ایوب  کا ماڈل اورریاست مدینہ کی خواہش

تاریخ آگے بڑھتی جاتی ہے اور اس کے نت نئے تقاضے ایجنڈے پہ آتے چلے جاتے ہیں، لیکن مملکتِ خداداد کا فکری چلن نرالا ہے کہ ماضی کے بری طرح پٹے پٹائے نسخے بار بار جھاڑ جھونک کر پیش کیے جاتے ہیں اور اسلاف کے سنہری زمانے کے خواب سیاست کے دنیاوی بازار میں ایسے بیچے جاتے ہیں جیسے واقعی روحانی قلبِ ماہئیت درکار ہو ۔ آج کل پھر سے مغلوب پارلیمانی سیاست کی مٹی پلید کی جارہی ہے اور صدارتی نظام کی خوبیوں کے گیت گائے جارہے ہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان بیک وقت ایوب خان کے ’’ترقی کے ماڈل‘‘ کی خوبیاں بیان کرتے کرتے تان توڑتے ہیں تو ریاستِ مدینہ پر اور یہ بھول کر کہ یہ دونوں سیاسی و نظریاتی اصطلاحیں اپنے تاریخی پس منظر اور معنی میں انتہائی مختلف اور ناقابل موزانہ ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے وائسرائی نظام کے پروردہ سول و ملٹری نوکر شاہی ڈھانچے اپنے اختیارات و مفادات کے لیے صدارتی یا پھر چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے شب خون کے متلاشی رہتے ہیں جس کا آغاز گورنر جنرل کے عہدے کی صورت میں ہوا تھا۔ 

پاکستان بننے پر 1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ جس میں گورنر جنرل کلیدی اہمیت کا حامل تھا، کے علاوہ کوئی انتظام نہ تھا، لہٰذا قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل ٹھہرے جو کہ ایک عبوری انتظام تھا لیکن گھات میں بیٹھے نوکر شاہی کے سرغنہ اس انتظار میں تھے کہ کسی طرح گورنر جنرل کے منصب کو ہتھیا کر جمہوری نظام کو چلتا کیا جائے۔ 

خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد گورنر جنرل بنے پھر سکندر مرزا اور اُن سے فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار سنبھال کر پاکستان میں مارشل رول کی بنیاد ڈال دی۔

بعد ازاں تین فوجی حکومتوں میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے صدارتی نظام کے مختلف چربوں کو اپنی اپنی سیاسی ضروریات کے مطابق استعمال کیا جن میں مثبت نتائج والی گماشتہ مقننہ کو بطور صدارتی ربڑ اسٹیمپ کے استعمال کیا گیا۔ 

صدر ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام تھا یا پھر جنرل ضیاء الحق کا ریفرنڈم اور غیرسیاسی مقننہ اور جنرل مشرف کا مصنوعی سیاسی بندوبست سب کے سب عوامی نمائندگی کی قبر کھود کر مسلط کیے گئے۔ 

ہر صدارتی فوجی ڈکٹیٹر کے زوال پہ ان کا گھڑا ہوا سیاسی اور نظریہ ضرورت کا ڈھانچہ بھی ہمیشہ زمین بوس ہوتا رہا اور یوں پاکستان جمہوریت کے راستے پہ گامزن نہ ہو سکا، اس کے نتیجے میں جو نقاہت جمہوری ادوار کو میسر آئی وہی ان کے زوال کا باعث بنی اور پھر سے صدارتی نظام کا ریکارڈ بجایا جاتا رہا۔ 

آج کل بھی ٹیلی ویژن اسکرینوں پر سند یافتہ نیم خواندہ ماہرین ہمیں صدارتی نظام کی افادیت پہ لیکچر دیتے اور پارلیمانی نظام کو کوستے نظر آتے ہیں جسے منصوبہ بند طور پر اپاہج بنا کے رکھا گیا ہے۔

اب آتے ہیں پہلے عمران خان کی جنرل ایوب خان کے ’’عشرہ ترقی‘‘ کی صبح شام تعریفوں اور اسی سانس میں ریاستِ مدینہ کی جانب رجوع کرنے کی روحانی خواہشوں کی طرف۔ 

شاید خان صاحب کو معلوم نہیں کہ ایوب خان کی ’’ترقی کا ماڈل‘‘ ہارورڈ کے معاشی مکتب کے ماہرین گستاف ایف پاپا نیک وغیرہ نے ترتیب دیا تھا جس کا رہنما اصول تھا ’’لالچ کا سماجی افادہ‘‘ (Social Utility of Greed)۔ اس لالچ کے نظریے کی رو سے ’’عملیاتی نابرابری‘‘ کی حکمت عملی کو اپنایا گیا جس کے نتیجے میں تمام دولت کو چند خاندانوں میں مرکوز کرکے مخصوص علاقوں کی ترقی پہ زور دیا گیا کہ شاید اس سے ترقی کے کچھ چھینٹے مظلوم طبقوں اور محروم علاقوں کو بھی مل پائیں گے۔ ایسا نہ ہوا۔ 

تمام دولت چند اجارہ دار، سرمایہ دار خاندانوں میں مرکوز کردی گئی اور مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبے محرومیوں کے اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ 

بیرونی طور پر اس ماڈل کا انحصار بیرونی ’’امداد‘‘ اور عالمی سامراجی سرپرستی پر تھا جو پاکستان کے مغربی فوجی معاہدوں، سیٹو، سینٹو اور بغداد پیکٹ کے ذریعہ میسر آگئی۔ یوں پاکستان ’’اتحادیوں میں بڑے اتحادی‘‘ کے طور پر سامنے آیا اور اس دست نگری اور مغربی کاسہ لیسی کے رشتے کے باعث ایوب خان امریکہ اور مغرب کی آنکھ کا تارا بنے۔ جس کی خان صاحب ہمیں بار بار یاد دلاتے ہوئے برا محسوس نہیں کرتے۔ 

’’ترقی کا یہ ماڈل‘‘ بھی سراب ثابت ہوا ۔ 60-65کے دور میں یہ اوپر اُٹھا اور 65-70کے زمانے میں زمین بوس ہو گیا۔ جو طبقاتی و علاقائی تفریق پیدا کی گئی اس کے نتیجے میں 1968کا عوامی اُبھار پیدا ہوا اور مشرقی پاکستان نے آزادی حاصل کرکے ترقی کی راہ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 

ایوب خان کے ماڈل نے جو بیرونی سرمایہ کی دست نگری پیدا کردی تھی وہ اب قرض کے شکنجے کی صورت اختیار کر چکی ہے اور پاکستان بغیر بیرونی قرضے کے اپنے دفاع سے لے کر تمام تر اخراجات کے لیےقرض لینے پر مجبور ہے۔ جو خیر سے کپتان کی حکومت کے اختتام تک تقریباً دگنا ہونے جارہا ہے۔ 

صدارتی نظاموں کی لائی بربادی کے باوجود اور ملک کے دولخت ہونے کے باوجود بھی پرانے ثنا خواں صدارتی نظام کے قصیدے پڑھنے سے باز نہیں آرہے اور اس کے باوجود کہ صدارتی نظام کا مطلب اکثریتی صوبے پنجاب کی باقی تین صوبوں پہ مطلق حکمرانی ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ مقتدرہ مثبت نتائج سے اپنا صدر منتخب کرائے اور عوامی نمائندگی کے نظام کو غیرموثر کر کے کونے سے لگادے۔ 

کیا یہ حضرات بھول گئے ہیں کہ 1968کی عوامی تحریک کے نتیجے میں نہ صرف بالغ حق رائے دہی کو تسلیم کیا گیا تھا بلکہ پارلیمانی نظام کو بھی قبول کرلیا گیا تھا۔ اور اسی کے تسلسل میں 1973کے آئین کو پارلیمانی، وفاقی اور جمہوری خطوط پر اتفاق رائے سے نافذ کیا گیا تھا جسے بار بار کی کوششوں کے باوجود ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جا سکا۔

حیران کن پہلو یہ ہے کہ ایوب خان کے دور کے گیت گاتے گاتے عمران خان ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی جانب مراجعت کرنے کی رٹ لگانے میں زور شور سے مصروف ہیں۔ 

کوئی انہیں کیوں نہیں بتاتا کہ میثاقِ مدینہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں بقائے باہم کامعاہدہ تھا جو قابلِ تکریم ہے اور جسے ہم پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے اپنانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی ریاست نہ تھی۔ 

جدید قومی ریاست وجود ہی میں 1648کے ویسٹ فیلیا کے امن معاہدے کے بعد میں وجود میں آئی۔ اور صنعتی زمانے میں یہ جمہوری صورت میں متشکل ہوئی۔ ریاست اور مذہب جدا ہوئے۔ عوام اقتدار اعلیٰ کے مالک بنے اور اختیارات کی تقسیم کا ایک واضع نظام مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کی صورت میں موجود میں آیا جس میں انتظامیہ عوام کو جوابدہ ٹھہری۔ 

جب بھی مطلق العنان حکمران یا جب عوامی رہنما عوامی حمایت کھو بیٹھتے ہیں تو وہ مذہب کے مقدس نام کو استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے۔ عمران خان بھی دو کشتیوں میں پائوں رکھ کر جمہوریت کی نیا ڈبونے پہ تُلے ہیں۔انہیں کوئی سمجھائے تو کیسے؟