ریاستِ پاکستان کی عزت کا سوال  

مصطفیٰ نواز کھوکھر میری عدم موجودگی میں بھی میرا ذکر نصرت انکل کے استعمال سے کرتا ہے۔اسے جب علم ہوا کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کا طالب علم رہا ہوں تو کئی بار میرے گھر آکر ہیگل،کانٹ اور سپائی نوزا جیسے فلاسفروں کی کتابیں بہت غور سے پڑھنے کے بعد ان کے نظریات کو پرخلوص تجسس کے ساتھ زیر بحث لاتا رہا۔نہایت مؤدب اور احترام کرنے والا شخص ہے۔سینٹ کی انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کا جن دنوں چیئرمین تھا تو حیران کن جرأت واستقلال کے ساتھ ایسے طاقت ور افراد کو اپنے رویے کا دفاع کرنے کو طلب کیا جن کا نام لیتے ہوئے بھی کئی پاٹے خانوں کے پر جلتے ہیں۔اسے اشتعال دلانا تقریباََ ناممکن ہے۔منگل کی شام مگر اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ایک صاحب کو تھپڑمارنے کو مجبور ہوگیا۔دیرینہ ذاتی تعلق کی وجہ سے میں اس کے رویے کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کرنے کے قابل نہیں اور منافقت سے گھن آتی ہے۔

جو واقعہ مگر ہوا اس کے حوالے سے بنائی وڈیوز کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کی وجہ سے مسلسل اس خدشے کو یاد کررہا ہوں جس کا اظہار اس کالم میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوجانے کے عین ایک دن بعد کیا تھا۔ جان کی امان پاتے ہوئے عرض گزاری تھی کہ اپنے دیوتا ٹھہرائے رہ نما کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ان کے جنونی مداحین نے جو جارحانہ رویہ اختیار کررکھا ہے وہ وطن عزیز کو شام جیسی خانہ جنگی کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ اس سے اجتناب ہی میں عافیت ہے۔

مذکورہ خدشے کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بخوبی علم تھا کہ اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئے ان دنوں کے پاکستان میں میری فریاد صدا بالصحرا ثابت ہوگی۔ بلھے شاہ کا پنجاب بھی کامل انتشار سے دو چار تھا۔وہ مگر تیرے عشق نچایا پکارتے ہوئے تھیا تھیا میں مصروف رہا۔ میں لاشعوری طورپر بھی انہیں اپنا مرشد تسلیم کرتا ہوں

عقل سے کامل محروم شخص ہی یہ حقیقت تسلیم نہیں کرے گا کہ 2011ء سے عمران خان صاحب نے پاکستان کے شہری متوسط طبقے اور خاص طورپر اس طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور خواتین کی ایک مؤثر تعداد کو اپنا مداح بنارکھا ہے۔سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے تحریک انصاف نے اپنے مخالفین اور ناقدوں کو ’’چور لٹیرے‘‘ اور ’’لفافے-ٹوکری‘‘ بھی ثابت کررکھا ہے۔بے تحاشہ افراد اس جماعت کے جارحانہ رویے کی وجہ سے اپنی عزت بچانے کے خوف سے کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ منیرؔ نیازی کے بقول لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرادینا چاہیے والا ماحول بن گیا۔

ہر شے کی طرح مگر خوف کی بھی ایک حدہوتی ہے۔ اپنے ہر ناقد کو اگر آپ ہجوم کی یلغار سے دیوار کیساتھ لگانے کی کوشش کریں گے تو بلی کی طرح بالآخر وہ آپ کا منہ نوچنے کو مجبور ہوجائے گا۔مجھے خدشہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ایسا ہی ردعمل نمودار ہونا شروع ہوگیا ہے۔

امریکی سیاست میں ٹرمپ کے مداحین نے بھی عمران خان صاحب کے مداحین جیسا رویہ اختیار کیا تھا۔ان کی بھڑکائی آگ 6جنوری 2021ء کے دن امریکی پارلیمان پر یلغار کا باعث ہوئی۔ٹرمپ نے اس یلغار کی مذمت سے گریز کیا۔دیدہ دلیر خاموشی سے بلکہ اس کا دفاع کرتا رہا۔اس کی رعونت بھری بے اعتنائی نے ٹویٹر اور فیس بک کو اسے اپنے پلیٹ فارموں پر بین کرنے کو مجبور کردیا۔امن وسکون کے متلاشی سوشل میڈیا کی اجارہ دار کمپنیوں کو مسلسل مجبور کررہے ہیں کہ وہ ٹویٹر اور فیس بک پر لوگوں کو غلط اطلاعات سے گمراہ کرنے اور اشتعال دلانے والی تحریروں اور تقاریر کو روکنے کا نظام وضع کریں۔گہری تحقیق کے بعد کئی جدید ماہرین نفسیات بھی صارفین سے التجا کررہے ہیں کہ وہ اگر پُرسکون زندگی کے خواہاں ہیں تو سوشل میڈیا سے کم از کم رجوع کرنے کی عادت اپنائیں۔ٹرمپ اور اس کے حامی جارحانہ رویہ ترک کرنے کو تاہم تیار نہیں ہورہے۔ اس کی وجہ سے مگر بتدریج سیاسی قوت واثر بھی کھورہے ہیں۔ہمارے ہاں تحریک انصاف کے مداحین بھی ان جیسی تنہائی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اگر آپ کسی سیاستدان اور صحافی کو چور لٹیرا  اور لفافہ-ٹوکری  پکارتے رہیں تو وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ عمران خان صاحب کے مداحین مگر غول کی صورت اپنے مخالفین پر آوازے کسنا شروع ہوجائیں گے تو ’’دوسرا تھپڑ‘‘ کھانے کو شاذہی ہمارے معاشرے میں کوئی تیار ہوگا۔

خدارا یہ مت بھولیں کہ ہمارے معاشرے میں  عزت کے نام  پر قتل ہوجاتے ہیں۔میرے بچپن کے لاہور میں کئی بار ایسی سنگین لڑائیاں دیکھناپڑی تھیں جن کا آغاز فقط اس وجہ سے ہوا کہ فلاں شخص مجھے گھورے  چلاجارہا تھا۔محض گھورنے  کی وجہ سے اشتعال میں آجانے والے معاشرے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی عوامی مقام پر آپ تحریک انصاف کے مخالف یاناقد کے خلاف بلند آواز میں توہین آمیز آوازیں کسیں اور وہ گہری ریاضت کے عادی صوفی کی طرح سرجھکائے بیٹھارہے یا اس مقام سے چلا جائے۔ برداشت مگر عرصہ ہوا ہم کھوبیٹھے ہیں۔دلیل کے بجائے دشنام کے عادی بن گئے ہیں۔بات مگر اب روایتی اور سوشل میڈیا پر توتکار سے آگے بڑھ رہی ہے۔تحریک انصاف کے مداحین اپنے مخالفین کی برسرعام بے  عزتی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔اس رویے کا ردعمل بھی شدید تر ہوگا۔

عمران خان صاحب کے لئے مناسب تو یہی تھا کہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوجانے کے بعد وہ کچھ دنوں کے لئے اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کے ساتھ طویل مشاورت میں مصروف ہوجاتے۔حقائق کے کامل ادراک اور بے رحم تجزیے کے بعد آگے بڑھنے کی حکمت عملی تیار کرتے۔ان کے چند مصاحبین اور سوشل میڈیا پر حاوی رحجانات نے مگر انہیں قائل کردیا ہے کہ گویا ان کے دیرینہ مداحین ہی نہیں بلکہ عوام کی بے پناہ اکثریت بھی ان کی معزولی سے خوش نہیں ہے۔عمران خان صاحب کو کامل یقین ہے کہ اگر شہر شہر جلسوں کے ذریعے انہوں نے عوامی ردعمل  کو بھڑکائے رکھا توشہباز حکومت فوری انتخاب کو مجبور ہوجائے گی۔ان کی توقع کے مطابق حکومت اور ریاستی ادارے فوری انتخاب کو مجبور ہوئے تو شاید آئندہ انتخاب لڑنے کے لئے ان کی مخالف جماعتوں کو کئی حلقوں میں امیدوار بھی میسر نہیں ہوں گے۔ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد  رقص میں سارا جنگل  ہوگا۔

ملکی سیاست کا عاجز طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ التجا کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ اگر فوری انتخاب یقینی بنانے کے لئے عمران خان صاحب نے موجودہ روش جاری رکھی تو فی الوقت  بھان متی کا کنبہ  نظر آنے والے ان کے مخالفین موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت ہر صورت مکمل کرنے کے لئے ہر طرح کا جائزو ناجائز حربہ اختیار کرنے کو مزید متحد ہوجائیں گے۔حکومت ہی نہیں  ریاستِ پاکستان  بھی اپنی  عزت  بچانے کے لئے متحرک ہوجائے گی۔ اس کے نتیجے میں بالآخر تحریک انصاف کے جنونی مداحین کے دل ودماغ میں کھولتا غصہ فقط وقتی ابال  ہی محسوس ہوگا۔ سیاست ایک طویل المدت عمل ہے۔اسے پانچ دنوں تک پھیلے ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلیں۔T-20کا مقابلہ نہ بنائیں۔