ہماری ادھوری کہانی ۔۔

مجھے عینی کو دیکھ کر حسرت بھری حیرت ہوتی تھی کہ کس محنت سےہر روز بیس کے بیس ناخنوں سے پہلے نیل پالش اتارتی ہے پھر اسی جانقشانی سے کسی نئے رنگ سے رنگتی ہے۔ مخروطی انگلیوں پر لمبے لمبے ناخن۔۔کسی خوبصورت بلا کے ہاتھ لگتے تھے۔ آدھی رات کو قبرستان کے سامنے کھڑے ہو کر لفٹ مانگے تو سامنے والا ہاتھ دیکھ کر ہی دم دے دے۔

مجھے کنول پر بھی حیرانی تھی کہ ہر روز یونیورسٹی جانے سے پہلے نئے رنگ کی چوڑیاں کیسے اتارتی پہنتی ہے۔ میرا رشتہ تو بناؤ سنگھار سے بس لپ اسٹک تک تھا جو میں چلتے پھرتے بھی لگا لیتی تھی۔ سو مجھے یہی لگا کہ وہ ایک “لُک ” ابھی ادھار ہے۔ جس دن سج سنور کر پورا میک اپ کیا۔۔دیکھنا چاند بھی شرما جائے گا۔۔۔

پہلی نند کی شادی ہوئی۔۔سوچا واہ۔۔پارلر والی کمال کرے گی۔ اب ہو گی ہماری وہ منہ دکھائی جو آج تک ہم نے خود نہیں کی۔ مگر پتہ چلا کہ چونکہ پچیس سال سے عذرا باجی گھر کا کام کر رہی ہیں لہذا ان کی بیٹی بہت اچھی بیوٹیشن ہے اور وہی تیار کرے گی۔ میں نئی نویلی دلہن کیا کہتی؟ پورے میک اپ کے دوران عذرا باجی کی بیٹی مجھے بتاتی رہی کہ آپ کے میاں بہت سخت مزاج ہیں۔ اپنے گھر گرجتے ہیں تو ہمارے گھر تک برسنے کی آواز آتی ہے۔۔ حسین لگنے کی امید تو میرے امید سے ہونے کے ساتھ ہی ڈوب چکی تھی مگر ممتا کے نور نے بہرحال بچا لیا۔۔۔ آنکھوں پر ہرے رنگ کے میک اپ کو لوگوں نے حسبِ حالت حلقے سمجھ لیا۔

سال دو سال بعد بھائی کی شادی ہوئی تو کنول نے مشورہ دیا گھر کے پاس ہی ایک پارلر ہے جہاں انتہائی مناسب ریٹ میں حوریں کرائے پر دستیاب ہیں۔ میں دل ہی دل میں کِھل گئی کہ گھنٹہ دو گھنٹہ بھی حور لگ لیے تو سمجھو زندگی بھر کی تپسیا کامیاب ہو گئی۔۔

پارلر والی نے کہا بال کیسے بناؤں۔۔۔میں نے کہا “سٹریٹ کر دو”۔۔کہتی” ڈیڈ سٹریٹ کر دوں؟” میں نےکہہ دیا “ہاں”کہ اس وقت فیشن میں اِن تھا۔۔ اس نے اس قدر جان لگا کر بالوں سے جان نکالی ۔۔۔یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سر پر سویاں گر کر اکڑ گئی ہیں۔

پھر آج تک تصویروں میں ہم تو خود کو پہچاننے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ۔۔

خیر دوسری نند کی شادی ہوئی۔ سوچا اب لُک نکلے گی۔۔ پر میاں جی کے دوست جس لڑکی کے ساتھ سیٹ ہونا چاہتے تھے اسکی بہن کو میک اپ بہت اچھا آتا تھا۔۔لہذا یارِ من کے یار کا عشق سلامت رہے اس واسطے حضور نے اپنا منہ پیش کر دیا۔۔۔اس نے کچھ ایسا تیار کیا کہ کجھوری چٹیا بنائی تو چٹیا بنانے سے پہلے کس کر پونی بھی بنائی۔مریل کینچوے تک بھی رہتی تو بات ٹھیک تھی مگر یوں لگتا تھا کہ کسی مچھی والے سے سالم مچھی لے کر گلو سے چپکا دی ہے۔۔

رو دھو کر ہم نے اگلے دن صاف انکار کر دیا کہ نہ بھئی نہ۔۔منہ ہے ہمارا ۔۔میٹرک کے بچوں کے آگے رکھا ڈڈو تو نہیں۔۔ ۔تبھی انکشاف ہوا کہ قریبی پارلر میاں جی کے دوست کا تھا۔ چونکہ نوجوانی میں دوست سے بال کٹواتے تھے تو یقینا میرا میک اپ بھی بہت اچھا کرے گا۔۔ ۔۔ بہلا پھسلا کر لے گئے وہیں۔۔

اس میک میں ایک چیز تو مجھے یاد ہے۔۔پیلے سے رنگ کی ایسی گہری بیس کہ ساس امی نے کہا “واہ فاطمہ ایسا لگتا ہے پری کی طرح ابھی اڑ جاؤ گی”۔۔۔

اس بات کا مطلب مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا مگر ہم پھر تصویروں سے نظریں چرانے لگے۔۔

لُک ابھی بھی ادھار تھی۔۔

اس بار چھوٹے بھائی کی شادی ہوئی تو میں نے تو صاف کہہ دیا کہ اب کی بار کسی کا منہ رکھنے کے لیے ہمارا منہ ہرگز پیش نہ ہو گا۔۔۔ ہمارا حسن امڈنے کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔

لہذا مہنگے اور نامور پارلر سے ہی تیار ہوں گے۔۔۔

مہنگے پارلر کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ سیٹ پر بیٹھ کر ہی بندہ سمجھ جاتا ہے کہ اب لُک نکلے گی۔۔۔

دھڑا دھڑ امپورٹڈ میک اپ۔۔چٹے کالے پاؤڈر اور رنگ دار شیڈز ہمارے منہ پر ملے جانے لگے۔۔۔

اب کی بار یقین تھا کہ لُک ضرور نکلے گی۔۔ کام ختم کر کے بیوٹیشن نے شیشے کے آگے کھڑا کیا تو ستائشی نظروں سے ہم نے خود کو داد دی۔

جیسے ہی ہال پہنچے بچے بھاگتے آئے “واہ مما آپ تو ہہچانی ہی نہیں جا رہی ہیں۔۔جب بوڑھی ہو جائیں گی تو تصویریں دیکھ کر کہیں گی یہ تو میں تھی ہی نہیں ۔۔ اتنا بدل گئی ہیں آپ”. پر بچے تو ناسمجھ ہوتے ہیں۔۔ انہیں کیا پتہ۔۔ آج گریں گی میاں جی کے دل پر بجلیاں۔۔۔

ہال میں چار بار ہاتھ ہلایا۔۔دیکھ کر ہر بار اگنور سا کر دیتے۔۔دل نے تسلی دی کہ ہاں سب کے سامنے تھوڑی نہ فری ہوں گے۔۔خود ہی پاس جا کر پوچھا کہ کیا ڈھونڈتے ہیں حضور۔۔چاند تو یہاں کھڑا ہے۔۔ کہنے لگے۔۔ “ہیں؟ یہ تم ہو؟ میں نے تو پہچانا ہی نہیں ۔۔کیا آٹا سا منہ پر مل لیا ہے۔۔سمجھ رہی ہو گی بہت حسین لگ رہی ہوں”…

اب کی بار کنول نے تسلی دی ہے کہ بلال کی شادی پر لُک نکالیں گے۔