پاکستان میں پانی کہاں جارہا ہے؟

عامر ریاض ، لاہور۔ پاکستان میں پانی کہاں جارہا ہے؟ دریاؤں  کے ذریعے تقریبا 134ملین ایکڑ فٹ پانی پہاڑوں سے آتا ہے جو کہ ہماری زمینوں کو سیراب کرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

پانی کا 75 فیصد صرف مون سون کے مہینوں یعنی جون، جولائی اور اگست میں آتا ہے۔ جب شدید گرمی سے برف پگھلتی ہے اور شدید بارشیں ہوتی ہیں۔شدید بارشوں کے نتیجے میں یہ پانی سیلاب کی صورت میں بہت کچھ ڈبو دیتا ہے۔ اس طرح قدرت کا یہ عظیم عطیہ تباہی کی علامت بن جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پانی کو روکا جائے۔ ڈیم بنائے جائیں۔ ان ڈیمز سے سستی بجلی پیدا کی جائے اور نہریں نکالی جائیں۔ر جب ضرورت ہو تو اسے فصلوں کو مہیا کیا جائے۔

انیس سو ساٹھ میں  سندھ طاس معاہدہ ہوا، جس کے تحت تین مغربی دریا یعنی سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ اس سے ذرا پہلے ملک میں واپڈا کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ سندھ طاس میں پاکستان نے تین مشرقی دریاوں ستلج، راوی اور بیاس سے دستبرداری کی اور اس کے بدلے میں نیا سسٹم بنانے کے لئے عالمی بینک نے مدد کی۔ اب پاکستان کو مغربی دریاوں کا پانی محفوظ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سی رابطہ نہروں کا جال بنانا تھا اور نہروں کو کنٹرول کرنے کے لئے ان پر بیراج بھی تعمیر کرنے تھے۔ یہ کام واپڈا نے بہت احسن طریقے سے پورا کیا۔

منگلا ڈیم 1967 میں مکمل ہوا

عالمی بینک نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ دریائے جہلم پر روہتاس یا منگلا کے مقام پر ڈیم بنایا جائے تاکہ فوری طور پر جہلم دریا کا پانی ذخیرہ کرکے اسے نہروں کے سسٹم میں ڈالا جائے۔ اس ڈیم پر 1963 میں کام شروع ہوا۔ عالمی بینک نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی تعمیر ایک مشہور زمانہ امریکی فرم نے شروع کی۔ یہ ڈیم 1967 میں مکمل ہو گیا جس سے تقریبا 6 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہونا شروع ہوا۔ اس کے علاوہ نہایت سستی بجلی بھی ملنا شروع ہو گئی جو کہ تقریبا 1500 میگاواٹ تھی۔

واپڈا کا پلان یہ تھا کہ ہر 9 سال کے بعد پاکستان میں ایک نیا ڈیم بنایا جائے گا۔ اس لیے دریائے سندھ پر نیا ڈیم بنانے کی بات شروع ہوئی۔ عالمی بینک نے حکومتِ پاکستان کو کہا کہ دریائے سندھ پر سب سے پہلے کالاباغ ڈیم بنایا جائے جو کہ سب سے سستا بنے گا۔ اس کے علاوہ اس کے معاشی فوائد بھی باقی سب ڈیموں سے زیادہ ہیں۔

کالا باغ ڈیم ایک تلخ خواب۔۔

کالاباغ ڈیم کی زمین ایک قدرتی سائیٹ ہے اور یہاں ڈیم بہت موزوں اورجلدی بن سکتا ہے۔ کالاباغ کے علاوہ دوسری سائیٹ تربیلا تھی یہاں بھی بڑا ڈیم بن سکتا تھا لیکن نسبتا مشکل جگہ تھی۔گوکہ عالمی بینک کالاباغ ڈیم پر ہی مصر تھا۔ لیکن حکومت پاکستان کی خواہش پر تربیلا ڈیم پر کام شروع کیا گیا۔

اس ڈیم پر 1968 میں کام شروع ہوا یعنی منگلا ڈیم کے بننے کے ایک سال بعد اس ڈیم میں ذخیرہ ٔ آب کی گنجائش سات ملین ایکڑ فٹ تھی اور تقریباً 3 ہزار میگا واٹ بجلی بن سکتی تھی۔ کیونکہ یہ مشکل ڈیم تھا اس لیے اسے بنانے میں تقریبا 8 سال لگے اور 1976میں ڈیم مکمل ہوا۔

انیس سو پچاسی میں واپڈا نے کالاباغ ڈیم پر کام شروع کرنا چاہا ۔اس کے لیے ابتدائی سروے شروع ہوا۔ لیکن جلد ہی یہ ڈیم سیاسی تنازعات کا شکار ہو گیا۔ اس وقت کے صوبہ سرحد کی چند جماعتوں نے یہ کہا کہ اس سے نوشہرہ کو خطرہ ہے، اس پر کام نہ ہونے دیا۔ گوکہ دنیا کی ہر سٹڈی میں کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں کیونکہ کالاباغ کی انتہائی اونچی سطح سے بھی نوشہرہ خاصی اونچائی پر ہے۔

کالا باغ ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت سندھ نے کی

کچھ عرصے بعد صوبہ سندھ سے بھی کالاباغ ڈیم کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں کہ اس سے صوبے کا پانی کم ہو جائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تربیلا ڈیم کا تقریبا 63 فیصد پانی صوبہ سندھ کو دیا جاتا ہے۔ جس سے سندھ کی نہریں سارا سال بہتی ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم بنایا جائے تو اس کی بدولت صوبہ سندھ کی مزید تقریبا آٹھ لاکھ ایکڑ اراضی زیر کاشت آ سکتی ہے۔

کالا باغ ڈیم کا مجوزہ ڈیزائن جو منظور ہونے کے باوجود کاغذوں تک محدود رہ گیا۔ فوٹو کریڈٹ :واپڈا

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کی تقریبا 6 لاکھ ایکڑ اراضی جنوبی علاقوں یعنی ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں زیرِ کاشت آ سکتی ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کے پی میں دریائے سندھ تقریبا 600 کلومیٹر تک بہتا ہے لیکن وہاں اس دریا کا پانی اس لیے استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ دریاکی سطح بہت نیچی ہے۔ یہ صرف کالاباغ ڈیم ہی سے ممکن ہے کہ وہاں 6 لاکھ ایکڑ زمین جنوبی علاقوں میں زیرِ کاشت لائی جاسکتی ہے۔

بہرحال اس ڈیم پر کام شروع نہ ہو سکا۔ اس طرح ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو رہا ہے اور ہم سستی بجلی سے بھی محروم ہیں۔

ملک میں 1976کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہ بن سکا

انیس سو چھہتر کے  بعد سے ملک میں کوئی بڑا ڈیم نہ بن سکا۔ اس وقت ملک میں تین بڑے دریا ہیں۔ دریائے سندھ پر ممکنہ مقامات کالاباغ ،بھاشا، بونجی، داسو، سکردو اور اکھوڑی میں اسی طرح دریائے جہلم پر روہتاس کے قریب بڑا ڈیم بن سکتا ہے۔ دریائے چناب پر چنیوٹ کے مقام پر ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دریائے کابل پر منڈا کے مقام پر مہمند ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔

ملک میں نئے ڈیم بنائے جانے بہت ضروری ہو چکے ہیں، کیونکہ تربیلاجھیل چالیس فیصد مٹی سے بھر چکی ہے۔منگلا ڈیم بھی تیس فیصد مٹی سے بھر چکا ہے۔ منگلا ڈیم صرف سیلاب کی صورت میں ہی بھر سکتا ہےاگر سیلاب نہ آئے تو یہ مکمل بھر نہیں سکے گا۔

کیونکہ کالاباغ ڈیم تنازعات کی زد میں تھا ۔اس لئے سپریم کورٹ نے ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا کہ فوری طور پر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم پر کام شروع کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان نے فوری کام کی ہدایات دیں ، اس ڈیم کا ایک فنڈ بھی شروع کیا گیا۔

نئے ڈیمز کے مںصوبے

مہمند ڈیم دریائے سوات پر منڈا کے مقام یہ بنایا جائے گا ۔ اس میں ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش اور تقریبا 100 میگاواٹ بجلی کی گنجائش بھی ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی اکھوڑی ڈیم جو ضلع اٹک میں بنایا جا سکتا ہے، پر فوری کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ دریائے کابل کا پانی اٹک کے پل سے براہِ راست بذریعہ نہر اکھوڑی میں ڈال دیا جائے ،تاکہ ممکنہ سیلاب کی صورت میں پشاور ویلی کو نقصان نہ پہنچے۔

یہ بھی پڑھیے:ہم زلزلےکےآفٹرشاکس روزمحسوس کرتے ہیں

سندھ دریا پر دوسرا ڈیم بھاشا کے مقام پر بنایا جائے گا۔ جس کا زیادہ تر رقبہ شمالی علاقہ جات میں آتا ہے کچھ علاقہ ہزارہ ڈویژن میں موجود ہے۔ کیونکہ یہ ڈیم زلزلوں کے علاقے میں ہےاس لیے یہ بہت مشکل سائیٹ ہے اور اس پر نہایت مہارت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔پہلے مرحلے میں ڈیم کی جھیل بنائی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں ڈیم پر بجلی گھر بنایا جائے گا ۔جو کہ کثیر سرمائے سے ہی ممکن ہے اُمید ہے کہ پاکستان میں تمام ممکنہ ڈیم بنائے جائیں گے تاکہ ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو سکے۔