حامد میر کی جیو نیوز سے جبری رخصت، پاکستان کی سب سے بڑی بحث کیوں ؟

وقت اشاعت :1جون2021

سپر لیڈ نیوز، اسلام آباد۔ حامد میر کی جیو نیوز  سے جبری رخصت، پاکستان کی سب سے بڑی بحث کیوں ؟جیو نیوز کے فیصلے کے بعد صحافی حامد میر سے منسلک ٹاپ ٹرینڈز نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر تنقید کے بھنور میں پھنسا دیا۔

سپر لیڈ نیوزکے مطابق صحافی اسد طور پر تشدد کے واقعے کے بعد معروف صحافی حامدمیر  نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دیا اور ان پر کھلے عام تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو وہ گھر کی باتیں منظر عام پر لے آئیں گے ۔ اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ۔ کوئی حامد میر کی بہادری کی داد دینے لگا تو سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو ان پر تنقید کرنے لگی ۔

اس بیان کے بعد جیو نیوز نے انہیں آف ایئر کر دیا اور جبری رخصت پر بھیج دیا۔ حامد میر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان سے بیان پر جواب طلبی کی گئی ۔ جس پر انہوں نے  انتظامیہ سے کسی ممکنہ دباؤ کی بابت استفسار کیا ۔ دوسری جانب حامد میر کو آف ایئر کرنے پر #GeoExpelledHamidMir ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا۔ اسی طرح #FreedomOfSpeechIsMyRightکے ٹرینڈ سے بھی لگاتار ٹویٹس آنے لگے ۔ ناقدین نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ اس دوران وزیر اطلاعات فواد چودھری نے واضح کیا کہ میڈیا کا ہر ادارہ خود مختار ہے ۔ حکومت کسی پالیسی سازی میں مداخلت نہیں کرتی ۔ کسی کو آف ایئر کرنا بھی ادارے کا ذاتی فیصلہ ہو سکتا ہے حکومت کا ہاتھ نہیں ۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا نوٹس

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق  اسد طور پر حملے کے بعد حامد میر کی جانب سے اس کے احتساب کے لیے ایک مظاہرے میں تقریر کی گئی جس کے بعد اب  سزا دی گئی۔

اس  سے موجودہ جابرانہ ماحول میں اظہار رائے کی آزادی کی ذمہ داری اٹھانے والے صحافتی اداروں اور حکام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ صحافیوں کے لیے ان کی نوکریوں کی قیمت سینسرشپ، ہراس اور جسمانی تشدد نہیں ہونے چاہییں۔

پی ایف یو جے سراپا احتجاج

پاکستان میں صحافیوں کی بڑی تنظیم پی ایف یو جے کی جانب سے بھی واقعے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔

پی ایف یو جے کے رہنما  شہزادہ ذوالفقار اور سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا کہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے حامد میر کی تقریر کے 72گھنٹوں بعد ہی کیوں جیو نیوز کی جانب سے ایسا فیصلہ سامنے آیا ؟ پی ایف یو جے نے سوال اٹھایا کہ  یہ چینل کا اپنا فیصلہ ہے یا حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ ہے ؟

صحافی کیا کہتےہیں ؟

اس حوالے سے سپر لیڈ نیوز سے گفتگومیں سینئر صحافی شہریار خان نے کہا کہ بظاہرحکومت کی جانب سے  آزادی صحافت کےنعرے کھوکھلے ثابت ہوئےہیں ۔ موجودہ حکومت عوام کے سامنے اس تاثر کو قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے کہ یہ حکومت آزادی رائے پر یقین رکھتی ہے۔حامد میر نے اسی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تاہم اس طرح انہیں آف ایئر کرانا افسوسناک ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پابندیوں سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے ۔ فطری بات ہے اگر کسی کی آواز کو دبایا جائے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے وہ آواز مزید طاقت پکڑتی ہے ۔ ایسے میں ماضی کی پالیسی کو دفن کرکے ناقدین کو کھلی چھٹی دے دینی چاہیے ۔ پاکستان کے عوام بہت باشعور ہیں ۔ وہ خود ہی صحیح اور غلط کی پہچان کرنا جانتے ہیں ۔

حامد میر کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ اگر حامد میر کو آج آف ایئر کر دیا جاتا ہے یا ان کے جیو نیوز پر پروگرام پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مزید انگلیاں اٹھیں گی اور ‘ان کے الفاظ کی تائید ہوگی۔’

صحافی منیزے جہانگیر نے  کہا کہ ان کے لیے تھپڑ ہے جو پاکستان میں آزاد میڈیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔حامد میر کو صحافیوں کے خلاف حملوں پر بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

مہرین ذہرہ ملک نے کہا کہ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں جگہ مزید تنگ ہونے جا رہی ہے۔۔ بدترین حالات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی آمریت نے میڈیا پر قدغن لگائے ۔ اب یہ حکومت بھی آمرانہ کلچر کو فروغ دے رہی ہے ۔ کچھ بھی تبدیل ہوتا نظر نہیں آرہا۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری بھی معاملے پر خاموش نہ رہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جو حامد میر کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ان کی کہی گئی باتیں سچ ثابت ہو رہی ہیں ۔  پاکستان کو نقصان پہنچانے پر ان لوگوں کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔