دس دسمبر 2019کو نیب لاہور کے ڈی جی کی لندن میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے عہدیداروں سے ملاقات کیوں ہوئی ؟

وقت اشاعت :28ستمبر2021

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، لندن ۔ دس دسمبر 2019کو نیب لاہور کے ڈی جی کی لندن میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے عہدیداروں سے ملاقات کیوں ہوئی؟دی سپر لیڈ ڈاٹ کام حقائق سامنے لے آیا۔

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق دس دسمبر 2019 کو نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل ، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم ایسٹ ریکوری یونٹ کے رکن بیرسٹر ضیا نسیم  لندن پہنچے جس کے بعد چودہ دسمبر 2019کو پاکستانی انوسٹی گیشن ٹیم نے  برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کا دورہ کیا اس موقع پر ذرائع کے مطابق باضابطہ طور پر ایک درخواست دی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف اور  سلیمان شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ۔

بیرسٹر ضیا نسیم نے اس درخواست میں واضح موقف اپنایا کہ حکومت پاکستان کو ان کی مشکوک ٹرانزیکشن  کی کھوج ہے جس کے خلاف تحقیقات کی جانی ضروری ہیں ۔ ذرائع کے مطابق  یہ درخواست وزیراعظم کی منظوری سے دائر کی گئی، بعض ذرائع یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ای میل بھی  کی گئی تھی ۔   کچھ  عرصے بعد برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے تحقیقات کا آغاز کیا اور حکومت پاکستان کی ایما پر تحقیقات مکمل ہونے تک شریف خاندان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئے ۔

شہباز خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ، برطانوی عدالت نے  21  ماہ کی تفتیش کے بعد فیصلہ سنا دیا۔ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی نے   منجمد بینک اکاؤنٹس کی تحقیقاتی رپورٹ ویسٹ منسٹر کورٹ میں جمع کرا دی ۔موقف اختیار کیاکہ تحقیقات میں ثابت ہوا ۔۔ شہباز شریف خاندان کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث  نہیں ۔برطانوی ایجنسی نے  ہرپہلو سے  جامع تحقیقات  مکمل کرلی ہیں ۔ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے اکاؤنٹس کی   چھان بین  کے بعد   تمام اکاؤنٹس بحال کرنے کا حکم  دیا گیا۔ یہ بینک کھاتے دسمبر  دو ہزار انیس سے بند تھے

اس کارروائی کے بعد احتساب عدالت میں شہبازشریف کے خلاف درخواست میں برطانوی کرائم ایجنسی کی جانب سے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا بھی حوالہ دیا گیا۔ نیب کے وکیل نے موقف اپنایا کہ شریف خاندان منی لانڈرنگ میں ملوث ہے اس کے مزید ثبوت بھی حاصل کئے جارہے ہیں ۔ واضح رہے  کہ برطانوی حکام سے رابطے کے بعد خود شہزاد اکبر بھی متعدد پریس کانفرنسز میں اس امر کا اظہا ر کر چکے تھے کہ منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف خاندان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ انہوں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو درخواست کا تو کبھی ذکر نہیں کیا مگر منی لانڈرنگ  کا ضرور تذکرہ کرتے رہے ۔

شہزاد اکبر اب برطانیہ کو کسی بھی درخواست کی پرزور تردید کر رہے ہیں

پاکستانی نیوز چینل اے آر وائی  سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شہبازشریف اورسلیمان شہباز کی مبینہ بریت کی خبرحقائق کے منافی ہے ۔ سلیمان شہبازکے خلاف تحقیقات ایسٹ ریکوری یونٹ یا نیب کی درخواست پرنہیں کی گئی۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے ایک مشکوک ٹرانزیکشن کی بنیاد پرتحقیقات شروع کیں۔ سلیمان شہباز کی جانب سے 2019میں کی گئی ٹرانزیکشن کو مشکوک قرار دیا گیا تھا۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے اب تحقیقات روک دیں جس کی بنیاد پرمنجمد اکاونٹس بحال ہوئے۔ اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پیسہ قانونی طریقے سے آیا۔

برطانوی عدالت میں کوئی ٹرائل نہیں چل رہا تھا اس لئے بریت کیسی؟  انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان اس حوالے سے کسی صورت ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی ۔ شہزاد اکبر نے یہ نہیں بتایا کہ برطانیہ کو کیسے پاکستان سے کئی گئی ایک بینک ٹرانزیکشن مشکوک لگی ۔