SUPER FEATURE

ہم زلزلےکےآفٹرشاکس روزمحسوس کرتے ہیں

دی سپر لیڈ ، اسلام آباد۔ ہم زلزلےکےآفٹرشاکس روزمحسوس کرتے ہیں ۔ کبھی پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو کبھی حکومتوں کی بے حسی پر روتے ہیں ۔ سب کچھ آج بھی ویسا ہی ہے ۔

سپر لیڈ نیوز کے مطابق بالا کوٹ کے رہائشی آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں ۔ قیامت خیز زلزلے کو پندرہ سال بیت گئے ہیں ۔ اس قدر بڑی تباہی ہوئی کہ جس کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مقامی افراد نے سپر لیڈ نیوز کے نمائندے سے گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہم تو زلزلے کے آفٹر شاکس ہر روز محسوس کرتے ہیں ۔۔

آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد سے اب تک تعمیر نو اور بحالی کا  کام ادھورا ہے ۔ جس سے مقامی افراد شدید کرب میں مبتلا ہیں ۔ لاکھوں شہریوں کو نیو بالاکوٹ سٹی میں نہ بسایا جاسکا۔دوسری جانب حکومت بھی اب دعوے کر رہی ہے کہ ستر فیصد کام مکمل ہے ۔ آٹھ اکتوبر کو زلزلہ صبح 8بج کر 50 منٹ پر آیا۔ 7.6شدت کے زلزلے سے کچھ باقی نہ رہا۔ زمین انسانی جانیں اور مکان کھیت کھلیان سب نگلتی رہی ۔ لینڈ سلائڈنگ ہوتی رہی ۔ چیخ و پکار سے آسمان کانپ گیا۔ قدرتی  آفت نے 73ہزار سے زائد انسانوں کو نگل لیا۔ایک لاکھ 28ہزارزخمی ہوئے۔6لاکھ گھر، 5ہزار تعلیمی ادارے ،700سرکاری عمارتیں دو ہزارکلومیٹر سڑکیں اور92پل زمین بوس ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیئے:کراچی کےجزائرکی ملکیت پروفاق اورسندھ میں نیاتنازع

پندرہ سال گزر گئے ہیں لیکن تعمیر نو اور بحالی کا کام آج بھی ادھورا ہے ۔ حکومتی ادارے ایرا کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں زیادہ تر کام مکمل کرلیا گیا ہے ۔ 6 لاکھ گھر، دو  ہزار  تعلیمی ادارے  اور 2 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں مکمل ہوچکی ہیں ۔ تاہم حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں ۔

متاثرہ علاقوں کی بحالی ایک خواب۔۔

 متاثرہ علاقوں میں نظام زندگی کی مکمل بحالی ایک خواب ہی لگتی ہے ۔سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں اسلام آباد میں مقیم بالا کوٹ کے رہائشی بلال راجہ نے کہا کہ ان کے والد اور بھائی  اس المناک سانحے میں نہ رہے ۔ جب زلزلہ آیا تو وہ محض15 سال کے تھے اور گھر کے پاس کھڑے تھے ۔ اچانک ہی زمین ہلنا شروع ہوئی اس کے بعد ہر طرف گھر گھرسے چیخ و پکار کی آوازیں سنیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی ادارے تو بروقت پہنچ گئے تھے مگر کئی راتوں تک ہمیں کھلے آسمان تلے خیموں میں رہنا پڑا۔

زلزلے کے بعد کئی سال تک وہ اپنے حواس پر قابو نہ رکھ پائے ۔ آج بھی  وہ واقعہ یادہے ۔ اپنے پیارے نہیں رہے مگر حکومتوں کی بے حسی نے بھی کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ بحالی نو میں سست روی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ لیکن کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ بلال راجہ کے ایک دوست نے بتایا کہ اس المناک سانحے کے بعد اصل دکھ حکومتوں کی بے حسی پر ہوتا ہے ۔ لیکن شاید یہی ہماری قسمت تھی

Related Articles

Back to top button