کیاعمران خان شاہ محمود قریشی اوراسد مجیدپر’غلطی’کا ملبہ ڈال کراسٹیبلشمنٹ سےصلح کرسکتے ہیں؟

وقت اشاعت :15اپریل2022

ندیم رضا، بیورو چیف دی سپرلیڈڈاٹ کام، واشنگٹن ڈی سی ۔ کیاعمران خان شاہ محمود قریشی اوراسد مجیدپر’غلطی’کا ملبہ ڈال کراسٹیبلشمنٹ سےصلح کرسکتے ہیں؟

دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے مطابق فوج کے ترجمان نے عمران خان کے تمام دعوؤں کو سختی سے مسترد کر کے پی ٹی آئی کے حالیہ بیانیہ کودھچکا پہنچایا ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا

قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں “سازش” کا ذکر  ہی نہیں ۔سلامتی کمیٹی نے یہ کہا  ہی نہیں کہ سازش ہوئی۔  نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں عسکری قیادت نے اپنا موقف پیش کر دیا تھا۔  اعلامیہ میں لکھا ہے غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی۔ اس  کا مطلب کوئی امریکی سازش نہیں ۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو پیشکش کی کہ اگر حکومت چاہے تو اس اجلاس کے منٹس ڈی  کلاسیفائی کردے ۔

عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے  رابطے کی تردید

سابق وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل نجی چینل اے آر وائی اور ہم نیوز کے سینئر اینکر پرسنز کو بنی گالہ مشاورت کے لئے بلایا اور انہیں مبینہ عالمی سازش کا پردہ چاک کرنے کے  لئے میڈیا حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس ملاقات میں عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے خود  رابطہ کر کے تین آپشنز رکھے۔

دوسری جانب فوجی ترجمان نے پریس کانفرنس میں اس بیان کو رد کر دیا ۔ میجر جنرل بابر افتخار نے واضح کیا کہ سابق وزیراعظم  نے خود  اسٹیبلشمنٹ  سے رابطہ کیا تھا ۔ وزیراعظم آفس کی طرف سے آرمی چیف سے  خود  رابطہ کیا گیا اور کہا گیا  کہ بیچ بچاؤ کرائیں ۔سابق وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ہی  تین ممکنہ آپشنز پر بات  ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں   پہلی آپشن استعفیٰ زیر غور آئی جسے عمران خان نے سختی سے مسترد کر دیا۔ دوسری آپشن یہ تھی کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں ۔

عمران خان نے اس آپشن  کو بھی غیر ضروری قرار دیا۔ تیسری آپشن یہ تھی کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے گی جس پر وزیراعظم اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کرائیں گے ۔ آرمی چیف نے یہ گزارشات اپوزیشن کے سامنے رکھیں مگر پی ڈی ایم نے تیسری آپشن پر رضا مندی ظاہر نہ کی ۔

عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس پر پی ٹی آئی کا ردعمل

واضح اور دو ٹوک پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کے حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ۔ سب سے پہلے فواد چودھری نے ردعمل دیا اور دعویٰ کیا کہ فوجی ترجمان کے بیان سے تحریک انصاف کے موقف کی ہی تائید ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس سارے مسئلے کا حل جوڈیشل کمیشن کا قیام ہے ۔ فواد چودھری کے مبہم ردعمل کے بعد شاہ محمود قریشی نے بھی  بیان دیا اور واضح کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس جامع ہے ۔شاہ  محمود قریشی نے ترجمان فوج کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ غیر ملکی مداخلت ہوئی ہے ۔ یہی تحریک انصاف کا موقف ہے جبکہ شاہ محمود اس سے پہلے سازش کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔

عمران خان  خط کو براہ راست امریکی سازش کہہ چکے

اس سے قبل عمران خان  متواتر سفارتی مراسلے کو امریکی سازش قرار دیتے آئے ہیں ۔ سابق وزیراعظم نے تو اسے دھمکی قرار دیا اور متعدد مواقع پر اسے عالمی سازش کہہ کر نیا بیانیہ اجاگر  کرنے کی کوشش کی ۔ عمران خان نے پشاور جلسے میں بھی امریکا کو براہ راست للکارا اور سخت لہجے میں کہا امریکی معافی کی ضرورت نہیں یہ قوم نمٹنا جانتی ہے ۔ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس میں عمران خان کے بیانیہ کی سختی سے تردید اور سابق وزرا کی مبہم پالیسی نے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے ۔

فوج کی تردید کے بعد عمران خان کا بیانیہ ناکام ہوگا یا مزید مقبول ہوگا ؟ کیا عمران خان فوجی دعوے کو پھر غلط ثابت کرنے کے لئے میدان میں اتریں گے یا پھر مفاہمت کی طرف آئیں گے ؟

دی سپر لیڈڈ اٹ کام سے گفتگو میں  سفارتی امور کے ماہر ، تجزیہ کار ڈاکٹر سہیل لاشاری نے کہا کہ پاک فوج کی تردید کے بعد عمران خان کے بیانیہ کو بری طرح نقصان ہوا ہے ۔ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ عمران خان  کچھ وقت گزرنے کے بعد میچور سیاست میں قدم رکھ سکتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ فوج کی تردید کے بعد زیادہ مزاحمت ان کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ صرف ایک امر ان کا اعتماد بڑھا رہا ہے وہ ہے ان کی سٹریٹ پاور جس پر وہ حد سے زیادہ انحصار اور فخر  کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان جس راستے پر جا رہے ہیں وہ مزاحمت کا بھی اگلا درجہ قرارپا سکتا ہے جسے آمنے سامنے دشمنی کہا جا سکتا ہے ۔ امید ہے عمران خان کے قریبی سینئر سیاستدان انہیں تصادم سے بچنے کا مشورہ دیں گے مگر پی ٹی آئی میں یہ بات مشہور ہے کہ عمران خان اپنے فیصلے خود کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر عمران خان کا وژن تبدیل نہ ہوا ان کا سیاسی کیریئر خطرات سے دوچار ہوسکتا ہے  اور واپسی کا راستہ بند ہو سکتا ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ  فی الحال یہ نظر آرہا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے چکے ہیں ۔ صلح صفائی  کر کے واپسی کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے لیکن اس کے لئے  عمران خان کو  شاید ملبہ شاہ محمود قریشی اور اسد مجید پر ڈال کر خود کو این آر او دینا ہوگا اور یہ کہنا ہوگا کہ انہیں سفارتی معاملات میں غلط فہمی میں رکھا گیا۔