ساڑھے پانچ کروڑ سالہ قدیم ایمزون کا جادو


ڈاکٹر نثار احمد، لاہور۔ امیزون جسے امیزونیہ بھی کہا جاتا ہے دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جس کا کل رقبہ پچپن لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں سے ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ یہ جنگل اتنا وسیع ہے کہ پاکستان جیسے سات ممالک اس جنگل میں سما سکتے ہیں۔

امیزون براعظم جنوبی امریکہ میں واقع ہے اور اس براعظم کے 20 فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ براعظم جنوبی امریکہ کے نو ممالک اس جنگل کی حدود میں آتے ہیں جن میں برازیل، کولمبیا، وینیزویلا، ایکواڈور، گیانا، سری نیم، پیرو، بولیویا اور فرینچ گیانا شامل ہیں۔ امیزون کا سب سے زیادہ یعنی 60 فیصد رقبہ برازیل میں واقع ہے۔ اس کے علاؤہ اس جنگل کا 13 فیصد پیرو، 10 فیصد کولمبیا اور بقیہ 17 فیصد باقی چھے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔

امیزون کے جنگلات میں ان جانوروں کی 450 سے زائد اقسام موجود ہیں۔فوٹو کریڈٹ:مونگابے

کہا جاتا ہے کہ 1540 میں ایک ہسپانوی سیاح جس کا نام فرانسسکو ڈی اوریلانا تھا یہاں آیا۔ یہاں ایک مقامی قبیلے ٹاپویاس کے ساتھ لڑائی ہوگئی۔ فرانسسکو ڈی اوریلانا نے اس جنگ میں دیکھا کہ اس قبیلے کی عورتیں انتہائی جنگجو ہیں اور قدیم یونانی عورتوں کے ساتھ شکل و شبہات میں ملتی جلتی ہیں جنہیں امیزون کہا جاتا تھا۔ اس وجہ سے اس جنگل کا نام امیزون جنگل پڑ گیا۔

امیزون کے جنگلات میں دنیا کا حجم کے لحاظ سے سب سے بڑا دریا یعنی دریائے ایمیزون بھی موجود ہے جس کی لمبائی 6500 کلومیٹر ہے۔ یہ حجم کے لحاظ اتنا بڑا ہے کہ خشک موسم میں بھی اس دریا کا پاٹ 3 سے 10 کلومیٹر چوڑا ہوسکتا ہے جبکہ برسات کے موسم میں اس کی چوڑائی 48 کلومیٹر تک پھیل سکتی ہے۔ دریائے امیزون کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اس کے بعد دوسرے سے چھٹے نمبر تک آنے والے دریائوں کا کل پانی دریائے امیزون میں پائے جانے والے پانی سے کم ہے۔ افریقہ میں پائے جانے والے دریائے نیل کے بعد یہ دنیا کا سب سے طویل دریا بھی ہے۔ دریائے نیل کی کل طوالت 6800 کلومیٹر ہے جو دریائے امیزون سے صرف 300 کلومیٹر زیادہ ہے۔

دریائے امیزون کا پانی بحر اوقیانوس یعنی اٹلانٹک اوشن میں گرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے دریائوں میں پائے جانے والے میٹھے پانی کا 20 فیصد حصہ دریائے امیزون میں موجود ہے۔ یہ دریا دو لاکھ انیس ہزار مکعب میٹر کی رفتار سے سمندر میں گرتا ہے۔ اس رفتار کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا سب سے بڑا دریا یعنی دریائے سندھ صرف 25485 مکعب میٹر کی رفتار سے سمندر میں گرتا ہے۔

جس طرح دریائے سندھ کے پانچ معاون دریا ہیں اسی طرح دریائے امیزون کے کل 1100 کے قریب معاون دریا ہیں جو امیزون کے جنگلات میں بہتے ہیں۔ ان میں 17 دریا ایسے ہیں جن کی لمبائی 1500 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ دریا اور ندی نالے امیزون کے جنگلات میں پائے جانے والے ان گنت جنگلی جانوروں اور پودوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور انہی کی بدولت امیزون کے جنگلات میں نمی رہتی ہے جس کی وجہ سے اس جنگل میں تقریبا ہر روز بارش ہوتی ہے۔ امیزون کے معاون دریائوں میں سے ایک دریا ایسا بھی ہے جس کا پانی ابل رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس پانی کا درجہ حرارت 95 سے 110 درجہ سنٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے۔

دنیا کے کل تیس فیصد جانور امیزون کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں ان گنت اقسام ایسی ہیں جو دنیا میں اور کہیں نہیں پائی جاتیں۔ ان جانوروں میں جیگوار، ٹاپیر، پکاری، مختلف اقسام کے بندر، گلہریاں اور پیوما وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں 430 مختلف اقسام کے ممالیہ جانور اور 1500 مختلف اقسام کے پرندے پائے جاتے ہیں جن میں میکائو طوطے بھی شامل ہیں جو دنیا کے خوبصورت ترین طوطے ہیں۔ اگر رینگنے والے جانوروں یعنی ریپٹائلز کی بات کی جائے تو امیزون کے جنگلات میں ان جانوروں کی 450 سے زائد اقسام موجود ہیں جن میں مختلف اقسام کے سانپ، چھپکلیاں، کچھوے اور مگرمچھ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاؤہ یہاں حشرات الارض کی تیس لاکھ سے زائد اقسام موجود ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق اس جنگل میں پائے جانے والے حشرات الارض کی کل انواع کی تعداد دو کروڑ تک ہوسکتی ہے۔ حشرات کے علاؤہ باقی کیڑے مکوڑوں میں یہاں 3000 کے قریب مکڑیوں کی انواع دریافت کی جاچکی ہیں۔ ان مکڑیوں میں دنیا کی سب سے بڑی مکڑی یعنی ٹرانچولا مکڑی بھی شامل ہے جو اتنی بڑی ہوتی ہے کہ پرندوں تک کا شکار کرلیتی ہے۔ اگر ایمفیبینز کی بات کی جائے تو اس جنگل میں ایمفیبینز کی 430 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں جن میں مختلف اقسام کے مینڈک، ٹوڈ اور سلے مینڈر وغیرہ شامل ہیں۔ انہی میں 120 مینڈکوں کی انواع ایسی ہیں جنہیں زہریلے ڈارٹ مینڈک کہا جاتا ہے۔ ان مینڈکوں کی جلد پر اتنا زہر ہوتا ہے جو پندرہ سے بیس بالغ انسانوں کی جان لے سکتا ہے۔ یہ مینڈک ان گنت دیدہ زیب رنگوں میں ملتے ہیں اور عموماً برسات کے موسم میں نظر آتے ہیں۔ یہاں پر ایک ایسی چیونٹی بھی پائی جاتی ہے جسے بلٹ آنٹ کہا جاتا ہے۔ اس چیونٹی کے کاٹنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کو گولی لگ گئی ہو۔ اس کے کاٹنے سے انسان کو شدید بخار ہوسکتا ہے اور بعض اوقات وہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

اگر آپ نے ہالی ووڈ فلموں کی سیزیز ایناکونڈا دیکھی ہو تو اس سیریز میں دکھایا جانے والے سانپ یعنی ایناکونڈا بھی اسی جنگل میں پایا جاتا ہے لیکن یہ سانپ فلم میں دکھائے گئے سانپ جتنا پھرتیلا نہیں ہوتا۔ یہاں پایا جانے والا گرین ایناکونڈا دنیا کا سب سے بڑا سانپ کہلاتا ہے۔ یہ سانپ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی سالم نگلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جنگل میں چمگادڑوں کی ایک ایسی قسم بھی پائی جاتی ہے جو جانوروں کا خون پیتی ہے۔ اسے خون آشام چمگادڑ یا ویمپائر بیٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں کے خونخوار جانوروں کی بات کی جائے تو ان میں جیگوار سر فہرست ہے جو تیندوے کی ایک نوع ہے۔ یہ وزن میں تیندوے سے کافی بھاری ہوتے ہیں۔ اس کے علاؤہ یہاں تازہ پانی میں پائے جانے والی مچھلیوں کی 3000 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ یہاں ایک عجیب و غریب دریائی ڈولفن بھی پائی جاتی ہے جسے پنک ڈولفن کہتے ہیں۔

امیزون کے جنگلات میں پودوں کی ساٹھ ہزار سے زیادہ انواع موجود ہیں جن میں صرف درختوں کی 18000 ہزار سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امیزون کے جنگلات میں کل 390 ارب درخت موجود ہیں۔ یہ جنگل اتنا گھنا ہے کہ یہاں اکثر مقامات پر دن کے وقت بھی اندھیرا رہتا ہے اور اگر بارش ہوجائے تو بارش کے پانی کو زمین تک پہنچنے میں پندرہ منٹ لگ سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ درخت 200 فٹ سے بھی زیادہ بڑے ہیں۔ امیزون کا یہ جنگل دنیا کے کل جنگلات کا 20 فیصد بنتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امیزون کا جنگل 70 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے جو دنیا میں جنگلات کے ذریعے جذب ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 35 فیصد ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان جنگلات کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے۔

نباتات اور حیوانات کے علاؤہ امیزون کے جنگلات میں 2 سے 3 کروڑ انسان بھی رہتے ہیں۔ یہاں 400 کے قریب ایسے قبائل موجود ہیں جن کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان قبائل کیلئے یہی جنگل ہی سب کچھ ہے جہاں وہ پیدا ہوتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں اور اپنی آخری سانس لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ قبائل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آدم خود قبائل ہیں۔ حالیہ عرصے میں کچھ ماہرین نے ان قبائل کے لوگوں سے رابطے کئے ہیں اور یوں ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ قائم کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ یہاں پایا جانے والا ایک قبیلہ جس کا نام پیراہا ہے تہذیب سے اتنا نابلد ہے کہ اس کے افراد دو سے زیادہ تک کی گنتی بھی نہیں گن سکتے۔ ڈاکٹر پیٹر گورڈن نے اس قبیلے پر تحقیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ اتنے کند ذہن ہیں کہ یہ نہ تو کوئی تصویر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی سیدھی لکیر تک کھینچ سکتے ہیں۔ اس قبیلے میں کل دو سو افراد موجود ہیں۔

دوستو امیزون اور دنیا میں پائے جانے والے دیگر جنگلات انسان اور جنگلی حیات کی بقاء کیلئے انتہائی اہم ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کے باقی جنگلات کی طرح امیزون کا جنگل بھی تیزی سے کم ہورہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ زراعت کیلئے جنگل کی کٹائی ہے۔ امیزون کے جنگل کی زمین ذراعت کیلئے زیادہ زرخیز نہیں ہوتی اور اس کی ذرخیزی دو سال میں ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہر دو سال بعد مقامی آبادی کو پرانی زمین چھوڑ کر نئے جنگل کی کٹائی کرنا پڑتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگست 2020 سے جولائی 2021 کے درمیان امیزون کے جنگل کا ساڑھے دس ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ جنگل سے خالی کردیا گیا ہے۔

لیکن خوش قسمتی سے مقامی آبادی کو ان جنگلات کے تحفظ کا احساس ہوچکا ہے۔ اسلئے امید ہے کہ بہت جلد اس جنگل کے رقبے میں کمی رک جائے گی۔