بلوچوں کو منانے کا دلچسپ کھیل

وقت اشاعت :8جولائی2021

ناراض بلوچوں  کو منانے کا عمل ایک مرتبہ پھر شروع ، کیا اس عمل سے لاپتہ افراد گھر واپس آجائیں گے؟ وزیر اعظم نے شاہ زین بگٹی کو اپنامعاون بنا کر اہم ٹاسک دے دیئے ۔

سینئر صحافی شہریار خان کا تعلق اسلام آباد سے ہے ۔ سیاسیات ،سماجی مسائل اور توہم پرستی پر لکھتے ہیں ۔ دو کتب کے مصنف ہیں ۔آپ کے مضامین مختلف فورمز پر شائع ہوتے ہیں ۔ قارئین ان سے فیس بک پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ناراض بلوچ رہنماؤں کو منانے کے مشن کا آغاز ہو گیا ہے ۔ اس مرتبہ اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سول حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم نے خود ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات کی ہے ۔ دوسری جانب ملٹری پالیسی میں بھی لچک کا اشارہ آرمی چیف کے جی ایچ کیو میں خطاب کے دوران ملا ہے ۔ آرمی چیف نے بلوچستان کی ترقی کو پاکستان کی ترقی قرار دیا تھا ۔ ساتھ ہی آرمی چیف نے علیحدگی پسندوں کو وارننگ بھی دی تھی ۔

وزیراعظم آفس کا منصوبہ

وزیراعظم عمران خان نے ناراض بلوچوں کو منانے کے لئے شاہ زین کو کس قسم کے رابطوں کے ٹاسک دیئے ہیں ، یہ رابطے کس سطح کے ہوں گے ؟اس کی سرکاری طور پر تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں مگرذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعظم عسکریت پسندوں، علیحدگی پسندوں اور علاقائی علیحدگی پسند قبائل کو بھی منانا چاہتے ہیں۔ یقینی طور پر وزیراعظم بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے رہنماؤں سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں اور ان کا موقف سننا چاہتے ہیں ۔

 

شاہ زین بگٹی کی کیا اہمیت ہے ؟

شاہ زین بگٹی طلال اکبر بگٹی مرحوم کے بیٹے یعنی اکبر خان بگٹی کے پوتے ہیں ۔ اپنے والد طلال بگٹی کی وفات کے بعد اپنی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ بنے اور تب سے سیاسی معاملات چلا رہے ہیں ۔ شاہ زین بلوچ حلقوں میں اہم مقام رکھتےہیں ان کا اثر رسوخ بھی ہے تاہم علیحدگی پسندوں کے آگے ان کی کوئی اہمیت نہیں ۔ بعض بلوچ حلقے شاہ زین بگٹی کو مفاد پرست قرار دیتےہیں جبکہ کئی مقامی رہنما بھی ان کو پسند نہیں کرتے۔ بعض حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ شاہ زین بگٹی اور دیگر علیحدگی پسندوں کا نظریہ ایک ہی ہے تاہم ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں اور دکھانے کے اور۔

ناراض رہنماؤں میں سب سے پہلے کسے منانا ہوگا ؟

وزیراعظم آفس ملٹری پالیسی کے برعکس علیحدگی پسند براہمداغ بگٹی سے بھی بات چیت چاہتے ہیں ۔ ناراض رہنماؤں کا جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو اس سے مراد براہمداغ بگٹی ہی ہیں َ۔ اس کے بعد ڈاکٹر بشیر عظیم ، شیر محمد بگٹی کا نمبر آتا ہے ۔ یہ دونوں رہنما بھی بی آر پی یعنی بلوچ ریپلیکن پارٹی کے عہدیدار ہیں ۔ اسی طرح کئی قبائل بھی ایسے ہیں جو بظاہر خاموش ہیں مگر ان کے بارے میں سکیورٹی حکام دعوے کرتے ہیں کہ ان کا علیحدگی پسندوں سے رابطہ ہے ۔ پیچیدہ صورتحال اور کئی علاقے نو گو  ایریا ہونے کے باعث ان قبائل کی وابستگی کی آج تک تصدیق نہیں ہو سکی ۔ اگرچہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ایسے قبائل میں کئی حلقے علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرتےہیں ۔ یہی وجہ ہے  کہ ایسے قبائل کے نوجوان “لاپتہ”ہوتے رہتے ہیں ۔ ان میں نوجوان علیحدگی پسند بھی شامل ہوتے ہیں جبکہ کئی بے گناہ بھی شک کی بنیاد پر طویل تفتیش کے لئے سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رہتے ہیں ۔

براہمداغ بگٹی کون ہیں ؟

سب سے بڑے بلوچ علیحدگی پسند براہمداغ بگٹی ہیں جو اکبر بگٹی کے پوتے ہیں ۔ براہمداغ اپنے دادا اکبر بگٹی کی طرح سخت گیر موقف رکھتے ہیں اور کوئی لچک نہیں چاہتے ۔ وہ مزاحمت کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو اصولی سیاست کا علمبردارقرار دیتے ہیں ۔

براہمداغ بگٹی اس وقت اپنے خاندان کے ساتھ جنیوا میں رہائش پذیر ہیں ۔ 2015میں انہیں منانے کی کوشش ہو چکی ہے  جب اس وقت کے وزیراعلیٰ عبد المالک بلوچ اور وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ جنیوا پہنچے اور ان سے مذاکرات کی کوشش کی ۔ اس ملاقات میں براہمداغ نے سکیورٹی فورسز کے علاقے سے انخلا کی شرط عائد کی جسے  بعد میں  منظور نہیں کیا گیا۔

خفیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد حکومت پاکستان نے براہمداغ بگٹی کے گرد گھیرا تنگ کیا اور انہیں انٹرپول کی مدد سے گرفتار کرانے کی کوشش کی جو ناکام ثابت ہوئی ۔ اس دوران 2017 میں براہمداغ نے سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی جسے مسترد کر دیا گیا۔

حکومت پاکستان کی جانب سے ثبوت پیش کئے جانے کےبعد سوئس حکومت نے بھی یہی موقف اختیار کیا اور واضح کیا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث ان کی درخواست قبول نہیں کی جاسکتی ۔  سوئس حکومت نے ان کے قریبی رشتے دار مہران مری کا سوئٹزلینڈ میں داخلہ بند کر دیا۔ حکومت پاکستان کا تب سے اب تک یہ دعویٰ ہے کہ براہمداغ بھارت کے آلہ کار ہیں ۔ ان کے ہندوستانی پاسپورٹ کی بھی خبریں عام ہیں ۔ دوسری جانب براہمداغ بگٹی فورسز کو انسانیت سوز کارروائیوں کا الزام دیتے ہیں ۔

کیا شاہ زین بگٹی اور براہمداغ بگٹی میں رابطہ ہے ؟

یاد رہے کہ طلال بگٹی کی وفات سے پہلے ہی دونوں میں اختلافات کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں ۔ اسی دوران  اسلحہ برآمدگی کیس میں شاہ زین بگٹی کو بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے دفتر بلا کر تحویل میں لے لیا تھا۔

ان کی گرفتاری پر شاہ زین کے والد طلال اکبر بگٹی نے واضح کہا تھا کہ ان کے بیٹے کو ایجنسیوں نے اٹھا لیا ہے جبکہ پولیس نے یہ مقدمہ خوامخواہ اپنے سر لے لیا ۔ 23مئی 2008 کوشاہ زین بگٹی کو تمام مقدمات سے بری کر دیا گیا تھا۔اس وقت کےصوبائی وزیر داخلہ ظفراللہ زہری اور سینکڑوں لوگوں نے مچھ جیل سے باہر شاہ زین بگٹی کا خود استقبال کیا تھا۔

مچھ جیل کے سپرینٹنڈنٹ محمد رضا چنگیزی نے میڈیا سے گفتگومیں کہا تھا کہ شاہ زین کے خلاف قائم تمام مقدمات واپس لے لئے گئے ہیں ۔ یہ وہی دور تھا جب دونوں کزنوں میں حمایت بڑھی تھی ۔ اگرچہ اس کے بعد کیا ہوا کچھ واضح نہیں ۔ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ دونوں چچا زاد بھائیوں میں لڑائی باقی بھی رہی ہے یا نہیں۔

کیا اس مرتبہ حکومت پاکستان نیک نیتی سے آگے بڑھنا چاہتی ہے ؟

میری نظر میں افغانستان کی بگڑی صورتحال کے  تناظر میں پاکستان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔ ایسے حالات  میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان مزید کسی نئی مشکل یا چیلنج میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ ایسے میں پاکستانی فوج اور حکومت کی پالیسی درست سمت میں دکھائی دے رہی ہے ۔ اگر موجودہ حکومت بلوچ رہنماؤں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو کم از کم بلوچستان کا چیلنج درپیش نہیں ہوگا اور بڑا خطرہ ٹل جائے گا۔ اسے میں کئی لاپتہ افراد بھی گھر واپس آجائیں گے ۔

یہ بھی پڑھیے