کوئی ایک شخص کیسے ایک بڑی ریاست کی نیندیں اڑا سکتا ہے ؟

وقت اشاعت :2ستمبر2021

ندیم چشتی ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ کوئی ایک شخص کیسے ایک بڑی ریاست کی نیندیں اڑا سکتا ہے ؟اس سوال کا جواب علی گیلانی کی شخصیت میں موجود ہے ۔

سید علی گیلانی 29ستمبر 1929کو پیداہوئے۔ اس وقت تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ بچہ ایک دن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ٹف ٹائم دے گا۔ ریاست کےبڑوں کی نیندیں اڑا دے گا۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمانوں کے سید گھرانے سے نکل کر یہ آزادی کی طویل جنگ لڑے گا۔ سید علی گیلانی ہی تھے جنہوں نے پوری ہندوستانی فوج کو کسی بھی وقت چین  نہیں لینے دیا۔ ان کا ایک سفر بھارتی ایجنسیوں کو گھما دیتا تھا۔ وہ کہیں جانے کےلئے نکلتے تو خفیہ ایجنسیوں کا ایک دستہ ٹولیوں کی صورت میں ان کا پیچھا کرتا۔ وہ احتجاج کی کال دیتے تو ریاست مفلوج ہو جاتی ۔

سید علی گیلانی سری نگر باسیوں کے دلوں کی دھڑکن تھے ۔ گو کہ حریت رہنماؤں میں تقسیم بھی واضح تھی ۔ بھارت نواز لیڈر ان کو نیچا دکھانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتے تھے ۔ ان پر تنقید ہوتی ، ان کا راستہ بند کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ سے ساز باز کی جاتی ۔ مگر ان کا احترام پھر بھی سب کے دلوں میں رہتا تھا۔ گو کہ مفادات کی جنگ تھی مگر کشمیری خون اپنے اس بزرگ رہنما کی خدمات کو فراموش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ ان کی وفات پر محبوبہ مفتی نے واضح کہا کہ وہ اختلافات کے باوجود ان کا ہمیشہ دل سے احترام کرتی تھیں ۔ سید علی گیلانی ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو اپنی بات منوانے کے لئے خود ہی راستہ بنا لیتے تھے  ۔

وہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کے رکن بھی رہے ، بعد میں سید علی گیلانی نے تحریکِ حریت کے نام سے اپنی جماعت بنائی ، وہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے۔ 1994میں سری نگر کا احتجاج  بعض لوگوں کو یاد ہوگا جب جلسہ عام میں خطاب کے دوران سید علی گیلانی نے جذباتی خطاب کیا اور لے کے رہیں گے آزادی کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کی مقبولیت کے چند روز بعد ہی بھارتی انتظامیہ نے ان سے مذاکرات کی کوشش کی  اور مزید جلسوں سے روکنے کے لئے قائل کرنے کی ٹھانی ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سید علی گیلانی نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے انتظامیہ کے افسران کو وقت نہ دیااور انہیں کہا کہ اگر ملاقات کرنی ہے تو تین روز بعد ہوگی تاکہ وہ اپنے پہلے سے طے شدہ امور نمٹا لیں ۔ ان کی شخصیت کا رعب دیکھیے بھارتی افسران کو ان سے ملاقات کے لئے وادی میں ہی تین روز انتظا رکرنا پڑا۔ سید علی گیلانی کی پاکستان نوازی سب سے بڑھ کر تھی ۔وہ اپنے جلسوں میں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگواتے ۔

بعض حلقے تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے ہم خیال کشمیری رہنما پاکستان سے  رابطے میں رہتے تھے  ۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی ان کو بھرپور سپورٹ کرتی ۔ حکومت پاکستان ان کی ہمیشہ سے حمایت کرتی اور بیک ڈور روابط رکھتی ۔ ایسے حالات میں پاکستان  نے کشمیر کی تحریک کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں بھی سفارتی تعاون کیا ۔بعض ذرائع کے مطابق سید علی گیلانی  بعض مسلح  گروپوں سے خوش نہیں تھے ۔ وہ عوامی طاقت پر یقین رکھتے تھے ۔

ان کے بارے میں بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ مجاہدین کے بعض دھڑوں کو پسند نہیں کرتے تھے تاہم اس امر کی واضح تصدیق نہیں ہو سکی ۔ سید علی گیلانی کو نہ تو براہ راست مروایا جا سکتا تھا نہ ہی انہیں طویل عرصے تک جیل میں رکھنا ممکن تھا۔ صرف ایک ہی آپشن ہمیشہ موجود رہتی تھی وہ یہ کہ انہیں گھر  میں ہی نظر بند رکھا جائے ۔ ان کے گھر کے باہر پہرہ بٹھایا جائے ، وادی میں کوئی بھی ان کے گھر کا رخ کرے تو اس کو مانیٹر کیا جائے ۔

سری نگر کے علاقے حیدر پورہ میں سید علی گیلانی کے گھر کا بیرونی منظر جہاں خار دار تار لگا دیئے گئے ۔ فوٹو کریڈٹ :کشمیر میڈیا سروس

یہی وجہ ہے کہ جیل ان کا دوسرا گھر رہی یا ان کا گھر جیل بنا رہا۔ پرویز مشرف نے جب کشمیر کا چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تو سید علی گیلانی نے کھل کر پرویز مشرف کی مخالفت کی اور کہا کہ آپ کیسے کشمیری قیادت کو بائی پاس کر کے کوئی فارمولا پیش کرسکتے ہیں۔۔ اس طرح پہلی مرتبہ سید علی گیلانی پاکستان کے بھی مخالف دکھائی دیئے ۔ کشمیر دھڑوں میں آپسی چپقلش اس وقت ختم ہوئی جب نریندر مودی کی حکومت آئی ۔

اس طرح یہ دھڑے ایک ہونے لگے مگرآہستہ آہستہ روایتی جوش ماند پڑنے لگا۔ کشمیریوں کی بڑی تعداد ان اختلافات سے بھی بیزار نظر آئی ۔ بعض لوگ جماعت اسلامی سے ماضی میں وابستگی اور نظریاتی مذہبی ہونے پر انہیں پسند نہیں کرتے تھے ۔ خصوصی طور پر بھارتی کلچرمیں ڈوبی نئی نوجوان کشمیری نسل کی ایک معمولی تعداد ان پر تنقید کرتی بھی نظر آتی تھی ۔ اگرچہ برہان وانی کی موت کے بعد سید علی گیلانی نے عوام کو جمع کیا اور پاور شو کے دوران بھارت سرکار پر تنقید کی ۔ سید علی گیلانی اب نہیں رہے مگر ان کی یادیں  ہمیشہ کشمیریوں کے دلوں میں رہیں گی ۔

حکومت پاکستان نے ان کی وفات پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ مختلف مذہبی جماعتیں ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کر رہی ہیں۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم سمیت تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے ۔