SUPER FEATURE

غیرفطری طریقےسےسائنسی نتائج اخذ کرنےکی بیکارکوشش

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی

غیرفطری طریقےسےسائنسی نتائج اخذ کرنےکی بیکارکوشش ۔۔جدید سائنس کے نکتہ  نظر سے کیا سائنس اور عقیدہ ایک د وسرے کے  متضاد ہیں ؟ یا یہ ایک دوسرے کےساتھ چل سکتےہیں ؟اگر یہ ہم آہنگ کئے جاسکتےہیں تو کس حد تک ؟ اس زمانے کے دو بڑے سائنسدان ان مسائل کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

ڈاکٹر پرویز ہود بھائی فزکس کے عالمی سائنسدان ، محقق ،ریاضی دان اور استاد ہیں ۔ ایم آئی ٹی امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں ۔ آپ کے پارٹیکل فزکس پر مختلف تحقیقی مقالے عالمی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔ سائنس،تعلیم ،انسانی حقوق اور سوشل ایشوز پر لکھتے ہیں ۔

اب ظاہر ہے کہ یہ سوالات بہت مشکل ہیں اور اس میں طرح طرح کی آرا ہیں۔۔ لیکن میں آپ کے سامنے  دو سائنسدانوں کے خیالات پیش کرتا ہوں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ ان میں سے ایک طرف پروفیسرعبد السلام ہیں ۔

 آپ ضرور جانتے ہوں گے کہ پروفیسر سلام اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے۔ ان کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا۔ 1974تک وہ آئینی طور پر مسلمان ہی مانے جاتے تھے ۔ ۔ لیکن پارلیمان کے فیصلے کے نتیجے کے تحت ان کو اور ان کی جماعت کو اسلام سے خارج کر دیا گیا ۔ لیکن ان کی سوچ پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ کہتےرہے کہ قرآن شریف سائنس کی طرف دعوت دیتا ہے ۔

ڈاکٹر عبد السلام جو فزکس میں پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ ہیں ۔ فوٹو کریڈٹ :دی پرنٹ ڈاٹ ان

پروفیسر سلام کو نوبل پرائز سے نوازا گیا تھا کیونکہ انہوں نے ایک بڑا کامیاب نظریہ پیش کیا تھا جس میں قدرت کی بنیادی طاقتیں شامل تھیں ۔۔ ایک طرف برقی مقناطیسی  اور دوسری طرف کمزور طاقت ۔پروفیسرعبد السلام نے  ان دونوں  طاقتوں  کو یکجا کیا ۔

اُن کا یہ کہنا ہے کہ وہ اس عمل کی طرف اس لئے گئے۔۔ کہ یہ قرآن شریف کی تلقین تھی اور وحدت اور توحید کی تلاش میں وہ اس سمت میں نکلے ۔

کوارک اور الیکٹران سے باریک اور بنیادی زرات  بھی ہو سکتے ہیں،پروفیسر سلام

ایک اور انٹرویو میں وہ یہ کہتے ہیں کہ کوارک اور الیکٹران سے باریک اور بنیادی زرات  بھی ہو سکتے ہیں اور وہ ان کی تلاش میں اس لئے نکلے کیونکہ قرآن  نے اس کی طرف  بھی اشارہ کیا ہے ۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت کی دو طاقتوں  کو یکجا کرنا فزکس کے اعتبار سے ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ یہ کام عبد السلام نے ایمپریل کالج لندن اور تریستے اٹلی میں دوران قیام سرانجام دیا تھا۔

عبد السلام کےعلاوہ ایک اورسائنسدان بھی ہیں ۔ سٹوین وائن برگ ۔۔جنہوں نے ایم آئی ٹی میں  ہوتے ہوئے ۔۔ یعنی سمندر پار بیٹھ کر یہی تحقیق پیش کی ۔ غالبا انہوں نے چند ماہ پہلے ہی یہ کام کر دیا تھا۔واضح رہے کہ  سٹیون وائن برگ کسی طورپر ایک مذہبی شخص نہیں ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں ۔ میں یہ لکھتا چلوں کہ میرا مقصد یہاں بحث کرانا مقصود نہیں ۔

سٹیون وائن برگ جو لادین مانے جاتے ہیں ۔ فوٹو کریڈٹ :ورلڈ سائنس فیسٹیول

  چالیس سال پہلے ایم آئی ٹی میں ان سے میں نے کورس پڑھا تھا۔  یہ کوانٹم میکانیات فزکس کا مضمون تھا۔ میں اس وقت ان  کے نظریات ،سیاسی اور مذہبی خیالات سے واقف نہیں تھا۔ البتہ چند سال بعد  مجھے یہ معلوم ہوا  کہ  وہ ایک "یہودی دہریہ ” کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ ان سے منسوب اس انوکھی اصطلاح کامطلب کیا ہے ؟ یہ جاننے کے لئے میں نے کچھ وقت پہلے انہیں ایک ای میل بھیجی اور کہا کہ ذرا اس کی وضاحت کریں ۔ سٹوین کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا۔

پرویز ۔۔ میں کسی بھی مذہب کا پیرو کار نہیں رہا۔ تو اس لحاظ سے مجھے یہودی کہنا غلط ہوگا۔ لیکن یہودی کا مطلب عرب یا کرد کی طرح کا بھی ہوسکتا ہے ۔ یعنی یہ ایک نسل یا ذات سے ہم معنی ہوسکتا ہے ۔ ہر نسل اور ہر ذات کے ارتقا میں قدرتی طور پر ایک قربت کا احساس ہوتا ہے ۔ تو اس لحاظ سے شاید آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک یہودی ہوں ۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں دہریہ  ہوں ۔بچپن میں میرا خدا پر ہلکا پھلکا ایمان تو ضرور تھا لیکن دس سال کی عمر میں پہنچنے پر یہ ختم ہوگیا۔

ان کے جواب یہ  امر واضح ہے کہ وائن برگ اور عبد السلام میں نظریاتی اور مذہبی لحاظ سے زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ ایک طرف وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور دوسری جانب  ایک وہ ۔۔جوخدا کی ذات سے ہی انکار کرتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ دونوں فزکس کی ایک ہی تھیوری پر پہنچے؟

قدرت کی بنیادی طاقتوں اور اصولوں پردونوں کی گہری نظر تھی ۔۔

تقریبا پچیس سال پہلے میں نے سوال اٹھایا اور ایک چھوٹی سی کتاب لکھی جس کا دیپاچہ میں چاہتا تھا کہ پروفیسر سلام لکھیں ۔۔

کتاب اسلام اور سائنس کا سرورق
فوٹو کریڈٹ: اقبال احمد فاؤنڈیشن

میں نے ان سے جب گزارش  کی تو مجھے یہ امید نہیں تھی کہ دیپاچہ لکھنے پر راضی ہو جائیں گے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت حد تک ہمارے  خیالات مختلف تھے ۔  جب وہ راضی ہوئے تو میں بے حد خوش ہوا۔  اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے ۔۔ میں  اس میں سے کچھ سطریں  لکھ رہا ہوں ۔

پروفیسر سلام نےدیپاچے میں لکھا ۔۔

جب پرویز ہود بھائی نے مجھ سے کہا کہ اس کتاب کا دیپاچہ لکھوں تو ساتھ ساتھ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ شاید میں کتاب کے نکتہ نظر سے اختلاف کروں گا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ان کی کسی بات سے اختلاف نہیں کرتا۔ہود بھائی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ وائن برگ اور سلام نے ایک ہی کام کیا تھا

یہ کہنا تھا پروفیسر سلام کا ۔۔ گو کہ دونوں سائنسدان نظریاتی لحاظ سے بہت مختلف تھے۔

دیپاچے کے  اس پیراگراف کے آخر میں سلام کھتے ہیں ۔۔

اگر چہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں ضرور یہ چاہتا تھا کہ بنیادی قوتوں کا اتحاد ہو سکے ۔ لیکن یہ بات صرف میرے غیر شعور کی حد تک موجود تھی

 گویا سائنسی میدان میں تحقیق کرتے وقت پروفیسر سلام کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ انہیں کوئی مذہبی فریضہ پورا کرنا ہے ۔ یقینی طور پر سائنس کا طریق کا ر بالکل مختلف ہے ۔1986 میں جس وقت میں ٹریستے اٹلی میں  تھا تو ایک دن پروفیسر سلام نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کو دو سائنسدانوں مائیکل  مورافچے اورجان زائمن نے ایک مسودہ بھیجا ہے اور کہا  ہے کہ  سلام صاحب دیپاچہ لکھنے کی درخواست ہے ۔چونکہ پروفیسر سلام  کے پاس اتنا وقت نہیں تھا تو انہوں  نے مجھ سے لکھنے کو کہا  ۔۔

 جس پر میں نے کہا کہ ۔۔ آپ تو بہت بڑے آدمی ہیں اور وہ دونوں سائنسدان  ضرور چاہتے ہوں گے کہ سلام ہی تحریر کریں ۔۔اس پر پروفیسر سلام نے جواب دیا کہ” چلیں ہم دونوں لکھ دیتے ہیں” ۔

میں اس لئےیہاں  یہ ذکر کر رہا  ہوں کیونکہ سلام صاحب کی کچھ باتیں بالکل واضح کرتی ہیں کہ سائنس کے بارےمیں ان کی کیا سوچ تھی ۔ اس کتاب کا نام ہے۔۔آن دی روڈ ٹو ورلڈ وائڈسائنس  ہے۔۔ میں اس میں سے صرف چند سطریں لکھ رہا ہوں ۔

ہم جانتےہیں کہ سائنس انسانی ذہانت کا ثمر ہے ۔۔ اور یہ طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ۔ آج جدیدتحقیق نے ثابت کر دیاہے کہ انسان ایک کمپیوٹر کی مانند ہے ۔ جس کی اندرونی ساخت پہلے سے طے شدہ ہے ۔ اسے محض اپنے مخصوص ماحول سے کسی سگنل کا انتظار ہے ۔ جس کے بعد تمام تخلیقی اور تحقیقی کام شروع ہو جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے سائنس کا ایجاد ہونا ناگزیر تھا۔ اور یہ دنیا کے کسی بھی حصے میں سب سے پہلے ایجاد ہو سکتی تھی ۔

 آخر میں ایسے افراد کے بارے میں لکھنا چاہوں گا جو آسمانی کتابوں کے مطالعے سے سائنس  کے نتائج اخذ کرنا چاہتے ہیں لیکن جیسا کہ وائن  برگ اور سلام کی مثال ثابت کرتی ہے کہ  یہ بیکار کوشش ہے۔  اس لئے کہ سائنسدان کی نسل کچھ بھی ہوسکتی ہے ۔ وہ کسی بھی قوم کا ہوسکتا ہے ۔ اس کا کوئی بھی مذہب ہو سکتا ہے ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے وجود سے ہی انکاری ہو جیسا کہ وائن برگ ۔۔

یہ بھی پڑھیئے:قائد اعظم ایک عہد ساز شخصیت

سائنسدان کے لئے محض ایک چیز اہمیت رکھتی ہے ۔ عقل اور تجربہ ۔۔ ان کو جب حقیقت کی کسوٹی پر رگڑا جاتا ہے تو اس وقت  سچائی کا پتہ چلتا ہے ۔ اور یہی شاید سائنس کی سب سے خوبصورت بات ہے ۔ اس لئے کہ پھر تمام دوسرے فرق مٹ جاتے ہیں۔ رہ جاتی  ہے معروضیت ۔۔

Related Articles

Back to top button