لذیذ کھانوں سے ہاتھ روکنا کیوں نا ممکن ہے ؟

ایاز بیگ، سپر لیڈ نیوز۔ جب بھی آپ کسی جسمانی مشقت سے فارغ ہوتے ہیں تو آپ کو بلاشبہ شدید بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ یہ شدید بھوک نہ صرف آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر بے چین کرتی ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر آپ کے اندر ایک عارضی چستی کی طاقت بھی فراہم کرتی ہے جس کا اظہار آپ کے خوراک کو تلاش کرنے کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان تمام رویوں کے پیچھے انسانی دماغ میں بننے والا ایک ایک کیمیکل ہے جسے ڈوپامین (Dopamine) کہتے ہیں۔ڈوپامین ایک ایسا طاقتور کیمیکل ہے جس کی کم مقدار انسان کے اندر کسی چیز کو پا لینے کی خواہش پیدا کرتا ہے اور جب خوراک کا نوالہ انسانی زبان پر پڑتا ہے تو پھر انسانی دماغ بھرپور مقدار میں ڈوپامین پیدا کرتا ہے جو انسانی دماغ میں موجود ریوارڈ سسٹم کو ابھارتا ہے اور اس سے انتہائی لذت اور خوشی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

چونکہ خوراک جسم کے اندر داخل کرنے سے انسان کو اپنے جسم کی نشوونما، مرمت اور روزانہ کے کام کاج سرانجام دینے کے لئے توانائی حاصل ہوتی ہے اس لیے انسانی دماغ خوراک کھانے کے عمل کو ایک احسن کام سمجھتا ہے اور جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو یہ آپ کو لذت اور خوشی کا احساس دلاتا ہے۔

اگرچہ کھانا کھانے سے لذت اور خوشی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ لذت کے جادو میں محصور ہوکر بسیار خوری کے مرتکب ہو جائیں(کیونکہ بہرحال زیادہ کھانا بھی ایک خطرناک عمل ہے), چناچہ جیسے جیسے آپ کھانا کھاتے ہیں ویسے ویسے انسانی دماغ ڈوپامین بنانا کم کر دیتا ہے کیوں کہ جس مقصد کے لیے ڈوپامین پیدا کرنا تھا وہ حاصل کیا جا چکا ہے. آپ کو لذت کا احساس کم ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ دیر بعد آپ کھانا ترک کر دیتے ہیں۔

چونکہ انسان کی خوراک بہت سی اقسام پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے ہر خوراک کی قسم انسانی دماغ میں ایک جیسی لذت کا احساس پیدا نہیں کرتی۔ بعض کھانوں کو کھا کر انسانی دماغ میں ڈوپامین کی مقدار بہت زیادہ پیدا ہوتی ہے جس سے شدید خوشی کا احساس ہوتا ہے اور بعض کھانوں کو استعمال کرکے ڈوپامین انتہائی کم مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ہم اس کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر ہماری خوراک میں چینی(Sugar) اور روغنیات (Lipids) اگر بھاری مقدار میں موجود ہیں تو اس سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین کی مقدار بہت زیادہ خارج ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ میٹھی اور تلی ہوئی چیزیں کھانے سے انسان کو خوشی کا احساس ہوتا ہے۔جب کبھی آپ بوریت محسوس کر رہے ہوں اور یکدم آپ کے سامنے میٹھی اور تلی ہوئی چیز سامنے آجائے تو یقینا آپ کے منہ میں پانی آ جائے گا۔

خوراک میں مٹھاس(Sugar) ،لحمیات(Proteins) اور روغنیات(Fats) ہزاروں لاکھوں سالوں سے انسانی خوراک کی تاریخ میں اس بات کی علامت رہی ہیں کہ یہ خوراک توانائی اور معدنیات سے بھرپور ہیں۔ لہٰذا انسان ہمیشہ سے ہی ان کے لئے شدید چاہت اور بھوک رکھتا آیا ہے۔اور اسی خوراک کو کھا کر انسان کی سخت ترین ماحول میں بچت ممکن ہوتی آئی ہے۔اور چونکہ یہ خوراک میں موجود مذکورہ بالا اجزاء انسان کو کبھی بھی اپنے ماحول سے اتنی زیادہ مقدار میں میسر نہیں ہوئیں تھی لہذا ان کا حد سے زیادہ استعمال کبھی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہو سکا اور انسان ان اجزاء کے زیادہ استعمال کے اثرات سے محفوظ رہا۔

موجودہ صنعتی دور میں ان اجزاء کو قدرتی خوراک میں سے خالص حالت میں نکالا جاتا ہے اور اسے آج کی دور کی نت نئی خوراک کی اقسام میں وافر مقدار میں ڈالا جاتا ہے۔

موجودہ دور کی انسان کی بنائی ہوئی صنعتی خوراک مثلا پیزا، برگر، آئسکریم، ڈونٹ، کریم کیک، رس ملائی، حلوہ جات، مٹھائیاں، بسکٹس، کوکیز، انرجی ڈرنکس، بریڈ، پاستہ، سویاں، کاربونیٹڈ ڈرنکس، چاکلیٹس، کینڈییز، ٹافیاں، چپس، سرخ رنگ کے مشروبات، اس طرح کی اور بہت ساری چیزوں میں چینی، نمک اور تیل کی مقدار حد سے تجاوز کر دی گئی ہیں۔ جس کے نتیجے کے طور پر ان خوراک کے استعمال سے انسانی دماغ میں ضرورت سے زیادہ ڈوپامین کی مقدار پیدا ہوتی ہے جس سے انسان کو حد سے زیادہ لذت کا احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے انسان کو گھر کے کھانے کی بجائے باہر کے کھانے کھانے میں زیادہ لذت محسوس ہوتی ہے۔ اور جب کبھی بھی آپ بوریت محسوس کرتے ہیں تو آپ کو ضرور اپنے فیملی ممبرز یا دوستوں کے ساتھ کھانے پینے کی ہی سوجھتی ہے اور وہ بھی گھر سے باہر ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں۔

ان چیزوں کے استعمال سے بظاہر آپ کو لذت مل رہی ہوتی ہے اور ان کو بیچنے والی فوڈ کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے لیکن بہرحال نقصان آپ کا ہی ہوتا ہے کیونکہ ارتقائی نقطہ نظر سے انسانی جسم ان چیزوں کی خوراک میں اتنی زیادہ استعمال کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ لہذا وقت کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کے مسلسل استعمال سے انسانی جسم جواب دے جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو آج کے صنعتی دور کے انسان سے پہلے کبھی بھی انسانی آبادیوں میں موجود نہیں تھی۔مثلا موٹاپا، ذیابطیس، فشار خون، الزائمر وغیرہ۔

جب کسی خوراک کو کھانے سے بہت زیادہ لذت محسوس ہو تو انسانی دماغ اس کھانے کو اپنی یاداشت میں قید کر لیتا ہےاور جب کبھی بھی ضرورت پڑے تو اسے حاصل کرنے کے لئے آپ کو ابھارتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہر وہ خوراک جس سے بہت ڈوپامین پیدا ہوتا ہے اس خوراک کو بکثرت استعمال کرنا ہماری عادت بن جاتا ہے۔ جیسے ہم روزانہ روٹی چاول، سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ خوراک کے استعمال سے ڈوپامین بہت زیادہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے اس خوراک کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی خواہش بھی بڑھ جاتی ہے اور پھر ہم اس کے حصار میں قید ہو جاتے ہیں۔ یقینا یہی حالات اس شخص کے دماغ میں بھی پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔جی ہاں منشیات کے استعمال سے بھی انسانی دماغ میں ڈوپامین کی بہت زیادہ مقدار پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ ڈوپامین کی زیادہ مقدار انسانی دماغ کو خوشی مہیا کرتی ہے لہٰذا بار بار منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والا ڈوپامین انسانی دماغ کو ایک گھن چکر میں گھیر لیتا ہے جس میں انسان ہر دفعہ نشے کی مقدار کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈوپامین کی مقدار حاصل کی جا سکے جس سے باہر آنا اس شخص کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور اس شخص کے منشیات کے استعمال کی وجہ سے اس کے رویے میں تبدیلی آتی ہے جو اس کے معاشرتی اور معاشی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔اور انسان دنیا و آخرت کو خراب کر لیتا ہے اور جسمانی اور ذہنی طور پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔