کیا عمران خان کے تاشقند میں چند متنازع بیانات سے سفارتی چیلنجز پیدا ہو نگے ؟

وقت اشاعت :17جولائی2021

علی رضا ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔ کیا عمران خان کے تاشقند میں چند متنازع بیانات سے سفارتی چیلنجز پیدا ہو نگے ؟وزیراعظم دوران تقاریر جذبات کاسہارا لیتے رہے ۔

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کےمطابق وزیراعظم عمران خان  نے روایتی دو ٹوک رویہ اپناتے ہوئے اپنے اصولی موقف کا بھرپور اظہار کیا ۔ انہوں نے کشمیر پر موقف سے آگاہ کیاساتھ ہی افغانستان میں امن کے لئے پاکستانی کاوشو ں کا تذکرہ کیا۔ تاشقند میں کانفرنس سے خطاب میں ان کے کچھ بیانات کو افغانستان میں نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے اہم سوال یہی ہے کہ عمران خان کی تاشقند میں پوزیشن کیا ہے ؟ کیا عمران خان دنیا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے ؟

اس حوالے سے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی شہریار خان نے کہا کہ تاشقند میں کانفرنس  کو دنیا کوریج دے رہی ہے ۔ فریقین مل بیٹھے ہیں اور مسئلے کا حل نکال رہے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان مسئلے کے تین فریق یعنی افغان حکومت، افغان طالبان اور پاکستان نزدیک آنے کے بجائے مزید دور ہو گئے ہیں جبکہ چوتھا فریق امریکا نو دو گیارہ ہو گیا ہے ۔  جس سے خطے میں خطرات کے بادل یقینی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان طاقت کے زور پر افغانستان کا چارج سنبھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ وہیں سے اقتدار کا آغاز چاہتے ہیں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔ایسے میں افغان عوام  کی بڑی تعداد اور فورسز طالبان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ بدقسمتی سے ماضی کی پاکستانی پالیسی کا طعنہ اب پھر گونج رہا  ہے  ۔ جیسا کہ دنیا نے دیکھا افغان نائب صدر نے سنگین الزامات عائد کئے ۔ بارڈر پر کوئی بھی کارروائی دوسرے ملک کی رضا مندی ، اجازت یا کم از کم نوٹس میں لانے کے بعد ہی ہوتی ہے ۔ اگر پاکستانی فضائیہ نے افغان فورسز کو ایئر سٹرائیک سے روکا تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ بارڈر پر پاکستانی تنصیبات کے تحفظ کے لئے ایسا کہا گیا ہو ۔ اگر پاکستانی فضائیہ نے طالبان کو بچانے کے لئے افغان فورسز کو دھمکی دی تو  یہ اس کا مطلب ہے ماضی کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ۔

قائل کرنے کے لئے جذبات کا سہارا سفارتی میدان میں کتنا کامیاب ؟

ایسے میں عمران خان کیا سوچ رہے ہیں ان کی باڈی لینگوئج سے عیاں ہیں ۔ عمران خان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا جانتےہیں۔ وہ بات منوانے کے لئے بہترین الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں مگر عالمی فورمز میں جارحانہ رویے ، بہترین کمیونی کیشن پاور کے بجائے حقائق تسلیم  کئے جاتے ہیں  ۔ موجودہ حالات میں عمران خان  اپنی اہلیت اور صلاحیت  کے بل بوتے پر بہتر انداز میں مقدمہ لڑ رہے ہیں مگر اپنا موقف منوانے کے لئے وہ جذبات کا بھی سہارا لے رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے تاویل دی کہ اگر وہ افغانستان میں امن نہ چاہتے ہوتے تو کابل نہ جاتے ۔ وزیراعظم  نے یہ بھی کہا کہ طالبان  کو فتح نظر آرہی ہے اس لئے وہ سمجھوتہ کیوں کریں گے ؟

یہ بیان غیر ضروری اور سفارتی اصولوں کے منافی ہے ۔ یقینا یہ بیان افغان عوام کے ساتھ بھی نا انصافی ہے  جنہوں نے برسوں افغان طالبان کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا سامنا کیا ہے اور اپنے پیاروں کی جانیں گنوائی ہیں ۔اس لئے بدقسمتی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے بیانیہ کو عالمی فورم پر پذیرائی نہیں مل پائی ۔ ان بیانات سے افغانستان پاک فوج کی مخلصانہ کاوشوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جس کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر عائد ہوگی ۔