عینی کی نانی

عینی کی نانی پچھتر سال کی عمر میں بھی نوجوانوں کو مات دیتی تھیں۔ان کے کارناموں میں سب سے اہم تو یہی تھا کہ نہ صرف ابھی تک حیات تھیں بلکہ روزانہ پورے دو میل تک پیدل بھی چل سکتی تھیں۔

ویسے نانی کا برملا کہنا تھا کہ یہ بال انہوں نے دھوپ میں ہی سفید کیے ہیں ورنہ عمر تو ایسی زیادہ نہیں۔۔عام خواتین سے یوں بھی الگ تھیں کہ ابھی تک ماہواری کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا۔لہذا ایک رسی سی رکھی ہوئی تھی جسے “بوقتِ ضرورت” کمر پر یوں باندھ لیتی تھیں کہ کپڑا اس پر سالم بکرا روسٹ کی طرح لٹکا رہتا۔

انڈ ویئر کو انگریزوں کی بےشرم ایجاد قرار دے کر آج کل کی لڑکیوں کی بےحیائی پر سخت رنجیدہ تھیں۔مجھ اور عینی سے اس لیے بھی نالاں تھیں کہ انہیں لگتا تھا کہ ہم جو آپس میں کھی کھی کرتی ہیں ہو نہ ہو بےشرمی کی باتیں ہی کرتی ہیں۔ لہذا اکثر چھپ کر ہماری باتیں سننے کی کوشش کرتیں اور جب ہم انہیں دیکھ کر سرگوشی میں بات کرتے تو کہتیں کہ عظمت کے ابا نے ساری عمر سرگوشیوں میں ہی بات کی ہے۔ اب تو منہ ہلتا دیکھ کر بتا دوں کہ دل میں کون سے الفاظ ترتیب پا رہے ہیں۔

وقت بے وقت روک کر ہمیں عبادت کی بےحد تلقین کرتیں کہ مجازی خدا کے سپنوں پر ٹائم ویسٹ کرنے کی بجائے اصلی خدا کے قریب رہنے سے لڑکیاں خراب نہیں ہوتیں۔۔ایک دن گلی کا چکر لگا کر آئیں تو سانس بے ترتیب اور پاؤں میں ایک جوتا غائب تھا۔پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ایک نوجوان لڑکا انکا تعاقب کر رہا تھا۔موئے کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی لہذا جان سے زیادہ عزت بچا کر واپس آئی ہیں۔اس واقعے کے بعد مجھے اور عینی کو اکثر ساتھ ہی لے جانے لگیں۔

ایک دن ہمیں سبزی کی دکان پر بھی ساتھ لے گئیں۔وہاں پہنچ کر نانی بضد تھیں کہ وہ چن کر اپنی مرضی سے سبزی لیں گی جبکہ سبزی والا مصر تھا کہ ہاتھ لگانے سے پہلے ان سبزیوں کا حق مہر ادا کرنا ہوگا ورنہ نامحرموں کو چھونا سخت گنہگاری کی بات ہے۔ ادھر نانی لکھ کر دینے کو تیار تھیں کہ پالک فریش نہیں ہے، مٹر میں دانے چھوٹے اور بینگن میں کیڑا ہے۔ میرے اور عینی کے لیے یہ انتہائی اچھنبے کی بات تھی کہ اپنی نانی ان پاکستانیوں سے بھی آگے نکل گئیں جنہیں صرف خربوزہ سونگھ کر دیکھنا آتا ہے۔

نانی میں تو چھوئے بغیر کیڑا بتانے کا ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔ بھئی واہ!! بہرحال سبزی فروش اور نانی کا ایک پیج پر آنا مشکل لگ رہا تھا۔سبزی فروش نے کہا کہ اسے سبزی پیچھے سے اسی ریٹ پر ملی ہے لہذا جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر قبول کرنا ہو گا۔ نانی کہاں ہار ماننے والی تھیں نہ صرف سبزی فروش کو یاد دلایا کہ ملک و قوم کس قدر بےایمانی میں ڈوب چکی ہے بلکہ یہ بھی بتایا کہ ناپ تول میں کمی پر اللہ تعالی نے کس طرح گزشتہ اقوام کو نذرِ عذاب کیا تھا۔ سبزی والا بھی کوئی ملحد معلوم ہوتا تھا۔اس پر ممکنہ مستقبل کے اس خاکے کا چنداں اثر نہیں ہو رہا تھا الٹا وہ نانی کو کہنے لگا بزرگوار لینی ہے تو لیں ورنہ دوسروں کو موقع دیں۔

بزرگوار ۔۔۔ وہ بھی اپنی نانی کو…۔ یہ لفظ ایسا میزائل کی طرح جا لگا کہ نانی کا پارہ ہائی ہونے سے ہمیں خدشہ ہونے لگا کہ مارے گرمی کے سبزیاں یہیں پک گریں گی۔ پھر نانی نے بزرگوار کہنے کی پاداش میں سبزی والے کو اسکی نانی یاد دلا کر سوگوار کر دیا۔اچھااااا ایک تو بےایمانی اوپر سے بدمعاشی۔۔۔نانی نے سرعام چیلنج کر دیا کہ سب کے سامنے سبزی چیک کی جائے ورنہ وہ پوری سوسائٹی سے بائیکاٹ کروا کر سبزی والے کو سبزی کی دکان ہوتے ہوئے بھی بھوکا مروا دیں گی۔۔ چار لوگ بیچ میں پڑے۔۔۔

نانی کی ایما پر سبزیاں چیک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لو جی سبزی والے کے پاس ہی پڑی چھری اٹھائی ۔۔۔بینگن کاٹا۔۔۔ دیکھا تو واقعی کیڑا تھا۔۔۔سبزی والا نانی کی اس روحانیت پر کھسیانا اور نانی کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی۔ سب لوگ نانی کی جہاندیدگی سے متاثر ہو گئے اور سبزی والے کو لعن طعن کرتے ہوئے پھر سب نے ہی سبزی مال غنیمت کی طرح اپنی مرضی سے چنی۔۔۔۔من پسند سبزی کی ٹرافی لے کر ہم تینوں واپس آ رہی تھیں جب میں نے اور عینی نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیڑے پر کیسے اتنا اعتماد تھا کہ عین ریڈ والی جگہ سے برآمد ہو گا؟ مسکراتے ہوئے بولیں “کمینہ بینگن کا ریٹ بتاتے ہوئے نیچے خارش کر رہا تھا”..