت میں کراچی سٹاک مارکیٹ پر حملہ پہلی دہشت گردی قرار پائی جس میں بی ایل اے کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔

ڈی آئی جی ایسٹ کراچی کے انکشافات

ڈی آئی جی ایسٹ کراچی نے حملے کے تین روز بعد پریس کانفرنس میں چھے دہشت گردوں کو پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن سے ہے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ دہشت گرد کراچی حملے میں ملوث نہیں تاہم ان کی دہشت گرد تنظیم نے یہ حملہ کرایا ہے ۔

بی ایل اے کون ہے ؟

بی ایل اے یعنی بلوچستان لبریشن آرمی 1970کی دہائی میں وجود میں آئی ۔ مختلف رپورٹس سے تاثر ملتا ہے کہ یہ تنظیم ذوالفقارعلی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں سرگرم ہوئی جس کا بنیادی ایجنڈا صوبے کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اس تنظیم نے حقوق کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی معدنیات پر صوبے کا حق بھی واضح کیا ۔

بلوچستان لبریشن آرمی قومی املاک کو مسلسل نشانہ بناتی آئی ہے

ساتھ ہی بی ایل اے نے ہتھیار اٹھالئے اور حکومت کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں ۔ حکومت نے اس عمل کو بغاوت کے مترادف قرار دیا اور کارروائی شروع کر دی گئی ۔

جنرل ضیاالحق کا کردار

فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششیں شروع کیں ۔

جنرل ضیا پر بی ایل اے کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات بھی سامنے آئے

بیک ڈور رابطے ہوئے جس کے بعد جنرل ضیا نے خود سرکاری ٹی وی میں ایک خطاب کے دوران بلوچ رہنماؤں کو قومی دھارے میں لانے کا اعلان کیا ۔ اس اہم اعلان کے بعد وقتی طور پر مسلح بغاوت کا زور ٹوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی بی ایل اے بھی قومی منظر نامے سے آؤٹ ہو گئی ۔

پرویز مشرف کی سخت گیر پالیسی

پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بی ایل اے پھر اس وقت منظر عام پر آگئی جب مسلح دہشت گردوں نے یکے بعد دیگرے حملے شروع کر دیئے ۔

سپر لیڈ نیوز کی رپورٹ کے مطابق محکمہ داخلہ نے بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کا الزام بی ایل اے پر عائد کیا۔ اس دوران قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کو گرفتار کرلیا گیا ۔

پرویز مشرف کےدور میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا

ان پر ریاست مخالف جذبات ابھارنے کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ گرفتاری کے ردعمل کے طور پر بی ایل اے نے دوبارہ سرکاری تنصیبات پر حملے شروع کردیئے ۔ان حملوں میں شدت آتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف حکومت نے طویل مشاورت کے بعد آپریشن کا آغاز کردی۔

دوہزار چھ کے اوائل میں اہم پیش رفت سامنے آئی ۔ بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ اگلے سال نومبر میں بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد تنظیم نے حملوں کا دائرہ کار بڑھا دیاا ور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی عام ہو گئیں

یہ خبر بھی پڑھیئے : طالبان کو مارنے والی بہادر لڑکی مشکل میں ۔۔


بالاچ مری کی ہلاکت کےبعد ان کے بھائی نوابزدہ حیربیار مری کے حوالے تنظیم کی سربراہی کی متضاد خبریں بھی گردش کرتی رہیں تاہم حربیار کی سربراہی ثابت نہ ہوسکی ۔

اس تنظیم کو کون آپریٹ کر رہا ہے ابھی تک واضح نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب بعض سکیورٹی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ بھارت براہ راست فنڈنگ میں ملوث ہے ۔