کیا جماعت اسلامی سیاسی میدان میں ان فٹ ہے ؟

علی نقوی ، دی سپر لیڈ ،لاہور

جماعت اسلامی کے کپتان  سراج الحق اپنے مخصوص اندازمیں  حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔

سراج الحق جب ملکی مسائل پر بولتے ہیں تو دل کی بھڑا س خوب نکالتے ہیں ۔ جب گرجتے ہیں تو جھل تھل ایک کرنا جانتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی مہنگائی پر عوام کی ترجمانی کرتے ہیں تو خوب ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔ آئی ایم ایف  کی اجارہ داری پر تنقید ہو یا بجلی کے اضافی بلوں پر شکوے ۔سراج الحق کا تنقیدی جملوں میں کوئی ثانی نہیں ۔

 جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کی کمان سنبھالتے ہوئے پارٹی ان کی پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ سراج الحق بھی اپنی پارٹی کی لاج رکھتے ہیں اور ہر فورم پر اپنی جماعت  کی ترجمانی کرتے ہیں ۔

اتوار کے روز امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق  نے ایک تقریب سے خطاب میں حکومت پر دوبارہ سخت تنقید کی ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو لگتا ہے کہ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہ کرپٹ ہے ۔

حکومت کی یہ سوچ سمجھ سے باہر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام فیصلے غیر منتخب لوگ کررہے ہیں۔ کابینہ میں بھی مافیا کے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے بل کیلئے ن لیگ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں ایک ہوگئے۔

جب ترکی کے وزیر اعظم معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھا رہے تھے ہمارے وزیراعظم مرغی کی گردن پر بیٹھ کر مریخ پر جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ مہنگائی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔

عوام کا جینا محال ہوچکاہے ایسے میں کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں جو اس حکومت کو مہلت دینا چاہتا ہو۔

 سراج الحق کی اس تقریر کا جائزہ لیں تو تمام تنقید معیاری معلوم ہوتی ہے ۔ یقینا موجودہ حالات تحریک انصاف کی کارکردگی پر سوالات اٹھار ہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی درست ترجمانی کرنے والی جماعت سیاسی میدان میں کہاں کھڑی ہے ؟

کیا تبدیلی کا وقت آچکا ؟

سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین  نے سپر لیڈ نیوز سے مختصر گفتگومیں جماعت اسلامی  کی پالیسی پر روشنی ڈالی ۔

انہوں نے کہا  کہ  جماعت اسلامی بڑی عوامی حمایت رکھتی ہے ۔ منظم جماعت ہے ، فلاحی کاموں میں پیش پیش ہے ۔ زلزلہ زدگان کی مدد ہو یا سیلاب میں گھرے ہوئے افراد کی مدد۔۔جماعت اسلامی کے جذبے کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

اس جماعت کے امور میں کرپشن بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں جماعت اسلامی سیاسی ماحول میں ایڈ جسٹ نہیں ہو پارہی  ۔

مذہبی سخت گیری بھی شاید  عوامی پذیرائی میں رکاوٹ ہے ۔ لیکن امید افزا  امر یہ  ہے کہ موجودہ جماعت اسلامی مذہبی شدت پسندی کی قائل نہیں لگتی ۔

سراج الحق کےحوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امیرجماعت اسلامی کی باتوں میں وز ن ہے ۔

سراج الحق منور حسن کی طرح عام آدمی کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن سیاست میں ہم خیال جماعتوں سے رابطے، مناسب موقع پر حکومت کے خلاف مزاحمت ، ووٹ بینک بڑھانے کے لئے جدوجہد  جیسے عوامل انتہائی ضروری ہیں ۔

شاید جماعت اسلامی کواب نئے سیاسی رجحانات میں منتقل کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ ورنہ جماعت اسلامی اپنی عوامی طاقت سے محروم ہو سکتی ہے ۔

عوامی طاقت  مگر ووٹ کیوں نہیں ؟

جماعت اسلامی کراچی میں بڑی عوامی طاقت رکھتی ہے ۔ جبکہ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی عوامی طاقت کی کوئی کمی نہیں ۔

جماعت اسلامی مختلف کاز کو لے کر کراچی میں بڑے پاور شو کر چکی ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کی حمایت میں نکالی گئی ریلی میں ریکارڈ شہریوں نے شرکت کی  تھی ۔

جماعت اسلامی کی کراچی میں نکالی گئی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ریلی کا منظر،فوٹو کریڈٹ :سپر لیڈ فائل

اسی طرح لاہور میں مہنگائی کے خلاف رکشا مارچ ہو یا  ناموس رسالت کے معاملے پر کوئی جلسہ ۔۔ سٹریٹ پاور کا کوئی مسئلہ نہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برسوں سے سٹریٹ پاور کی حامل یہ جماعت  ووٹ بینک میں کیوں پیچھے رہ جاتی ہے ۔ 

عوامی حمایت تو ہے مگر ووٹ کہا ں ہے ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ پاکستان میں  کسی بھی سیاسی جماعت  کو کامیابی کےلئے نظریات  کے ساتھ ساتھ روایتی “سیاست “سے بھی کام لینا پڑتا ہے ۔

ایسے میں جماعت اسلامی روایتی نظریات کےپرچار میں تو آگے ہے مگر عملی سیاسی میدان میں آؤٹ ہے ۔ 

اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اگر پارٹی نے اپنی سیاست بچانی ہے تو حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے  پارٹی کو گراس روٹ لیول پر فعال کرنا ہوگا اور پھر الیکشن میں تگڑے امیدواروں کو میدان میں اتارنا ہوگا۔

دوسری جانب شدت پسندی کی یقیناکوئی گنجائش نہیں ۔